انسان کے لیے اس سے بڑی ذلت کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے اصل جوہر کو کھودے اور اپنے دشمن کی خواہش کے عین مطابق بن جائے۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا میں سیکولر اور لبرل عناصر ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے مذہبی، تہذیبی، تاریخی اور لسانی تشخص کو کھودیا ہے اور وہ مغرب کو نوآبادیاتی طاقتوں کی خواہش کے عین مطابق بن گئے ہیں۔ برصغیر میں لارڈ میکالے نے یہی کہا تھا کہ ہم یہاں ایک ایسا طبقہ پیدا کریں گے جو مقامی ہونے کے باوجود اپنے ذوق و شوق اور طور طریقوں میں انگریزوں کی طرح ہوگا۔ بدقسمتی سے انگریزوں نے جو چاہا وہی ہوا۔ نوآبادیاتی طاقتوں کے پیدا کردہ طبقے کا حال یہ ہے کہ اس کا تناظر ہی مغربی نہیں اس کی زبان و بیان اور اصطلاحیں بھی مغربی ہیں۔
اس کی ایک دلچسپ مثال حال ہی میں روزنامہ ڈان کراچی کے صفحات پر سامنے آئی۔ ڈان کے ایک قاری نے اخبار کے نام خط میں لکھا کہ آپ کے اخبار میں Islamist Militants کی اصطلاح پڑھ کر بہت تکلیف ہوئی کیوں کہ اسلام یا مسلمانوں کو دہشت گرد گروہ سے وابستہ کرنا ٹھیک نہیں۔ ڈان کے ’’Readers Editor‘‘ محمد علی صدیقی نے اس موضوع پر ایک کالم لکھ ڈالا۔ انہوں نے کالم میں فرمایا کہ مخصوص حالات میں ’’militant‘‘ کی اصطلاح ایک معروضی یا Objective اصطلاح ہے تاہم انہوں نے اس سلسلے میں ترکی کے اسکالر مصطفیٰ اکیول سے رابطہ کیا۔ مصطفیٰ اکیول نے فرمایا کہ Islamist کی اصطلاح کا استعمال بالکل ٹھیک ہے کیوں کہ اس اصطلاح سے عام مسلمانوں اور اسلام کو ایک نظریہ یا Ideology سمجھنے والوں کے درمیان تمیز کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی کے 90 فی صد لوگ خود کو مسلمان کہتے ہیں اور صرف 10 سے 15 فی صد ترک ترکی کو ’’اسلامی ریاست‘‘ دیکھنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ بہت سے اسلام پسند پرامن جدوجہد کے ذریعے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں مگر کچھ اسلام پسند اقتدار میں آنے کے لیے تشدد کو بروئے کار لاتے ہیں۔ چناں چہ اسلام پسندوں کے تشدد کی اصطلاح کا استعمال بھی درست ہے اور اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح بھی صحیح ہے۔ یہاں قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مصطفیٰ اکیول واشنگٹن میں قائم ایک انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ اس کو کہتے ہیں پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ یعنی ڈان کے محمد علی صدیقی بھی وہیں پہنچے جہاں انہیں پہنچنا چاہیے تھا اور ترکی کے مصطفیٰ اکیول نے بھی اپنے ’’پس منظر‘‘ کے مطابق بات کی۔
مغربی دنیا ایک ہزار سال سے اسلام اور مسلمانوں کو توہین آمیز نام دے رہی ہے۔ 1095ء میں اس وقت کے پوپ اربن دوم نے اسلام کو معاذ اللہ ’’شیطانی مذہب‘‘ قرار دیا۔ بدقسمتی سے جس طرح ڈان کے محمد علی صدیقی نے Islamist Militants کی اصطلاح کو معروضی یا Objective قرار دیا ہے، اسی طرح پوپ اربن کے نزدیک ’’شیطانی مذہب‘‘ کی اہل مغرب مسلمانوں کو Hagarians یا ’’ہاجرائی‘‘ کہتے تھے۔ یہ بھی ایک توہین آمیز اصطلاح تھی۔ اس اصطلاح کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ رسول اکرمؐ سیدنا اسمعیلؑ سیدہ ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ سیدنا ابراہیمؑ کی دو بیویاں تھیں۔ سیدہ سارہ اور سیدہ ہاجرہ۔ ایک روایت کے مطابق سیدہ حاجرہ، سیدہ سارہ کی ملازم تھیں اور سیدہ سارہ ہی نے سیدہ ہاضرہ سے سیدنا ابراہیمؑ کی شادی کرائی تھی۔ اس تناظر میں مغرب نے مسلمانوں کو ’’ہاجرائی‘‘ یا Hagarians کہا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان تو معاذ اللہ ایک کم نسب اور کم حیثیت عورت کی نسل سے ہیں، ان کی بھلا کیا اوقات اور کیا بساط؟ مسلمانوں سے متعلق عیسائی لٹریچر میں Hagarians کی اصطلاح بھی چوں کہ کثرت سے استعمال ہوئی ہے اس لیے یہی کہا جائے گا کہ اس اصطلاح کو بھی مغرب نے معروضی یا Objective سمجھ کر استعمال کیا ہوگا۔ یہ تو ڈیڑھ سو سال پہلے کی بات ہے کہ اہل مغرب مسلمانوں کو ’’Muhammadans‘‘ کہا اور لکھا کرتے تھے۔ یہ اصطلاح بھی مسلمانوں اور ان کے نبی کی توہین کے لیے وضع کی گئی تھی۔ مغرب میں جو لوگ رسول اکرمؐ سے عظمت وابستہ کرتے ہیں ان کی عظیم اکثریت بھی آپؐ کو ’’Genius‘‘ تو مانتی ہے مگر نبی تسلیم نہیں کرتی۔ اہل مغرب کی اکثریت کے لیے معاذ اللہ رسول اکرمؐ نبی نہیں ہیں اور آپؐ نے کچھ چیزیں توریت سے لیںاور کچھ چیزیں انجیل سے حاصل کیں اور ان کو ملا کر ایک نیا مذہب ’’ایجاد‘‘ کر ڈالا۔ قرآن نے آپؐ کے دین کو ’’اسلام‘‘ قرار دیا ہے مگر اہل مغرب طویل عرصے تک اسلام کو Muhammadanism اور مسلمانوں کو Muhammadans کہہ کر یہ تاثر دیتے رہے کہ اسلام آسمانی مذہب نہیں بلکہ ’’محمدؐ‘‘ کی تخلیق ہے۔ چوں کہ اہل مغرب نے طویل عرصے تک مسلمانوں کو Muhammadans کہا ہے اس لیے اس اصطلاح کو بھی انہوں نے معروضی یا Objective ہی سمجھا ہوگا۔
ہمارے زمانے تک آتے آتے مغرب نے اسلام کی کئی نئی قسمیں ایجاد کر ڈالی ہیں۔ اہل مغرب کے نزدیک ایک بنیاد پرست اسلام ہے۔ ایک سیاسی اسلام ہے۔ ایک روایتی اسلام ہے۔ ایک صوفی اسلام ہے۔ ایک جدید اسلام ہے۔ ایک سیکولر اسلام ہے۔ حالاں کہ اسلام رسول اکرمؐ کے زمانے میں بھی ایک تھا۔ آج بھی ایک ہے اور ایک ہزار سال بعد بھی ایک ہی ہوگا، اللہ کا دیا ہوا اسلام، قرآن و سنت اور اجماع سے ثابت شدہ اسلام۔ اصول ہے کہ جب آپ کسی مذہب یا اس کے پیروکاروں کو کوئی نام دیں تو اس مذہب کی روایات سے رجوع کریں۔ مثلاً اسلام میں فقہ کے چار اسکول ہیں۔ ان میں سے ایک اسکول امام ابو حنیفہ کو رہبر تسلیم کرتا ہے اور اس بنیاد پر حنفی کہلاتا ہے۔ دوسرا اسکول امام شافعی کو امام تسلیم کرتا ہے اور اس حوالے سے شافعی کہلاتا ہے۔ تیسرا اسکول امام مالک کو قائد کہتا ہے اور اس تناظر میں مالکی کہلاتا ہے۔ چوتھا اسکول امام ابن حنبل کو رہنما گردانتا ہے اور اس نسبت سے حنبلی کہلاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ چاروں مذاہب مستند یا Authentic ہیں اس لیے کہ یہ چاروں مذاہب قرآن و سنت پر کھڑے ہیں۔ یہ صرف اسلام کا معاملہ نہیں۔ عیسائیت میں بھی ایک کیتھولک چرچ ہے۔ ایک پروٹسٹنٹ چرچ ہے۔ ایک آرتھو ڈوکس چرچ ہے۔ ایک ایوانجلیکل چرچ ہے۔ ان تمام چرچوں کو عیسائیت مستند کہتی ہے۔ مسلمانوں کو مغرب سے خواہ کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں مسلمانوں نے آج تک عیسائیت یا عیسائیوں کو وہ نام نہیں دیا جس کی سند عیسائیت کی تاریخ سے نہ ملتی ہو۔ مگر مغربی دنیا اسلام اور مسلمانوں کو ہمیشہ سے وہ نام دیتی چلی آرہی ہے جس کی سند نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں۔ نہ ہماری تہذیب میں ہے نہ تاریخ میں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے مغرب اور اس کے سیکولر اور لبرل مسلمانوں کی نیت، علم اور عقل سب کچھ خراب ہے۔ اور اسلام اور مسلمانوں کو دیے گئے ناموں میں کوئی معروضیت یا Objectivity نہیں ہے۔
