مصطفی کمال اور وسیم اختر کے ڈرامے

289

مصطفی کمال اور وسیم اختر کی جاری جنگ کے نتیجے میں ان دونوں کا مذاق بننے کے سوا اور کیا ہورہا؟ یہ دونوں اپنا مذاق کس قیمت پر کیوں بنوا رہے ہیں؟ دونوں کیوں کر ایک دوسرے کی ذات تک پہنچ کر کچرا اٹھانے کے مسئلے پر یکجا ہونے کے باوجود بہت دور ہوچکے ہیں؟ تمام صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو شبہ ہوتا ہے کہ ’’دال میں کچھ کالا ہے‘‘۔ بارشوں کے دوران اور بعد میں جو کچھ ہوا وہ بہتے ہوئے گٹروں، دھنسی ہوئی سیوریج لائنوں، جگہ جگہ کھڑے پانی اور تقریباً تمام ہی علاقوں کی گلیوں اور سڑکوں پر موجود کچرے کے چھوٹے بڑے پہاڑوں کی شکل میں سب کے سامنے ہے۔ ان تمام مسائل کی اصل ذمے دار حکومت سندھ ہے مگر نجانے کیوں سابق سٹی ناظم مصطفی کمال کو حکومت سندھ کی انتہائی ناقص کارکردگی نظر ہی نہیں آرہی۔ حیرت تو اس بات پر بھی ہے کہ انہیں یہ بھی علم ہے کہ کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا تعلق کے ایم سی یا بلدیہ کراچی سے نہیں ہے۔ اس کی براہ راست ذمے دار سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ (ایس ایس ڈبلیو ایم بی) ہے اور ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنیں (ڈی ایم سیز) ہیں۔ پھر بھی وہ کسی بھی بہانے سے اس کا نزلہ بلدیہ عظمیٰ اور میئر وسیم اختر پر گرا رہے ہیں۔ جبکہ حکومت سندھ کے کردار پر اس طرح لب کشائی کرنے سے گریز کررہے ہیں جیسے کہ وہ سندھ حکومت کی کمزوریوں کو چھپا کر بلدیہ عظمیٰ کی برائیوں کو اجاگر کرنے کا ٹھیکا لیے ہوئے ہیں۔
وسیم اختر نے اختیارات نہ ہونے کے باوجود خلاف قانون اور اصول پیر کو مصطفی کمال کے اس دعوے کے ردعمل پر کہ وہ نوے دن میں کراچی کو صاف کرکے دکھاسکتے ہیں، انہیں فوراً رضا کارانہ بنیاد پر پروجیکٹ ڈائریکٹر گاربیج مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ وسیم اختر کا یہ اقدام غلط تھا مگر نجانے کس کے اشارے یا املے پر مصطفی کمال کے اس حکم کو تسلیم کرلیا۔ لیکن جس جذباتی انداز میں یہ مراسلہ جاری کیا گیا اسی انداز میں مصطفی کمال نے پی ڈی کوڑا کرکٹ کا چارج سنبھالنے کا اعلان بھی کردیا۔ لیکن وسیم اختر کی جانب سے دی گئی ذمے داریوں کو سنبھالنے کے لیے وہ کے ایم سی ہیڈ آفس جانے کے بجائے اصغر شاہ اسٹیڈیم پہنچ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں فوری اور رات دن کام کرنے کا عادی ہوں اس لیے رات دو بجے ہی اسٹیدیم میں کے ایم سی افسران کا اجلاس طلب کرکے صفائی کے لیے حکمت عملی تیار کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ کچرا اٹھانے یا شہر کی صفائی کے سنجیدہ معاملے پر ان کا اصغر شاہ اسٹیڈیم پہنچنے اور اجلاس طلب کرنے ہی سے سمجھدار حلقے یہ نوٹ کرچکے تھے کہ مصطفی کمال غیرسنجیدگی مظاہرہ کررہے ہیں اور وہ اس مسلے پر بابائے شہر، کراچی شہریوں کے ساتھ ’’پرسرار کھیل‘‘ کھیل رہے ہیں۔ ایسا کھیل جس کی ابتداء وسیم اختر نے خلاف قانون نے نوٹیفیکشن جاری کرکے کی تھی۔ اس کھیل میں میڈیا کے ذریعے شہری جس طرح بے وقوف بنتے رہے اور پیر کو رات گئے تک یہ تماشا دیکھ کر اپنا سر پیٹتے رہے۔
