سیدنا عمرؓ نے سیدنا سعدؓ کو لکھا: جنگ شروع کرنے سے پہلے اسلامی آئین کے مطابق یزدگرد کے سامنے صلح کی شرائط پیش کردی جائیں اور اس مقصد کے لیے سفیر مدائن (فارس کے دارالحکومت) بھیجے جائیں۔
یزدگرد کو اسلامی سفیروں کی آمد کی اطلاع ملی تو اس نے خاص طور پر دربار کو آراستہ کیا۔ اس نے سوچا کہ اتنی عظیم مملکت کے سفیروں کا استقبال اُن کے شایانِ شان تُزُک واحتشام کے ساتھ ہونا چاہیے۔ جب مسلم سفیر وہاں پہنچے تو اُن کی حالت یہ تھی: ’’طویل سفر کے سبب چہروں پر تھکاوٹ کے آثار، کندھوں پر بوسیدہ چادریں، ہاتھوں میں چابک، پائوں میں موزے اور سواری کے گھوڑے دبلے پتلے گرد اڑاتے چلے آرہے تھے‘‘۔ یزدگردیہ منظر دیکھ کر حیران ہوگیا: اتنی عظیم مملکت اور اس کے سفیروں کی یہ حالتِ زار، اُسے اُن سے بات کرنا بھی گوارا نہ تھی۔ لیکن جب اس کے اہلِ دربار نے اس پر زور دیا تو وہ بادلِ ناخواستہ ان سے ملنے کے لیے آمادہ ہوگیا۔ وفد دربار میں پہنچا تو ان کے رئیس نے حسبِ معمول شہنشاہِ ایران سے کہا: یا تو اسلام قبول کر کے ہم میں سے ہوجائو یا اسلامی مملکت کے اقتدار کی برتری تسلیم کرلو تاکہ تم بھی محفوظ رہو اور تمہارا ملک اور اس کے باشندے بھی، اور اگر یہ بھی قبول نہیں تو پھر تلوار کے فیصلے کا انتظار کرو۔
یزدگرد نے یہ سنا تو غصہ کے مارے آگ بگولا ہوگیا، کہنے لگا: تم وحشی اور بدتہذیب عرب (فردوسی کے الفاظ میں) سوسمار کھانے والے، اونٹوں کا دودھ پینے والے گنوار اور تمہاری جرأت وجسارت کا یہ عالم!، کیا تم بھول گئے ہو کہ تم جب معمولی سی سرکشی کیا کرتے تھے تو ہم (اہلِ فارس) خود تمہارے مقابلے میں آنا اپنے لیے باعثِ ننگ وعار سمجھتے تھے، ہم اپنے باجگزار سرداروں کو حکم دیتے تھے اور وہ تمہاری گوشمالی کر کے تمہیں سیدھا کردیتے تھے۔ اب اگر بھوک اور افلاس نے تم لوگوں کو جنگ پر آمادہ کردیا ہے، تو ہم تمہارے لیے روٹی کپڑے کا بندوبست کردیتے ہیں، جائو! آرام سے بیٹھو، کیوں اپنی جان کے درپے ہو۔
رئیس وفد نے یزدگرد کی باتوں کو نہایت سکون و اطمینان سے سنا اور کہا: تم نے ہماری پہلی حالت کے متعلق جو کچھ کہا ہے، وہ بالکل ٹھیک ہے، ہم اس سے بھی زیادہ جاہل اور زبوں حال تھے۔ لیکن خدا کی کتاب اور اس کے رسول ؐ کی تعلیم وتربیت نے ہمارے اندر جو انقلاب برپا کردیا ہے، اس کا تمہیں علم نہیں، اب ہم ایک بدلی ہوئی قوم ہیں۔
نگاہِ کم سے نہ دیکھ، اُن کی کج کلاہی کو
یہ بے کلاہ ہیں، سرمایۂ کلاہ داری
میں ان تین شرطوں کو پھر سے دہرائے دیتا ہوں جو پہلے پیش کی گئی ہیں، بولو! کیا چاہتے ہو؟۔
یہ سن کر یزدگرد آپے سے باہر ہوگیا اور غیظ وغضب میں آکر بولا: اگر سفیروں کو قتل کرنا سفارتی اَقدار کے منافی نہ ہوتا، تو میں تمہاری گردنیں اڑا دیتا۔ جائو اور جو تمہارے جی میں آئے کرو، لیکن جاتے جاتے ایک تحفہ ضرور لیتے جائو، یہ کہہ کر اس نے مٹی کا ایک ٹوکرا منگایا اور اسے رئیس وفد کے سامنے رکھ دیا۔ انہوں نے ٹوکرا اٹھایا اور شاداں وفرحاں اپنے سپہ سالار سیدنا سعدؓ کے پاس واپس پہنچے، اُن کو سارا ماجرا سنایا اور اس کے بعد مٹی کا وہ ٹوکرا پیش کرتے ہوئے کہا: ’’مبارک ہو، یزدگرد نے خود ہی اپنی زمین ہمارے حوالے کردی‘‘۔ بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ اس مٹی کے ٹوکرے میں فی الواقعہ سلطنت فارس کی سرزمین سمٹ کر آگئی تھی، علامہ اقبال نے کہا ہے:
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
