خطا کرتا ہے شاعر اور ہم شرمائے جاتے ہیں

560

جاوید غامدی کے شاگرد خورشید ندیم ان نایاب لکھنے والوں میں سے ایک ہیں جن کا کم و بیش ہر کالم غلط بنیاد پر لکھا گیا ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے خورشید ندیم اپنے استاد جاوید احمد غامدی کا اچھا تعارف ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ شاگرد کا یہ حال ہے تو استاد کا کیا عالم ہوگا؟۔ یہاں ہمیں مشہور زمانہ فلم مغل اعظم کے ایک گیت کا مصرع یاد آگیا۔’’ جب رات ہے ایسی متوالی پھر صبح کا عالم کیا ہوگا‘‘ ۔ مگر خورشید ندیم کی رات اور دن میں کوئی فرق نہیں۔ وہ جتنے لامعنی کالم صبح کو لکھتے ہیں اتنے ہی بے معنی کالم رات میں تحریر فرماتے ہیں۔ ہم ان کا کالم پڑھتے ہیں تو ہمارا حال اس مصرعے کی طرح ہوجاتا ہے۔’’خطا کرتا ہے شاعر اور ہم شرمائے جاتے ہیں‘‘۔ عام طور پر لوگ عیب نہ کرنا سیکھتے ہیں مگر خورشید ندیم کے کالموں میں اتنے عیوب ہوتے ہیں کہ لگتا ہے انہوں نے غامدی صاحب سے باقاعدہ طور پر عیب کرنا سیکھا ہے۔ خورشید ندیم کے کالم کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔ مسئلہ کشمیر کی مذہبی تجسیم کے عنوان سے لکھتے ہیں۔
’’ایک وفاقی وزیر نے بھی کشمیر کی صورتِ حال کو غزوئہ ہند کا آغاز قرار دے دیاہے۔ مسئلہ کشمیر کی یہ مذہبی تجسیم، کیا اہل کشمیر کے دکھوں کا مدوا کرسکے گی؟ تاریخ یہ ہے کہ مذہب جب اقتدار کی کشمکش میں فریق بنتا ہے تو پھر اپنے جوہر سے محروم ہوجاتا ہے۔ مذہب کا جوہر کیا ہے؟ انسان کے اخلاقی وجود کا تزکیہ۔ اسلام کی نظر میں اُخروی کامیابی کے لیے تیاری۔ اہل مذہب نے اقتدار کو اپنا مقصد بنایا تو معاشرہ کیا تبدیل ہوتا، اقتدار کی کشمکش میں ان کا اپنا اخلاقی وجود ہی تحلیل ہوگیا۔
اکیسویں صدی ’’ازمز‘‘ (Isms) کی صدی ہے۔ نیشنلزم، کمیونزم، فاشزم۔ یہ نظریاتی سیاست کا آغاز ہے۔ یہ سیاست کو ایک نظریے کے تابع کرنے کا عمل ہے۔ پہلے ایک نظریہ (Ideology)، پھر اس کے پیروکاروں کی تنظیم۔ پھر انہیں اقتدار تک پہنچانے کی جدوجہد۔ تصور یہ ہے کہ ریاست کو ایک نظریاتی وجود مان لیا جائے۔ مثال کے طور پر کمیونزم کا نظریہ ہے کہ معاشرے کی طبقاتی تقسیم اور انفرادی ملکیت انسانی مسائل کے حقیقی اسباب ہیں۔ انسانوں کو ایک ایسی ریاست چاہیے جو اس نظریے پر قائم ہو اور بالجبر اس تقسیم کو ختم کردے۔ اس سے انسانی دکھوں کا مداوا ہوجائے گا۔ کمیونزم کی اصل یہی ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے، اس کی فروعات ہیں۔
اہل مذہب جب سیاست میں متحرک ہوئے تو انہوں نے نظم اجتماعی کی اساسات مذہب میں تلاش کیں۔ جہاں یہ موجود نہیں تھیں، وہاں مذہبی عصبیت کو آواز دی گئی اور ایک مذہب کے ماننے والوں کو کسی دوسرے گروہ کے خلاف لاکھڑا کیا گیا۔ جیسے مسیحیت۔ سینٹ پال نے، مسیحیت کے پیروکاروں کو شریعت کی پابندیوں سے آزاد کردیا۔ اب مسیحی معاشرے میں نفاذ شریعت کی بحث ختم ہوگئی۔ صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا تو اہل کلیسا نے مذہبی عصبیت کو آواز دی اور مسیحی عصبیت کو مسلم عصبیت کے بالمقابل لاکھڑا کیا۔
یہی معاملہ ہندومت کا ہے۔ اس کی سیاسی تجسیم ہوئی تو ہندو توا جیسی تعبیرات سامنے آئیں۔ اس کی بنیاد ہندو عصبیت ہے۔ یہ ہندو قانون کے نفاذ کا سوال نہیں، دوسرے گروہوں پر ہندو تصورات کو بالجبرنافذ کرنا ہے۔ جیسے گائے آپ کے لیے مقدس ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ اسے سماجی یا ریاستی طاقت سے دوسروں کے لیے بھی مقدس بنادیں‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 7 ستمبر 2019)
