مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟

631

اقبال کا ہمیشہ زندہ رہنے والا شعر ہے۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
اقبال کو اتھارٹی مان لیا جائے تو جاوید احمد غامدی اور ان کے شاگردوں کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا۔ اس کا تازہ ترین ثبوت غامدی صاحب کے شاگرد خورشید ندیم کا ایک حالیہ کالم ہے۔ خورشید ندیم نے اس کالم میں کیا فرمایا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔
’’ کلام اقبال کے حفاظ کو ہم نے فکر اقبال کے شارحین سمجھا جو ہمیں بتاتے رہے کہ اقبال بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک سیاسی وحدت کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ ہم نے اقبالیات کے کسی سنجیدہ استاد سے رجوع نہیں کیا، جو ہمیں بتاتا کہ اقبال تو بالکل دوسری بات کہہ رہے تھے۔ ان کا درس تو یہ تھا کہ جدید تاریخ نے مسلمانوں کو قومی ریاستوں میں تقسیم کردیا ہے۔ گویا اب دنیا میں کئی مسلم اقوام پائی جاتی ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے، اب ہر قوم کو چاہیے کہ ساری توجہ اپنی داخلی تعمیر پر دے۔ اگلے مرحلے میں یہ ممکن ہے کہ ان کے مابین کوئی ’’لیگ آف مسلم نیشنز‘‘ جیسا اتحاد وجود میں آجائے۔ اقبال جان چکے تھے کہ خلافت یا سلطنت کا دور اب ختم ہوچکا۔
ہم نے سیاسی حوالے سے بھی دین کی درست تعبیر نہیں کی۔ ہم یہ سمجھتے رہے کہ آج بھی فضائے بدر پیدا کی جاسکتی ہے اور فرشتے نصرت کو اُتر سکتے ہیں۔ ہم واعظین کے بجائے قرآن مجید کے کسی عالم سے رجوع کرتے تو وہ ہمیں بتاتا کہ نصرتِ الٰہی کا قانون کیا ہے۔ آج بھی ایسے مبلغین موجود ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ایمان ٹیکنالوجی اور مادی طاقت کا متبادل ہے۔ ستم در ستم کہ سنجیدہ صاحبانِ علم بھی اس ’’جذبہ ایمانی‘‘ کو قابلِ رشک کہتے ہیں۔ یہ گرہ کوئی صاحب علم ہی کھول سکتا ہے کہ ایمان کا تعلق اخروی کامیابی سے ہے اور ٹیکنالوجی کا اس سنتِ الٰہی سے جو اس مادی دنیا میں جاری و ساری ہے۔
اب آئیے داخلی محاذ کی طرف۔ یہ معلوم ہے کہ کوئی قوم جب تک انفرادی سطح پر طاقتور نہیں ہوگی وہ کوئی معرکہ سر نہیں کرسکتی۔ انفرادی طاقت میں اولین حیثیت مادی طاقت کی ہے۔ مادی طاقت سرمائے کی گردش سے جنم لیتی ہے۔ اگر ہم سرمائے کو سازگار ماحول نہیں دیں گے تو وہ کوچ کرجائے گا۔ جہاں سیاسی استحکام نہیں ہوتا، سرمایہ وہاں تادیر قیام نہیں کرتا۔ سیاسی استحکام کے لیے سیاسی و معاشرتی تنوع کا احترام کرنا پڑتا ہے‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 26 اگست 2019ء)
خدا کا شکر ہے کہ خورشید ندیم نے اپنے زیر بحث کالم میں اقبال کو اتھارٹی مانا ہوا ہے۔ بس ان کو شکوہ یہ ہے کہ اقبال کو اقبال کے ’’حافظوں‘‘ نے اُچک لیا ہے اور قوم اقبال کے سلسلے میں اقبال کے ’’شارحین‘‘ سے رجوع نہیں کرتی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ خورشید ندیم یہ بھی بتا دیتے کہ اقبال کے کون سے ’’حافظ‘‘ ان کی شاعری کا غلط استعمال کررہے ہیں اور اس غلط استعمال کا ثبوت کیا ہے؟ اس کے ساتھ ہی خورشید ندیم کا فرض تھا کہ وہ اقبال کے ’’مستند شارحین‘‘ کی بھی نشاندہی کردیتے۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔
یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ خورشید ندیم کا تصور خدا اپنے استاد کی طرح انتہائی ناقص ہے۔ خدا ایک دائمی وجود ہے اور اس کا علم بھی دائمی ہے، رحمت بھی دائمی ہے، اپنی مخلوق سے محبت بھی دائمی ہے، اس کی عنایت بھی دائمی ہے۔ چناں چہ اس کے معجزات اور اس کی عطا کی ہوئی کرامات کی روایت بھی دائمی ہے۔ اس لیے کہ اس کا دین اسلام بھی رہتی دنیا تک کے لیے ہے۔ یہ ہمارے شخصی، ذاتی اور انفرادی خیالات نہیں بلکہ یہ اُمت کا ’’اجتماعی موقف‘‘ ہے۔ مگر خورشید ندیم کا خیال ہے کہ فضائے بدر صرف بدر کے لیے تھی اور اب فرشتے اہل ایمان کی مدد کے لیے آسمان سے زمین پر نہیں اُتر سکتے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ خورشید ندیم ایک جانب اقبال کو اتھارٹی مانتے ہیں اور دوسری جانب اقبال کا مذاق اڑاتے ہیں حالاں کہ اقبال نے صاف کہا ہے۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
یہاں سوال یہ ہے کہ اقبال مسلمانوں کو فضائے بدر پیدا کرنے کی تلقین کیوں کررہے ہیں؟ اس لیے کہ انہیں معلوم ہے کہ فضائے بدر کسی خاص زمانے کے لیے مخصوص نہیں تھی۔ اللہ کا دین اور رسول اکرمؐ کی لائی ہوئی شریعت قیامت تک کے لیے ہے۔ چناں چہ اگر مسلمان رسول اکرمؐ کا اتباع کرتے ہوئے ویسا ہی ایمان پیدا کرلیں جیسا کہ میدانِ بدر میں صحابہ کرامؓ کا تھا تو فرشتے آج بھی ہماری مدد کے لیے آسمانوں سے ضرور اُتریں گے۔ مگر خورشید ندیم خدا سے بھی مایوس ہیں، اسلام اور مسلمانوں سے بھی مایوس ہیں، وہ صرف امریکا اور یورپ سے پُراُمید ہیں۔ اس لیے کہ امریکا اور یورپ کے پاس جمہوریت ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ یہاں اقبال کا شعر ایک بار پھر پڑھ لیجیے۔ اقبال نے کہا ہے۔
بتوں سے تجھ کو اُمیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟
یہاں ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اقبال فضائے بدر کی بات صرف ایک بار کہہ کر نہیں رہ گئے بلکہ انہوں نے الفاظ اور تناظر بدل بدل کر یہ بات بار بار کہی ہے۔ اقبال کا ایک اور شعر ہے۔
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
یہاں بھی اقبال ایمان کے معجزے کو سیدنا ابراہیمؑ تک محدود نہیں کررہے۔ وہ فرما رہے ہیں کہ سیدنا ابراہیمؑ کے جیسا ایمان اگر آج بھی پیدا اور ظاہر ہوجائے تو آگ کے گلزار بننے کا معجزہ پھر رونما ہوسکتا ہے۔ اقبال کا ایک اور شعر ہے۔
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اقبال کہہ رہے ہیں کہ اصل چیز تو رسول اکرمؐ کا اتباع ہے۔ آپؐ سے محبت ہے۔ اگر مسلمان رسول اکرمؐ کا کامل اتباع کرنے لگیں تو دنیا کیا چیز ہے مسلمان روح و قلم کے مالک بن سکتے ہیں۔ یہاں بھی ’’امکانات کا در‘‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھلا ہے۔ مسلمان آج رسول اکرمؐ سے وفا کریں گے تو وہ آج دنیا اور لوح و قلم کے مالک بن جائیں گے۔ مسلمان سو سال بعد ایسا کریں گے تو بھی دنیا کی حکومت اور لوح و قلم کی ملکیت ان کی ہوگی۔ اقبال کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیے۔
ولایت، پادشاہی، علم اشیا کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتہ ایمان کی تفسیریں