شیخ سَعدی نے کہا ہے:
خاکسارانِ جہاں را بہ حقارت مَنِگر
توچہ دانی کہ درین گرد سوارے باشد
ہربیشہ گماں مبر کہ خالیست
شاید کہ پلنگ خفتہ باشد
ترجمہ: ’’اس دنیا کے خاکساروں کو حقارت سے نہ دیکھا کرو، تمہیں کیا خبر کہ اس گَرد میں کوئی مردِ میدان بھی ہوگا۔ ہر جنگل کے بارے میں یہ گمان نہ کیا کر وکہ خالی ہے، شاید کہ کہیں کوئی شیر سویا ہوا ہو‘‘۔
الغرض لشکرِ اسلام مقابلے کے لیے نکلا اور دوسری جانب سے رستم مقابلے کے لیے روانہ ہوا۔ رستم کا لشکر کَرّوفَر والا تھا، ایک لاکھ اسّی ہزار فوج تھی، تقریباً تین سو جنگی ہاتھی فوج کے ہمراہ تھے اور آلاتِ حرب وضرب اور سامانِ جنگ کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ اس اہتمام کے باوجود رستم جنگ کو ٹالنا چاہتا تھا، وہ مجاہدین سے واقف تھا، اس لیے ان کے سامنے آنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتا تھا۔ چنانچہ اس نے مدائن سے قادسیہ تک تیس چالیس میل کا فاصلہ طے کرنے میں چھ ماہ صرف کردیے اور جب اس نے دیکھا کہ اب کوئی راہِ فرار نہیں ہے اور یزدگرد کے حکم کی تعمیل کرنی ہی ہوگی، تو وہ قادسیہ کے قریب مقام عتیق میں خیمہ زن ہوگیا۔ اب بھی اس کی خواہش تھی کہ کسی طرح مقابلے کی نوبت نہ آئے، اس لیے اس نے سیدنا سعد کے پاس پیغام بھیجا کہ کسی سفیر کو بھیج دیں تاکہ اس سے مصالحت کی بات ہوسکے، چنانچہ سیدنا سعد نے ربعی بن عامر کو سفیر بناکر رستم کے پاس بھیجا۔
رستم نے بھی (یزدگرد کی طرح) نہایت شان وشوکت کے ساتھ دربار کو آراستہ کیا، سونے کا تخت بچھایا اور اس کے چاروں طرف حریر واَطلس اور رومی قالینوں کا فرش بچھایا، اوپر سنہری شامیانے لگائے گئے جن کی جھالریں موتیوں کی تھیں، لیکن آج اسے کچھ اور ہی طرح کے انسانوں کا سامنا تھا، اللہ کی راہ میں شہادت جن کی تمنا اور منزل تھی، علامہ اقبال نے کہا ہے:
نگاہِ فقر میں، شانِ سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو، وہ قیصری کیا ہے
بُتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی، کہ جنہیں
خبر نہیں، رَوشِ بندہ پروری کیا ہے
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی، تو دلبری کیا ہے
اسی خطا سے عتابِ ملوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہوں مآلِ سکندری کیا ہے
کسے نہیں ہے تمنائے سروری، لیکن
خودی کی موت ہو جس میں، وہ سروری کیا ہے
خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے، شاعری کیا ہے
ربعی اپنے مخصوص سکندرانہ جلال اور قلندرانہ ادائوں کے ساتھ دربار میں پہنچے۔ ایک خندۂ استغنا سے گردوپیش پر نظر ڈالی۔ فرش پراپنا نیزہ گاڑ کر اس کے ساتھ گھوڑا باندھا اور نہایت بے تکلفی سے تخت کے ایک طرف رستم کے برابر بیٹھ گئے۔ اہل دربار نے روکنا چاہا تو آپ نے کہا: ہمارے ہاں اس کی سخت ممانعت ہے کہ ایک شخص خدا بن کر بیٹھ جائے اور باقی انسان اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں، رستم نے اپنے لوگوں سے کہا کہ ان سے مت الجھو، علامہ اقبال نے کہا ہے:
پادشاہاں در قبا ہائے حریر
زرد رُو از سہم آں عریاں فقیر
ترجمہ: بادشاہ ریشمی خِلعت پہنے ہوئے ہیں اور لباسِ فاخرہ سے عاری فقیر کی ہیبت سے اُن کا چہرہ زرد ہے۔
