ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا کہ بھارت نے کوئی دعویٰ کیا ہو اور اسے پورا کر دکھایا ہو۔ بھارت کے جھوٹے دعوئوں کی تاریخ بھری پڑی ہے‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں وعدہ اور دعویٰ کیا تھا کہ کشمیری عوام کو رائے شماری کا حق دیا جائے گا‘ یہ دعویٰ انہیں پیلٹ گن کے ذریعے بینائی سے محروم کرکے دیا جارہا ہے۔ ستمبر 1965 میں دعویٰ کیا تھا کہ لاہور جم خانہ جاکر شراب پی جائے گی‘ پاکستان نے اس کی ناپاک فوج کو برکی کے محاذ پر ہی روک لیا‘ اس نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے‘ یہ دعویٰ کشمیر کی گلیوں میں رل رہا ہے۔ سری نگر میں اوندھے منہ پڑا ہوا ہے۔ اس کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ وہ دنیا میں ایک بڑی سیکولر ریاست ہے سری نگر کے شہداء کے قبرستان اور بھارت میں گائے کا گوشت کھانے کی پاداش میں مارے جانے والوں کی قبریں اس دعوے کو جھٹلارہی ہیں۔ امرتسر میں گولڈن ٹمپل کی فضا میں آج بھی بھارتی فوج کی چلائی ہوئی گولیوں کی بو آرہی ہے‘ یہ صرف ایک ہندو ریاست ہے جو ہر غیر ہندو کے لیے تشدد کی ڈاکٹرائن پر عمل کر رہی ہے یہ ڈاکٹرائن بھارت کی ریاستی ڈاکٹرائن ہے کہ کسی غیر ہندو کو یہاں نہیں رہنے دیا جائے گا۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ روبوٹک خلائی جہاز وکرم چاند کے قریب تھا کہ رابطہ منقطع ہوگیا‘ ہر لحاظ سے چھوٹے قد کے بھارت کا یہ کتنا بڑا دعویٰ ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ مودی اور اس کے پیٹی بند بھائیوں نے 900 ارب روپے اڑانے تھے وہ اڑا دیے یہاں بھی امریکا ہی اس کی مدد کے لیے سامنے آیا جس طرح افغانستان میں وہ اس کا مدد گار بنا ہوا ہے۔ یہ بات غلط نہیں ہوگی کہ بھارت کا جو نقصان روبوٹک جہاز سے ہوا مقبوضہ کشمیر میں اس کے کرتوتوں کی وجہ سے نقصان اس سے کہیں بڑھ کر ہے چاند پر جانے کے منصوبے کی طرح بھارت کو کہا جارہا ہے کہ وہ کشمیر میں درست سمت میں جارہا ہے لیکن یہاں تو اس کے ہر دعوے کی میت سے بو اٹھی ہوئی ہے۔ سری نگر کے بازار‘ یہاں کا لال چوک‘ بارہ مولہ‘ کپواڑہ، بڈگام کے سرسوں کے پیلے پھول اور یہاں کے کھیت‘ چشمے جھرنے اور باغات سب بغاوت پر اترے ہوئے ہیں وہ بھارت کے اس دعوے کو تسلیم ہی نہیں کرتے کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ بھارت نے اور بھی بہت سے دعوے کیے ہوئے تھے‘ ہاکی اور کرکٹ میں اس کے دعوے کئی بار پٹ چکے ہیں‘ کلکتہ میں سکندر بخت نے تنہا بھارت کی پوری بیٹنگ لائن ہی اڑا دی تھی‘ کراچی ٹسٹ میں آخری اوورز میں عمران خان نے بشن سنگھ بیدی کو آخری دو اوورز میں وہ مار لگائی کہ بشن سنگھ بیدی ٹیم کی کپتانی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
جس طرح چاند پر جانے کا بھارت کا خواب ٹوٹ چکا ہے اسی طرح وہ جنت ارضی پر قبضہ کا خواب بھی ایک روز ٹوٹتے ہوئے دیکھے گا چاند پر تو کوئی انسان نہیں بستے‘ کشمیر میں تو زندہ جیتے جاگتے انسان بستے ہیں‘ جن کی مزاحمت کے سامنے بھارت اور اس کے سارے وسائل بھی تنکوں کی مانند بہہ رہے ہیں بھارت کا اصل چہرہ دکھانے کے لیے چند واقعات کا ذکر ہی کافی ہے۔ بھارتی ریاست اترپردیش کے گائوں جموئی میں مونگ پھلی کے تنازعے پر پنچایت جاری تھی کہ مدعی سونو کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا جبکہ مبینہ ملزم مایا پرکاش کو ڈنڈے مار مار کر قتل کردیا گیا۔ اسی طرح ایک اور بھارتی ریاست جھاڑ کھنڈ کے ضلع کھار ساون میں مسلم نوجوان تبریز انصاری کو چوری کا جھوٹا الزام عائد کر کے کھمبے سے باندھ کر پیٹا گیا اور وہ اس تشدد سے جاں بحق ہوگیا۔ یہی نہیں تبریز انصاری کی منتوں اور چیخ و پکار پر مبنی ویڈیو بھی جاری کی گئی، عینی شاہدین کے مطابق ہجوم تبریز سے جے شری رام اور جئے ہنومان کے نعرے بلند کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ تبریز کے واقعے نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور سنجیدہ طبقات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا بھارت میں مذہبی اقلیتوں سے روا رکھا جانے والا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ ابھی چند ماہ پہلے ہی کی بات ہے شمال مشرقی ریاست آسام کے ضلع پرپیٹا میں انتہا پسند بلوائیوں نے مسلم نوجوانوں کے ایک گروہ پر حملہ کیا اور انہیں بھی جے شری رام، بھارت ماتا کی جے کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیاکلکتہ میں بھی ایک مدرسے کے استاد حافظ محمد شاہ رخ کو بھی جے شری رام کا نعرہ بلند کرنے کا کہا گیا اور انہیں ایک گروہ نے ہراساں بھی کیا۔ بھارت میں
بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اعداد و شمار کے مطابق 2012 سے 2014 تک مجموعی طور پر 6 واقعات ہوئے اور 2015 کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ گائے کی ذبح اور چوری کے الزامات کی بنیاد پر ہجوم کی جانب سے تشدد کے 121 واقعات ہوئے، اسی طرح 2009 سے 2019 کے درمیان 59 مسلمانوں کا قتل کیا گیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کے 66 واقعات ان ریاستوں میں ہوئے جہاں بی جے پی برسر اقتدار تھی جبکہ گانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں کے اقتدار والی ریاستوں میں صرف 16 فی صد واقعات ہوئے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال نومبر تک بھارت میں ہجومی تشدد کے 18 واقعات ہوئے جن میں 8 لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ بھارتی پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2015 سے 2018 تک بھارت میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں 9 فی صد اضافہ ہوا۔ اسی طرح ہیومن رائٹس واچ نے بھی اپنی رپورٹ جاری کی ہے جس میں انکشاف کیا ہے کہ مئی 2015 سے دسمبر 2018 تک 44 افراد گئو رکشکوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنے جن میں سے 36 مسلمان تھے۔ انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں اور اداروں نے الزام عائد کیا ہے کہ حکمران جماعت بھارتیا جنتا پارٹی ان لٹھ برداروں کی پشت پناہی کر رہی ہے، جس کے باعث وہ مسلمانوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ بھارت کا اصل چہرہ‘ جب کہ وہ چاند پر جانے کے نام پر دنیا کو اپنی ترقی دکھا نے کی کوشش اور دعویٰ کر رہا ہے۔