اقبال کہہ رہے ہیں کہ خدا انسان کو اپنا دوست بناتا ہے تو ایمان کی وجہ سے۔ اسے حکومت عطا کرتا ہے تو ایمان کے باعث اور اسے علم اشیا سے نوازتا ہے تو ایمان کی بدولت۔ یہاں بھی اقبال ایمان کے معجزات کو کسی زمانے تک محدود نہیں کررہے۔ ان کا یقین ہے کہ جب جب ایمان کا اعلیٰ معیار سامنے آئے گا ایمان اہل ایمان کو ولایت، بادشاہت اور علم کی سلطنت تک پہنچائے گا۔ اقبال کا ایک شعر ہے۔
تُو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی مرا ایماں ہے زناری
اس شعر میں اقبال رسول اکرمؐ کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ چوں کہ میری دانش مغربی ہے اور میرے ایمان پر ہندو روایت کا سایہ ہے اس لیے اگر رسول اکرمؐ میری مدد نہیں فرمائیں گے تو میری تباہی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک رسول اکرمؐ کی مدد کا در اگر بند نہیں تو خداوند قدوس کی مدد کے در کے بند ہونے کا تصور کیوں کر کیا جاسکتا ہے۔ دُعا کا در ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھلا ہے اور رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ دعا سے قیامت کو بھی 500 سال کے لیے ٹالا جاسکتا ہے۔ مگر اس کے لیے ایسی دعا کرنے والا درکار ہے جو قیامت کو پانچ سو سال تک ٹلوا سکتا ہو۔ معلوم ہوا کہ یہاں بھی اصل چیز ایمان یا تعلق بااللہ ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہماری دنیا آج بھی ’’معجزات کی دنیا‘‘ ہے۔ اتفاق سے بیسویں صدی میں دو اور اکیسویں صدی کے آغاز میں ایک معجزے کا تجربہ پوری دُنیا کے سامنے آچکا۔ پہلا معجزہ خود پاکستان کی تخلیق ہے۔ ’’عالم اسباب‘‘ کو دیکھا جائے تو برصغیر کے مسلمان ایک آزاد ملک کیا ایک ’’آزاد قصبہ‘‘ بھی تخلیق کرنے کے قابل نہیں تھے۔ ان کا مقابلہ وقت کی سپر پاور یعنی سلطنت برطانیہ سے بھی تھا اور عظیم اکثریت سے بھی۔ اس پر طرہ یہ تھا کہ مذہبی تشخص کی بنیاد پر ایک قوم ہونے کا تصور 1930 سے 1947 تک کہیں موجود ہی نہیں تھا۔ بدقسمتی سے مسلمان ’’ایک قوم‘‘ بھی نہیں تھے وہ صرف ایک ’’بھیڑ‘‘ یا ایک ’’Crowd‘‘ تھے مگر قائد اعظم کا ایقان، Conviction یا ایمان قوی تھا۔ چناں چہ انہوں نے پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے قیام پاکستان کی ’’انہونی‘‘ کو ’’ہونی‘‘ بنا کر دکھا دیا۔
افغانستان میں سوویت یونین کی شکست بھی 20 ویں صدی کا دوسرا معجزہ ہے۔ سوویت یونین وقت کی دو سپر پاورز میں سے ایک تھا۔ اس کی تاریخ تھی کہ وہ جہاں جاتا ہے وہاں سے واپس نہیں آتا مگر مجاہدین نے سوویت یونین کو شکست فاش دے دی۔ اس سے کہیں بڑی فتح مجاہدین نے افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف حاصل کی ہے۔