یہاں بھی اسی انداز کے سوال وجواب ہوئے جو یزدگرد کے دربار میں ہوئے تھے، دورانِ گفتگو رستم نے ربعی سے کہا: تمہاری تلوار کا نیام بہت بوسیدہ ہے، آپ نے جواب دیا: سپاہی کا مقصد تلوار اور اس کی دھار سے ہوتا ہے نہ کہ اس کے نیام سے، تم نے اس تلوار کی دھار کو نہیں دیکھا، اسے دیکھو گے تو سمجھ میں آجائے گا کہ یہ کیا ہے، پھر اس نے کہا: تمہارے نیزے کا پھل بہت چھوٹا سا ہے، یہ لڑائی میں کیا کام دیتا ہوگا، انہوں نے کہا: وہی کام جو ایک چنگاری نَیستاں (پورے جنگل کو آگ لگانے) کے لیے دیتی ہے، یعنی جس طرح ایک چنگاری پورے جنگل کو جلا ڈالتی ہے، ہمارے مجاہد اور ہمارے ہتھیار لشکرِ اَعداء کو تہس نہس کرنے میں وہی کام انجام دیتے ہیں۔
سفارت کاری کا سلسلہ تین دن تک جاری رہا، لیکن مصالحت کی کوئی صورت پیدا نہ ہوسکی، کیونکہ اہلِ توحید اور اہلِ حق کے نزدیک حق اور باطل کے درمیان سودا بازی، کچھ لو اور کچھ دو والا معاملہ نہیں ہوسکتا۔ باطل اپنے مقام سے جتنا بھی چاہے سرک جائے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، وہ باطل ہی رہتا ہے، لیکن حق اگر اپنے مقام سے ذرہ برابر بھی سرک جائے تو وہ حق نہیں رہتا، باطل ہوجاتا ہے۔ غلط جواب سیکڑوں ہوسکتے ہیں، صحیح جواب ایک ہی ہوتا ہے، یہی سبب ہے کہ حق وباطل میں مفاہمت نہیں ہوسکتی، یہی اسلام کا پیغام ہے، یہی دین کی اساس ہے، پس سفیرِ اسلام باطل کے ساتھ مفاہمت کے لیے آمادہ نہ ہوئے، علامہ اقبال نے کہا ہے:
باطل دوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے
شرکت میانۂ حق وباطل نہ کر قبول
اس کا نتیجہ قادسیہ کا لرزا دینے والا معرکہ تھا۔ ایرانی لشکر کے مقابلے میں اسلامی لشکر کل تیس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا، جن کے پاس وہی بوسیدہ نیاموں والی تلواریں اور چھوٹی اَنیوں والے تیر اور نیزے تھے، لیکن ان کے سینوں میں دھڑکنے والے وہ بیقرار دل تھے، جن کے شوقِ شہادت کا عالَم دیدنی تھا، غالب نے کہا ہے:
جذبۂ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
معرکۂ کار زار گرم ہوا۔ سپہ سالار سیدنا سعد کو عِرقُ النِساء کی شدید تکلیف تھی جس کی وجہ سے وہ گھوڑے پر سوار ہوکر میدان میں نہیں آسکتے تھے۔ پس وہ میدانِ جنگ کے ایک سرے پر ایک عمارت میں لیٹے ہدایات دے رہے تھے، تین دن کے زبردست معرکے کے بعد اہلِ فارس کو شکست ہوئی، رستم مارا گیا اور سلطنتِ فارس کا خاتمہ ہوا۔ پس حقیقی انقلاب وہی ہے جو زیردست کو بالا دست بنادے اور بالا دست کو قانون کا تابع بنادے، انسانیت کو احترام ملے، بندوں کی خود ساختہ خدائی کا خاتمہ ہو اور حاکمیتِ الٰہیہ کے مناظر ومظاہر چہار سو نظر آئیں۔
انقلاب محض چہروں کی تبدیلی کا نام نہیں ہے، اس میں نظام بھی بدلتا ہے اور منتظم بھی بدل جاتے ہیں، انقلاب جاری نظام میں پیوندکاری یا مفاہمت کا نام نہیں ہے، بلکہ اُسے جڑ سے اکھیڑ کر نئی اساس پر قائم کرنے کا نام ہے، اسی کواسلامی اصطلاح میں تجدید واِحیائے دین اور جدید اصطلاح میں نَشأَۃ ونہضت کہتے ہیں۔ لیبل تبدیل کرنے سے زہرِ ہلاہل آبِ حیات نہیں بن جاتا، اس کے لیے جوہری تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم جس تبدیلی کے تجربے سے گزر رہے ہیں، وہ محض چہروں کی تبدیلی ہے، بلکہ اکثر چہرے بھی پرانے ہیں، مقتدرہ کی ساخت بھی وہی ہے، نظامِ آئین وقانون میں کوئی جوہری تبدیلی بھی نہیں ہے، اس لیے اس کے ثمرات نظر نہیں آرہے، رسول اللہؐ نے سچ فرمایا تھا: ’’اسلام اپنے ماقبل کے اثرات کو مٹا دیتا ہے، (مسلم)‘‘۔