آپ نے دیکھا کہ ڈان کے محمد علی صدیقی نے کس دیدہ دلیری سے یہ فرمایا کہ Islamist militantsکی اصطلاح معروضی یا Objective ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ جب مسلمان مقاصد کے حصول کے لیے طاقت استعمال کریں گے تو پھر انہیں militants ضرور کہا جائے گا اور یہ اصطلاح ڈان میں ضرور شائع ہوگی۔ ٹھیک ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر دنیا میں Islamist militants ہیں تو پھر دنیا میں Christian militants بھی ہیں۔ Jewish militants بھی ہیں۔ Hindu militants بھی ہیں۔ Buddhist militants بھی ہیں۔ Secular militants بھی ہیں۔ Liberal militants بھی ہیں۔ American militants بھی ہیں۔ European militants بھی ہیں۔ مگر ہم نے آج تک ڈان میں صرف Islamist militants کی اصطلاح شائع ہوتے دیکھی ہے۔ آخر ڈان کو militancy کی دوسری اقسام کیوں نظر نہیں آتیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بعض لوگوں کی آنکھوں پر ایک ایسا چشمہ لگا ہوا ہے جس سے صرف Islamist militants نظر آتے ہیں۔ Secular militants اور Liberal militants نظر نہیں آتے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود ڈان اپنی صحافت کو معروضی یا Objective بھی کہتا ہے۔ یہ کام بھی مغرب کے غلاموں نے مغرب ہی سے سیکھا ہے۔ مغرب خود شیطان ہے مگر وہ باقی تمام اقوام کو شیطان کہتا ہے۔ مغرب کے نوبل انعام یافتہ ادیب کپلنگ کا فقرہ ہے کہ مشرق آدھا شیطان ہے اور آدھا بچہ۔ اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ مغرب میں تو کوئی بچہ ہی نہیں ہے۔ مغرب پورا کا پورا شیطان ہے۔ ہم برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ڈان میں طالبان کے کارٹون شائع ہوتے ہیں تو طالبان کے چہرے سے صرف وحشت اور درندگی ہی ٹپک رہی ہوتی ہے۔ کیا یہ بھی معروضی صحافت یا Objective Journalismہے؟ چلیے ڈان کی دل جوئی کے لیے تسلیم کرلیتے ہیں کہ طالبان کے چہروں پر وحشت اور درندگی کے سوا کبھی کچھ نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ڈان کو ہمیشہ امریکا کا ایسا کارٹون شائع کرنا چاہے ۔ جس میں وہ شیطان، بھیڑیا یا خنزیر نظر آئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان نے انسانیت کے خلاف جتنے جرائم کیے ہوں گے انسانیت کے خلاف امریکا کے جرائم ان سے لاکھوں گنا زیادہ ہیں۔ جب ڈان کو معروضی صحافت کرنی ہے تو اس صحافت کو امریکا اور یورپ کے سلسلے میں بھی معروضی ہونا چاہیے۔
جدید مغرب غلامی کے ادارے کو برا کہتا ہے مگر ماضی کے غلام صرف جسمانی غلام ہوتے تھے لیکن مغرب نے مسلم دنیا میں جو غلام پیدا کیے ہیں وہ صرف جسمانی غلام نہیں ہیں وہ مغرب کے روحانی غلام بھی۔ نفسیاتی غلام بھی ہیں۔ تہذیبی غلام بھی ہیں۔ سیاسی غلام بھی ہیں۔ ثقافتی غلام بھی ہیں۔ علمی غلام بھی ہیں، اقتصادی غلام بھی ہیں اور لسانی غلام بھی ہیں۔ مگر مغرب اور اس کے غلام شیطان ہو کر بھی مہذب ہیں اور بیچارے مسلمان مہذب ہو کر بھی درندے ہیں۔ militantsہیں۔