امریکا اور مجاہدین کی سیاسی طاقت میں ایک اور ایک لاکھ کی نسبت ہے۔ مجاہدین اور امریکا کی معاشی طاقت میں ایک اور ایک کروڑ کی نسبت ہے۔ مجاہدین اور امریکا کی عسکری طاقت میں ایک اور ایک ارب کی نسبت ہے۔ مگر مجاہدین کی چیونٹی نے امریکا کے ڈائنا سور کو مار گرایا۔ یہ معجزہ نہیں تو پھر معجزہ کیا ہوتا ہے؟۔ لفظ معجزہ ’’عجز‘‘ سے نکلا ہے۔ عجز کا مفہوم ہے کہ جو کام انسان اپنی طاقت سے انجام نہ دے سکے اسے انجام دے دے تو وہ معجزہ ہے۔ مادی اسباب کو دیکھا جائے تو مجاہدین امریکا کو شکست دینے سے ’’عاجز‘‘ تھے مگر انہوں نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کا بھرکس نکال دیا۔ یہاں تک کہ امریکا ان طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہوا جنہیں وہ 18 سال تک دہشت گرد اور درندے قرار دیتا رہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ معجزہ کبھی بھی ہوسکتا ہے۔ بدر میں بھی، 1947میں بھی، 1980 کی دہائی میں بھی، 2019 میں بھی۔
خورشید ندیم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ کچھ لوگ ایمان کو ٹیکنالوجی کا متبادل سمجھتے ہیں۔ عرض ہے کہ جو مسلمان ایمان کو ٹیکنالوجی کے مساوی سمجھتا ہے وہ کافر ہے۔ اس لیے کہ ایمان ٹیکنالوجی سے کروڑوں گنا برتر ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین اور امریکا کی شکست اپنی اصل میں ایمان کی ٹیکنالوجی پر فتح کا ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت ہے۔ البتہ مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ کفار کے مقابلے پر اپنے ’’گھوڑے‘‘ تیار رکھیں۔ چناں چہ مسلمانوں کو توپ کے مقابلے پر توپ، میزائل کے مقابلے پر میزائل اور ایٹم بم کے مقابلے پر ایٹم بم بنالینا چاہیے مگر مسلمان کو بھروسا توپ، میزائل اور ایٹم بم پر نہیں خدا پر کرنا چاہیے اور خدا پر بھروسے کی بنیاد ایمان ہے۔ جیسا جس کا ایمان ہے اس کا خدا پر ویسا ہی بھروسا ہے۔ غامدی صاحب اور ان کے شاگرد خورشید ندیم چوں کہ خدا سے زیادہ ٹیکنالوجی پر ایمان رکھتے ہیں اس لیے انہیں لگتا ہے کہ بھلا صرف ایمان سے ٹیکنالوجی کا مقابلہ کہاں کیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کی زندگی کا اصول ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کے مطابق بیماری میں دوا کھاتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی اللہ شافی اللہ کافی کہتا ہے۔ یعنی شفا کے سلسلے میں اس کا حتمی بھروسا خدا پر ہوتا ہے دوا پر نہیں۔ یہی اصول ایمان اور ٹیکنالوجی پر بھی منطبق ہوتا ہے۔
خورشید ندیم نے اپنے کالم میں مادی طاقت اور سرمائے کو قوموں کی زندگی میں فیصلہ کن قرار دیا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ خدا اور اس پر ایمان کو غامدی کے شاگرد کو قوم، ملت اور امت کے لیے کم نظر آتا ہے مگر مادی طاقت بالخصوص سرمائے کی طاقت انہیں فیصلہ کن نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سوویت یونین اور امریکا کے مقابلے پر مجاہدین کی مادی اور مالی طاقت کیا تھی؟ کچھ بھی نہیں۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے سوویت یونین اور امریکا کے پرخچے اُڑا دیے۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ قوموں کی زندگی میں مادی اور مالی طاقت فیصلہ کن نہیں۔ اقبال کا فیصلہ بھی اس سلسلے میں واضح ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے۔
سبب کچھ اور ہے تُو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندئہ مومن کا بے زری سے نہیں
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غامدی اور ان کے شاگردوں کا فکر اقبال سے بھی کوئی تعلق نہیں۔