کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہ مواقع، امکانات، لمحہ موجود اور پہل کر کے ساغر اُٹھانے کا نام ہے۔ پاکستان کی سیاست تو اس حوالے سے زیادہ نیک نام نہیں رہی کہ یہاں بے شمار مثالیت پسند اپنے خوابوں کی پوٹلی کو یا تو کچھ ہی دیر بعد پٹخ ڈالنے پر مجبور ہوتے رہے یا پھر وہ یہ بوجھ لیے پیوند خاک ہوتے رہے۔ یہاں خوابوں کے اکثر سوداگر کسی اچھے انجام سے دوچار نہیں ہوئے۔ ایک طویل فہرست ہے جس میں دائیں اور بائیں کی قید نہیں۔ علاقے اور طبقے کی تفریق نہیں۔ جس نے بھی بڑے ارمانوں اور خوابوں کے ساتھ ملکی سیاست کا نقشہ بدلنے کی کوشش کی وقت کے دھندلکوں میں گم ہوتا رہا اسی فہرست میں ایک اور نام کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ملک کے معروف مذہبی اور سیاسی راہنما علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے سیاست کا بھاری پتھر چوم کر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ علامہ طاہر القادری نے سیاست چھوڑنے کا اعلان ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان کی سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتا ہوں۔ پارلیمنٹ کا حصہ بن کر سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ہم نے کرپشن کے خلاف عوامی شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ طاہر القادری نے منہاج القران کی سربراہی چھوڑنے کا اعلان بھی کیا۔ اس فیصلے کی وجہ انہوں نے صحت کے مسائل اور تصنیف وتالیف کے کاموں کو بتایا ہے۔
علامہ طاہر القادری کی سیاست سے رخصتی سے پاکستان کی سیاست کا خارزار اور کارزار ایک اور مثالیت پسند سے خالی ہوگیا۔ طاہر القادری تعلیم وتدریس کے شعبے سے وابستہ ہوتے ہوئے منبر ومحراب کی طرف بڑھے اور بہت جلد وہ اپنی علمی ساکھ بنانے اور دھاک بٹھانے میں کامیاب ہو گئے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں میڈیا کا واحد اور طاقتور ادارہ پی ٹی وی تھا اور پی ٹی وی پر معروف دینی اسکالر ڈاکٹر اسرار احمد کے لیکچر عوام میں بہت مقبول ہو چکے تھے کہ اچانک حکومت ڈاکٹر اسرار احمد کی کسی ادا سے خار کھا بیٹھی اور یوں ڈاکٹر اسرار احمد پی ٹی وی سے غائب ہوگئے اور جواں سال علامہ ڈاکٹر طاہر القادری پی ٹی وی پر لیکچر دینے لگے۔ زبان دانی اور قادر الکلامی ان پر بھی ختم تھی اس لیے طاہر القادری بھی عوام میں مقبول ہوتے چلے گئے۔ جونیجو دور میں قصاص اور دیت قانون کا تنازعہ شروع ہوا تو طاہر القادری اس قانون کے مخالف دلائل کے ساتھ میدان میں آئے اور یوں وہ پی ٹی وی سے غائب تو ہوگئے مگر پرنٹ میڈیا اور علمی حلقوں کی توجہ کا مرکز بنتے چلے گئے۔ اس دور میں شریف خاندان کے ساتھ ان کی گاڑھی چھنتی تھی اور لاہور کی اتفاق مسجد میں جمعہ کا خطبہ انہی کی ذمے داری تھی۔ یہ دوستی تادیر قائم نہ رہ سکی اور ایک روز طاہر القادری نے خاموشی کے ساتھ اتفاق کا راستہ چھوڑ کر اختلاف کی راہوں پر سفر کا آغاز کیا۔
طاہر القادری نے تھوڑی دور جا کر علمی اور تحقیقی کاموں کے ساتھ ساتھ سیاست کے بگڑے ہوئے نقش سنوارنے اور نئے اور خوشنما خدوخال تراشنے کا بھاری پتھر اُٹھانے کا راستہ اپنایا۔ شاید یہ ان کے لیے مشکلات کی دلدل میں پہلا قدم تھا۔ ان کا علمی کام اور فصیح البیانی ملک میں اصلاح کی ایک بڑی تحریک اور انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی مگر مروجہ سیاست کا گھن ان کی اس صلاحیت کو اندر ہی اندر چاٹ کھانے لگا۔ انہوںنے دوچار بڑے جلسے کرکے تعبیر کی یہ غلطی کھائی کہ اب وہ اس عوامی طاقت کے ذریعے ملک کے اداروں اور وسائل پر کنٹرول حاصل کرکے اپنا اصلاحی ایجنڈا نافذ کرنے میں کامیاب ہوں گے مگر یہ ان خام خیالی ہی ثابت ہوئی۔ وہ پاکستان کی سیاست حقیقتوں اور حرکیات کا صحیح اندازہ نہ کر سکے یا اپنی عوامی مقبولیت کا کچھ غلط اندازہ کر بیٹھے۔ ان کے حکمت عملی کی گاڑی کا کانٹا بدل جانا ہی ان کے تعبیر کے غلط ہوجانے کا نقطہ آغاز بنا۔ ملک کی سیاست جس ڈگر پر چل رہی تھی اس میں جاگیرداری نظام میں جکڑے عوام کے ایک چھوٹے سے طبقے بلکہ شہری طبقے کو لے کر کوئی بڑا انقلاب برپا کیا جانا ممکن نہیں۔ علامہ جس وقت سیاست میں انقلاب برپا کرنے چلے تھے اس وقت پیپلزپارٹی کی جاگیردارانہ سیاست کے مقابل شریف خاندان کی صورت میں سرمایہ دار کلاس بھی سیاست کے ایک بڑے حصے پر اپنے اثرات مرتب کر رہی تھی اور یہی نظریاتی سیاست کے سورج کے غروب کا زمانہ بھی تھا۔ اس عمل نے ملکی سیاست کو ماضی سے کہیں زیادہ مشکل اور پیچیدہ بنا دیا تھا۔
علامہ نے تحریک منہاج القران کے ساتھ ساتھ پاکستان عوامی تحریک کے نام سے ایک سیاسی جماعت بھی قائم کر لی۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک میں دوجماعتی نظام وجود پزیر ہو کر زور پکڑ رہا تھا۔ پیپلزپارٹی کے مقابلے میں اسلامی جمہوری اتحاد سیاسی میدان میں طاقت کا توازن قائم کررہا تھا۔ علامہ طاہر القادری نے انتخابات میں تیسری طاقت کا نعرہ لگا کر حصہ لیا۔ انہوں نے ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو بدعنوان سیاسی مافیا کی نمائندہ اور ترجمان قرار دے کر چیلنج کیا مگران کے نعروں اور اسلوب سیاست کو نوے کی دہائی میں اس وقت شدید دھچکا لگا جب ان کی جماعت عوامی تحریک بری طرح شکست سے دوچار ہوئی اور اکثر حلقوں میں امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ اس طرح ملک میں تیسری قوت اور متبادل طاقت کا نعرہ انتخابی بساط پر پِٹ گیا اور ملکی منظر پر تیسری طاقت کو راہ نہ مل سکی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں کچھ سیاسی راہنمائوں کو ان کی ذات اور شخصیت میں روشنی کی کرن سی دکھائی دی۔ ان میں عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈر اجمل خٹک اور طاہر القادری بھی شامل تھے۔ ان راہنمائوں کو یہ امید تھی کہ جنرل مشرف کے فوجی نظام کو جس سیاسی چہرے اور ماسک کی ضرورت ہے شاید اس کے لیے قرعۂ فال انہی کے نام نکلے۔ علامہ پارلیمنٹ تک بھی پہنچے مگر ایک مثالیت پسند کے طور پر وہ اپنے خوابوں کی تعبیر پر مصر رہے اور جلد ہی مایوس ہو کر انہوں نے پارلیمنٹ سے استعفا دے دیا اور ملک چھوڑ کر دوبارہ تصنیف وتالیف کے کاموں میں مگن ہو گئے۔ بعد میں انہوں نے ’’سیاست نہیں ریاست بچائو‘‘۔ کے نام سے مہمات شروع کیں اور اسی دوران ماڈل ٹاون کا حادثہ ہوا۔ انہوں نے ماڈل ٹائون کے شہیدوں کو انصاف دلانے کو حرز جاں بنائے رکھا مگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ انہوں نے تحریک انصاف کے دھرنے کے پہلو میں اپنا دھرنا دیا مگر وہ مطالبات منوانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے بعد ہی سے سیاست سے ان کا جی کچھ اور اُچاٹ ہوتا ہوا دکھائی دینے لگا۔ وہ زیادہ مدت بیرون ملک رہنے لگے۔ سیاست میں ان کی ناکامی حقیقت میں ایک اور مثالیت پسند کی ناکامی ہے۔ ماضی میں ائر مارشل اصغر خان سمیت بہت سے نام اس انجام دے دوچار ہوتے رہے ہیں۔ علامہ طاہر القادری کی ریٹائرمنٹ سے یہ سبق ملتا ہے کہ پاکستان کی سیاست عملیت اور مثالیت کا امتزاج ہے۔ دونوں میں سے کسی ایک رویے پر اصرار اور انحصار مثبت نتائج نہیں دیتا۔