زبان وبیان اور محاورات

384

جنابِ اطہر ہاشمی اردو زبان کی اصلاح کے لیے ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں، میں توجہ سے اُسے پڑھتا ہوں، یہ میرا پسندیدہ موضوع ہے۔ قومی زبان قرار دیے جانے کے باوجود اردو زبان سے بے اعتنائی برتی جارہی ہے، اس کی ذمے داری کراچی والوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو اپنے آپ کو اہلِ زبان کہتے ہیں۔ انہوں نے لکھا: ’’ہمارے ہاں ’’صلواتیں سنانا‘‘ محاورہ رائج ہے، اس کے معنی ہیں: ’’برا بھلا کہنا، گالیاں دینا وغیرہ‘‘، یہ ہجو کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، حالانکہ لفظِ صلوات کے معنی: درود، رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہے، یہ دعائیہ کلمہ ہے، ہر ایک کے حسبِ حال اس کے معنی مراد ہوتے ہیں، یہ صلوٰۃ بمعنی نماز کی بھی جمع ہے، پس اس محاورے کا استعمال ترک کردینا چاہیے، کیونکہ اس سے لفظِ صلوات کی اہانت ہوتی ہے جو شریعت کی رُو سے ناجائز ہے۔
ہمارے ہاں مردوں کی ہم جنس پرستی کے لیے لفظِ ’’لوطی‘‘ اور ’’لواطت‘‘ استعمال ہوتا ہے، اس کو بھی ترک کردینا چاہیے، کیونکہ لوط علیہ السلام نبی تھے اور کسی نبی کے نام کے ساتھ برائی کو منسوب کرنا اُن کی اہانت ہے، مسلمان تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا، اس کا متبادل لفظ ’’عملِ قومِ لوط‘‘ ہے یا بقول ہاشمی صاحب: ’’چونکہ قومِ لوط سدوم کی رہنے والی تھی، اس لیے اسے سدومی کہا جائے، انگریزی میں اسے ’’Sodomy‘‘ کہتے ہیں۔
ایک اور محاورہ ہے: ’’آنتیں قُل ھُوَ اللّٰہ پڑھ رہی ہیں‘‘، آنتیں چونکہ نجاست کا مرکز ہوتی ہیں، اس لیے اُن کی طرف ’’قُل ھُوَ اللّٰہ‘‘ یعنی سورۂ اخلاص پڑھنے کی نسبت کرنا خلافِ ادب ہے، اس محاورے کو بھی ترک کرنا چاہیے اور میں جناب ِ ہاشمی سے کہوں گا کہ وہ وقتاً فوقتاً اس کی یاد دہانی کراتے رہیں۔ اسی طرح اردو میں ’’اللہ میاں‘‘ استعمال ہوتا ہے، ہمارے نزدیک یہ بھی خلافِ ادب ہے، کیونکہ لفظِ میاں کے معانی ہیں: ’’آقا، شوہر، مرد اور عورت میں زنا کا دلّال، دیّوث، ہندی میں بھڑوا‘‘، بعض لوگ بزرگ کو بھی میاں جی کہتے ہیں، اس کے ایک معنی ہیں: ’’قاصد، ایلچی، دلّال، بھڑوا، دیّوث وغیرہ، (فرہنگ عامرہ)‘‘۔
پس اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ایسا ذو معنی کلمہ، جس کے ایک معنی اچھے ہوں اور دوسرے برے، استعمال کرنا جائز نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے لیے بھی ایسا کلمہ استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ صحابۂ کرام جب آپ ؐ کی مجلس میں بیٹھے ہوتے، اور آپ ؐکی کوئی بات اُن کی سمجھ میں نہ آتی تو وہ عرض کرتے :’’رَاعِنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہ‘‘، اے اللہ کے رسول! ہماری رعایت فرمائیے، اس کے لیے قرآنِ کریم میں ’’رَاعِنَا‘‘ کا کلمہ آیا ہے، مگر منافق کلمۂ ’’رَاعِنَا‘‘ کو اِمالہ کر کے بولتے اور اپنی مجلس میں جاکر کہتے: ہم نے انہیں ’’رَاعِیْنَا‘‘ یعنی ہمارا چرواہا کہہ دیا ہے اور بعض صورتوں میں وہ اسے ’’رَعن‘‘ یعنی احمق کے معنی میں لیتے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کی شان میں ایسا ذو معنی کلمہ استعمال کرنے سے صحابہ کو منع فرمادیا، حالانکہ اُن کی نیت اور مراد دونوں صحیح تھے، لیکن منافقین اُس کا دور کا معنی اہانت مراد لیتے تھے، چنانچہ ارشاد ہوا: ’’اے مومنو! ’’رَاعِنَا‘‘ مت کہو، بلکہ ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہو اور توجہ سے سنو، (البقرہ: 104)‘‘۔ (2) ’’بعض یہودی اللہ کے کلام کو اس کے اصلی مقامات سے تبدیل کردیتے اور کہتے: ’’ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور (کہتے ہیں:) سنیے! آپ کو نہ سنا جائے‘‘، وہ اپنی زبان کو بل دے کر اور دین میں طعن کرتے ہوئے ’’رَاعِنَا‘‘ کہتے ہیں اور اگر وہ کہتے: ہم نے آپ کا حکم سنا اور آپ کا کہا مانا اور ہماری بات سنیے اور نظر کرم فرمائیے، تو اُن کے لیے بہت بہتر اور درست بات ہوتی، (النساء: 46)‘‘۔