مصطفی کمال کا کچرا اٹھانے کے لیے پروجیکٹ ڈائریکٹر گاربیج کا چارج بھی کسی سٹی ناظم یا گورنر کی طرح لینا چاہ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے میٹروپولیٹن کمشنر، ڈائریکٹر فنانس اور دیگر افسران کے ساتھ اجلاس کریں گے ان سے بجٹ اور گاربیج اٹھانے کے کاموں پر کیے جانے والے فنڈز کا حساب لیں گے پھر کام شروع کریں گے۔ یہ جملہ بھی کسی مذاق سے کم نہیں تھا کیوںکہ انہیں طریقہ کار کے تحت میئر کے دفتر میں جاکر جوائننگ دینی چاہیے تھی پھر وہ میئر کے ساتھ میٹنگ کرتے اور اپنی حکمت عملی بتاتے کہ وہ اپنی ذمے داریاں کس طرح ادا کریں گے۔ جواب میں میئر بھی انہیں ناصرف اپنے دفتر اور اسٹاف سے ملاقات کراتے۔ مگر چوںکہ یہ کھیل اور مذاق تھا جو چلتا رہا اس کا مقصد کیا تھا یہ نہیں معلوم ہوسکا۔ مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ وہ فوری طور پر ڈی ایم سی وسطی، کورنگی اور غربی جائیں گے کیوںکہ وہاں کے چیئرمین ایم کیو ایم کے ہیں اور وسیم اختر بھی ایم کیو ایم کے ہیں جبکہ ڈی ایم سی جنوبی اور ملیر کے چیئرمین پیپلزپارٹی کے ہیں اس لیے انہیں بعد میں دیکھیں گے۔ سوال یہ تھا کہ ان دو ڈی ایم سی کے علاقوں کو بعد میں کیوں دیکھنا تھا یا دیکھنا ہی نہیں تھا؟ اس کا جواب تو یہی ہوسکتا ہے کہ مصطفی کمال ان دونوں اضلاع کو کراچی کا حصہ نہیں سمجھتے یا وہاں ان کے خیال میں صفائی کی ضرورت ہی نہیں…؟
اگر مصطفی کمال اپنے دعووں میں سچے ہیں تو انہیں چاہیے تھا کہ وہ منگل کو میئر کے دفتر پہنچتے اور باقاعدہ پی ڈی کی ذمے داریاں سنبھالتے اور اپنی کارکردگی سے شہر کو صاف کرکے دکھاتے۔ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
یاد رہے کہ میئر کراچی وسیم اختر نے پیر کو ایک مراسلے کے تحت پاک سر زمین پارٹی کے چیئرمین مصطفی کمال کو پروجیکٹ ڈائریکٹر گاربیج مقرر کیا تھا۔ میئر نے اپنے نوٹیفکیشن میں کہا کہ چوںکہ مصطفی کمال نے اپنے بیانات میں 90 دن کے اندر شہر کو صاف کرنے کا دعویٰ کیا ہے اس لیے انہیں رضاکارانہ بنیاد پر پی ڈی مقرر کیا جارہا ہے۔ میئر کے اس نوٹیفیکشن کے بعد کراچی کے سابق سٹی ناظم اور موجودہ چیئرمین پی ایس پی نے ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں نے وسیم اختر کی اس پیشکش کو قبول کرلیا ہے اور میں چارج لے رہا ہوں۔ انہوں نے میٹروپولیٹن کمشنر اور مختلف ڈائریکٹر سے کہا ہے کہ وہ آئیں اور مجھے بریفنگ دیں۔ وسیم اختر کے مراسلے اور مصطفی کمال کی اس پریس کانفرنس پر شہریوں کی بڑی تعداد یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ دونوں شخصیات شہر کی صفائی ستھرائی کے نام پر کیا کررہے ہیں؟ ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگوں کو ان کو درپیش مسائل سے دور کرکے سیاسی شعبدہ بازی کررہے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ مصطفی کمال نے اپنے چار سالہ نظامت کے دور میں بھی کوئی ایسا تیر نہیں مارا تھا کہ انہیں اپنی کارکردگی کا حوالہ دے کر واویلا مچانا چاہیے۔ انہوں نے اپنے بااختیار دور میں ماسوائے سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خاں کی جانب سے وفاق سے لیے گئے فنڈز کے استعمال کے کچھ بھی نہیں کیا۔ ان کے اپنے دور میں بھی شہر میں یومیہ 5 ہزار ٹن کچرا اٹھایا نہیں جاتا تھا۔ صرف سات ہزار ٹن کچرا اٹھاکر ٹھکانے لگایا جاتا تھا۔ روزانہ 5 تا 6 ہزار ٹن کچرا سڑکوں اور گلیوں میں پڑا رہنے کی وجہ سے ان کے دور میں ہونے والی معمولی بارش سے ان کا اپنا بنایا ہوا لیاقت آباد انڈر پاس بھر چکا تھا کیوںکہ بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے نالے اور سیوریج لائینیں کلیئر نہیں تھے۔ اس وقت شہر سے یومیہ 12 ہزار ٹن کچرا نکلتا تھا اب 13 سے 14 ہزار ٹن پیدا ہوتا ہے۔ مصطفی کمال جس سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ناظم تھے وہ ایک پوری حکومت تھی۔ اور وہ خود خوف کی علامت متحدہ قومی موومنٹ کے ناظم تھے۔ اس لیے لوگوں کو ان کے دور میں کچھ خراب نظر نہیں آتا تھا۔ آتا بھی کیسے؟؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ مصطفی کمال شہر میں گندگی غلاظت کی ذمے داری صوبائی حکومت پر ڈالنے سے بھی گریز کررہے ہیں۔ وسیم اختر سے گرما گرمی کے دوران بھی وہ حکومت سندھ کا ذکر تک نہیں کررہے تھے۔ نتیجے میں صوبائی وزیر اطلاعات کا موقف سامنے آیا جن کا کہنا تھا کہ ہم مصطفی کمال کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں گے۔ سعید غنی اس بات کا کوئی جواب ہی نہیں دے سکے کہ وسیم اختر کی جانب سے جاری ہونے والا غیر قانونی نوٹیفکیشن کو کیا حکومت بھی قانون کے مطابق مان چکی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حکومت سندھ اپنی اور اپنے ماتحت اداروں سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ مینجمنٹ بورڈ، ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن، ڈسٹرکٹ کونسل کراچی اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی غفلت و لاپروائی پر کامیابی سے پردہ ڈال گئی۔
وسیم اختر آج تک اختیارات نہ ہونے کا رونا روتے رہے ہیں مگر 26 اگست کو اچانک وہ اس قد بااختیار ہوگئے کہ انہوں نے ایک سیاسی شخصیت کو پروجیکٹ ڈائریکٹر گاربیج بنانے کا نوٹیفیکشن جاری کردیا۔ یہ عمل بھی ان کی طرف سے بڑا مذاق تھا اور ہے۔ دلچسپ امر یہ کہ ’’میں میں میں‘‘ کرنے والے مصطفی کمال نے ان کے نوٹیفیکشن کو تسلیم بھی کیا مگر طریقہ و قواعد کے تحت پی ڈی کا عہدہ نہیں سنبھالا۔ بعدازاں ڈرامے کو ڈراپ سین کی طرف لے جاتے ہوئے وسیم اختر نے احکامات پر عمل نہ کرنے پر مصطفی کمال کو معطل کردیا۔ جبکہ شہریوں کا یہ سوال جوں کا توں ہے کہ کراچی کو کون صاف کرے گا؟ اس سے اہم سوال یہ ہے کہ 2014 سے قائم سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو کب تک بلاوجہ پالا جائے گا؟؟