پس حُرمتِ رسول کو قائم رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو حکم فرمایا: ’’اگر آئندہ رسول اللہؐ کی کوئی بات تمہاری سمجھ میں نہ آئے تو ذو معنی کلمہ ’’رَاعِنَا‘‘ مت کہو، بلکہ یہ کہا کرو: ’’اُنْظُرْنَا‘‘ (یارسول اللہ! ہماری جانب نظر کرم فرمائیے!)‘‘ اور زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ ابتدا ہی سے توجہ سے سنا کرو تاکہ اللہ کے رسول کو دوبارہ زحمت نہ دینی پڑے۔ سو جب رسول اللہؐ کی شان میں ذو معنی کلمہ استعمال کرنا جائز نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ کی شان میں کیسے جائز ہوگا، پس مائوں کو چاہیے کہ اپنی گود میں بچوں کی دینی تربیت کریں اور اُن کی عادت بنائیں کہ وہ جب بھی اللہ کا نام لیں تو اللہ تعالیٰ، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کہا کریں، جب ایک مرتبہ زبان پر یہ الفاظ رواں ہو جائیں گے تو پھر زندگی بھر ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں ان کا اندازِ تکلم یہی رہے گا، سعدی نے کہا ہے: ’’بچپن میں سیکھی ہوئی بات پتھر پر لکیر کی مانند ہوتی ہے‘‘۔
جنابِ ہاشمی نے ایک اور محاورے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے: ’’بسم اللہ ہی غلط ہوگئی‘‘، یہ بھی اہانت کا کلمہ ہے، اگرچہ کہنے والے کا مطلب یہ ہے کہ کام کی شروعات ہی غلط ہوگئی ہیں، حدیث میں ہے: ’’ہر اہم کام جو اللہ کے نام سے شروع نہ کیا جائے، وہ ناقص ہوتا ہے، (سنن دار قطنی)‘‘۔ سو اللہ کے نام سے شروع کیا ہوا کام بابرکت ہوتا ہے، ہمیں کسی کام میں ناکامی کی نسبت اپنی ذات کی طرف کرنی چاہیے، اللہ کی طرف برائی کی نسبت خلافِ ادب ہے، قرآن کا شعارِ ادب یہ ہے: ’’تمہیں جو بھلائی پہنچتی ہے، سو وہ اللہ کی جانب سے ہے اور تمہیں جو برائی پہنچتی ہے، وہ تمہاری اپنی ذات کے سبب ہے، (النساء: 79)‘‘۔
اردو کا محاورہ ہے: ’’نمازیں بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑ گئے‘‘۔ یہ محاورہ ایسے مواقع پر استعمال کیا جاتا ہے کہ انسان کوئی رعایت حاصل کرنے جائے اور رعایت ملنے کے بجائے مزید بوجھ اس پر ڈال دیا جائے۔ یہ محاورہ درست نہیں ہے، کیونکہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ روزہ ایک ناگوار بوجھ ہے، حالانکہ روزہ اللہ کی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادات کو خوش دلی سے انجام دینا ہر مومن کا شعار ہونا چاہیے۔
ایک محاورہ یہ بھی ہے: ’’محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے‘‘، نبیؐ نے فرمایا: ’’جنگ دھوکا ہے، (صحیح البخاری)‘‘۔ اُمِّ کلثوم بنت عقبہ سے روایت ہے: انہوں نے رسول اللہؐ کو فرماتے ہوئے سنا: جو دو افراد کے درمیان صلح کی غرض سے کسی کی طرف اچھی بات کو منسوب کرے یا اچھی بات کہے، تو یہ کذب نہیں ہے، رسول اللہؐ نے تین مواقع کے سوا کوئی خلافِ واقع بات کہنے کی رخصت نہیں دی، (وہ مواقع یہ ہیں:) جنگ کے موقع پر، لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے، شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے کے ساتھ اظہارِ محبت میں مبالغہ کرنا، (مسند احمد)‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ میں دشمن کی سراغ رسانی، اسلامی لشکر کے دفاع اور پیش قدمی کے لیے توریہ کرنا جائز ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’نبیؐ نے فرمایا: تعریض (اور توریہ) کے ذریعے صریح جھوٹ سے بچا جاسکتا ہے، (السنن الکبریٰ للبیہقی)‘‘۔ اسی طرح کسی ظالم سے بے قصور انسان کی جان بچانے کے لیے بھی توریہ سے کام لیا جاسکتا ہے، توریہ اور تعریض سے مراد یہ ہے کہ ایسا لفظ بولا جائے جس کے دو معنی ہوں، ایک قریب کا اور دوسرا دور کا، مخاطَب کو قریب کے معنی کا تأثّر دیا جائے اور دور کا معنی مراد لیا جائے، حدیث میں ہے:
’’سیدنا انس بیان کرتے ہیں: نبی ؐکے سفرِ ہجرت میں ابوبکر صدیقؓ آپ کے پیچھے سوار تھے، ابوبکر معروف تھے اور معمّر لگتے تھے اور نبیؐ معروف نہیں تھے اور جوان معلوم ہوتے تھے، انہوں نے بتایا: راستے میں کوئی شناسا ملتا تو پوچھتا: ابوبکر! سواری پر آپ کے آگے یہ شخص کو ن ہے، وہ جواب دیتے: یہ شخص میری رہنمائی کرتے ہیں، (بخاری)‘‘۔ سائل سمجھتا کہ یہ راستے کا گائیڈ ہے، سیدنا ابوبکر کی مراد یہ تھی کہ آپ نیکی کا راستہ بتاتے ہیں۔ پس مطلقاً یہ کہنا، جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے، اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، اسلام میں ہر حال میں شرعی حدود کی پاسداری لازم ہے۔
ایک محاورہ ہے: ’’نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی‘‘، اس کے معنی ہیں: کوئی دانستہ جرم کرتا رہا یا حرام ذرائع سے مال جمع کرتا رہا اور پھر پاکیزہ بننے کے لیے حج پر چلا گیا، گویا اس نے حرام کو حلال کرنے کے نظریے سے حج کیا، یہ سوچ باطل ہے، توبہ زندگی میں کسی مرحلے پر بھی کی جاسکتی ہے، بشرطیکہ یہ شرعی شرائط کے مطابق ہو اور ماضی کے افعال کی تلافی بھی ہو، یعنی اگر حرام ذرائع سے مال کمایا ہے تو اُسے اپنی ملکیت سے نکالے، اگر اصل مالکان معلوم ہیں تو انہیں لوٹا دے، اگر سرکاری خزانے میں خیانت کی ہے تو وہ مال خزانے میں جمع کرادے اور اگر حقدار کا پتا نہیں ہے یا وہ وفات پاچکا ہے اور اس کے وارث موجود ہیں تو ان کے سپرد کردے ورنہ ثواب کی نیت کے بغیر اسے صدقہ کردے، بلی کو حج سے کیا نسبت ہے، سو اس میں بھی اہانت کا پہلو موجود ہے۔
ایک محاورہ ہے: ’’کیا کریں زمانہ ہی برا ہے‘‘۔ حدیثِ پاک میں زمانے کو برا کہنے سے منع کیا گیا ہے، نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بنی آدم مجھے ایذا پہنچاتا ہے، وہ زمانے کو برا کہتا ہے اور زمانے کو پلٹنے والا میں ہوں، تمام معاملات میرے قبضہ وقدرت میں ہیں اور میرے ہی حکم سے نظامِ گردشِ لیل ونہار قائم ہے، (ابودائود)‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفات میں ’’دَھَر‘‘ نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفات توقیفی ہیں، یعنی کسی نے اپنی عقلی اُپج سے وضع نہیں کیے، بلکہ یہ قرآن وحدیث سے روایت اور سماع پر موقوف ہیں۔ نیز یہ کہ ابتدائے آفرینش سے اللہ تعالیٰ کا تکوینی نظام ایک روش پر چل رہا ہے: ’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے دن (یعنی ابتدائے آفرینش) سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کی کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے، (التوبہ: 36)‘‘۔ سو شمس وقمر، کواکب ونجوم، نظامِ گردشِ لیل ونہار اور سورج کے طلوع وغروب کا دورانیہ وہی ہے۔ سائنسی اصطلاح میں بھی کائنات زمان ومکان کا نام ہے، پس فی نفسہٖ زمانے میں کوئی خرابی نہیں ہوتی، زمانے میں رہنے والے اچھے یا برے ہوتے ہیں، لہٰذا اچھائی یا برائی کی نسبت زمانے کی طرف کر کے اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھ لینا درست نہیں ہے۔