جس طرح غامدی صاحب کو ہر چیز کی مذہبی تعبیر سے چڑ ہے اسی طرح خورشید ندیم کو بھی ہر چیز کو مذہبی تناظر میں دیکھنے سے ’’گِھن‘‘ آتی ہے۔ چناں چہ ایک وفاقی وزیر نے مسئلہ کشمیر کو غزوئہ ہند کے تناظر میں دیکھا تو خورشید ندیم کی طبیعت متلانے لگی اور انہوں نے ایک کالم لکھ کر طبیعت کو بہتر بنایا۔ خورشید ندیم کا اصرار ہے کہ مذہب جب اقتدار کی کشمکش میں فریق بنتا ہے تو وہ اپنے جوہر سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس فقرے سے معلوم ہورہا ہے کہ خورشید ندیم کا تصور مذہب یہ ہے کہ مذہب نماز، روزے، حج اور زکوٰۃ سے متعلق ہے بھلا سیاست سے اس کا کیا تعلق؟ لیکن ایک ایسا مذہب جو مکمل ضابطہ حیات ہو اور جس کے بارے میں قرآن خود کہتا ہو کہ دین کو کامل کردیا گیا وہ مذہب سیاست میں فریق کیوں نہیں ہوگا۔ اصل قصہ یہ ہے کہ خورشید ندیم اسلام پر مغرب کا سیکولر ازم مسلط کررہے ہیں۔ مغرب کا سیکولر ازم کہتا ہے کہ مذہب ایک نجی مسئلہ ہے اس کا ریاست، سیاست اور معیشت سے کوئی تعلق نہیں۔ چناں چہ اصولی اعتبار سے خورشید ندیم کو بتانا چاہیے کہ وہ مذہب کو سیاست سے لاتعلق کرکے دراصل مغرب اور اس کے سیکولر ازم کا کھیل کھیل رہے ہیں مگر وہ خود کو سیکولر کہہ دیں گے تو پھر غامدی اور ان کے شاگردوں کے دھوکے میں کون آئے گا؟ مگر مذہب کا جوہر کیا ہے؟ خورشید ندیم کے مطابق یہ جوہر اخلاقی وجود کا تزکیہ ہے تا کہ انسان اخروی زندگی میں کامیاب ہوسکے۔ بہت اچھا۔ مگر بدقسمتی سے خورشید ندیم کا اخلاقی وجود کے تزکیے کا تصور بھی خودساختہ ہے۔ہمارے لیے حتمی ماڈل رسول اکرمؐ کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ اور حضور اکرمؐ کا اسوئہ حسنہ بتاتا ہے کہ رسول اکرمؐ نے ایک جانب انسانوں کا تزکیہ نفس بھی کیا۔ دوسری جانب انہوں نے ریاست مدینہ بھی قائم کی۔ اس کی معیشت، معاشرت اور دفاعی امور کو اللہ کے احکامات کے تابع بھی کیا۔ تزکیے کی ضرورت صرف انسانوں ہی کو نہیں ہوتی، تزکیے کی ضرورت خیالات، جذبات، احساسات، تناظر، اداروں کو بھی ہوتی ہے۔ مثلاً غامدی صاحب اور ان کے شاگرد خورشید ندیم کی مثالی مغربی ریاست میں بالادستی عوام کو حاصل ہے مگر رسول اکرمؐ کی قائم کردہ اسلامی ریاست میں حاکمیت اللہ کے پاس تھی اور رسول اکرمؐ تک اللہ کے نائب کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ یہی ریاست کا ’’تزکیہ‘‘ تھا۔ اخلاقیات کی ایک تعریف یہ ہے کہ وہ جامع اور مطلق ہوتی ہے۔ چناں چہ یہ نہیں ہوسکتا کہ مسلمان عقیدے، عبادات اور اخلاقیات کے دائرے میں تو اخلاق اور تزکیے کے پرچم لے کر کھڑا ہو جائے، مگر انفرادی اور اجتماعی وجود کے سیاسی اور معاشی دائروں پر اخلاق اور تزکیے کے اصول کا اطلاق نہ کرے۔ قرآن صاف کہتا ہے کہ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجائو مگر غامدی اور ان کے شاگرد چاہتے ہیں کہ مسلمان قرآن کو فراموش کرکے ان کے آقا و مولا مغرب کی بات سنیں اور مانیں اور وہ صرف چند معاملات پر اخلاق اور تزکیے کے اصول کا اطلاق کریں اور باقی معاملات مثلاً سیاست اور معیشت کو اخلاقی اصول کے اطلاق اور تزکیے کے عمل سے دور رکھیں۔ آخر خورشید ندیم کا تصور اخلاق اتنا ادھورا، اتنا نامکمل، اتنا جانب دار، اتنا موضوعی، اتنا Subjective، اتنا سطحی، اتنا سرسری اور اتنا لنگڑا لولا کیوں ہے؟ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ خورشید ندیم اسلام کی طرح تصور اخلاق اور تصور تزکیے کو بھی ’’Secularized‘‘ کیے ہوئے ہیں۔ یہاں خورشید ندیم کی ایک اور بات لایعنیہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ دین کا جوہر اخلاقی وجود کے تزکیے کے ذریعے اخروی کامیابی ہے۔ بالکل ٹھیک۔ مگر اخروی کامیابی کا انحصار دنیاوی زندگی کی کامیابی پر ہے۔ انسان پوری زندگی اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کے مطابق بسر کرے گا تو وہ آخرت میں کامیاب ہوگا۔ لیکن اگر وہ عقاید، عبادات اور حلال و حرام میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہؐ کے احکامات کی پیروی کرے گا اور ریاست و سیاست، معیشت و معاشرت، آرٹ اور کلچر کو مغرب کے سیکولر اور لبرل ایجنڈے کے مطابق چلائے گا تو اخروی زندگی میں اس کی ناکامی بلکہ تباہی یقینی ہے۔ خدا انسان کے متضاد طرزِ عمل کو منافقت قرار دے کر انسان کو منافقوں کی صف میں شامل کردے گا۔ اگر کسی کو میدان حشر میں منافقوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہے تو بہرحال یہ اس کی پسند یا Choice ہے۔ البتہ کوئی معمولی سے معمولی مسلمان بھی میدان حشر میں خود کو منافقوں کی صف میں کھڑا دیکھنے کا تمنائی نہیں ہے۔ اس لیے کہ منافق جہنم کے پست ترین اور بدترین علاقے کے مکین ہوں گے۔ خورشید ندیم نے یہ بھی لکھا ہے کہ اہل مذہب نے اقتدار کو اپنا مقصد بنایا تو معاشرہ کیا تبدیل ہوتا خود اِن کا اخلاقی وجود ہی تحلیل ہوگیا۔ بلاشبہ اہل مذہب کی اخلاقی اور علمی حالت اچھی نہیں مگر اس حالت کا ان کی سیاسی جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں۔ اس بات کا تعلق اس امر سے ہے کہ اہل مذہب نے تقوے اور علم کے دائروں میں اپنے مثالیوں یا Ideals کو فراموش کردیا ہے یا ان سے لاتعلقی اختیار کرلی ہے۔ اس کے بااوجود اہل مذہب کی حالت سیکولر جماعتوں اور ان کے رہنمائوں اور کارکنوں سے کہیں بہتر ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں شاید ہی کوئی ہوگا جو کرپٹ نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی میں شاید ہی کوئی ہوگا جو کرپٹ ہوگا۔ کیا یہ معمولی فرق اور معمولی بات ہے؟۔
یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اگر کرپٹ نہیں ہے تو یہ اس کی ذاتی خوبی نہیں ہے۔ یہ اس کی دین سے وابستگی کا ایک ثمر ہے۔
اقبال نے کہا ہے۔ جدا ہودیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ عرض ہے کہ دین سے سیاست کے الگ ہوجانے سے صرف چنگیزی ہی نہیں کرپشن، بدکرداری اور دنیا پرستی بھی پیدا ہوتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ تبلیغی جماعت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر ہم نے تبلیغی جماعت کے ایک دو نہیں کئی رہنمائوں سے سنا ہے کہ تبلیغی جماعت میں ’’مقدار‘‘ تو بہت ہوگئی ہے مگر ’’معیار‘‘ بہت کم ہے۔ اس مسئلے کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہمارے لیے دین کے Ideals بالخصوص رسول اکرمؐ کا اسوئہ حسنہ نمونہ عمل نہیں رہا۔
خورشید ندیم نے اپنے کالم میں اسلام کو بھی کمیونزم اور کیپٹل ازم کی طرح ایک ’’ازم‘‘ بنادیا۔ کمیونزم اور کیپٹل ازم انسانی ساختہ یا Man made نظام ہیں اور اسلام اللہ کا دین ہے۔ چناں چہ کسی بھی ازم اور اسلام میں کوئی چیز مشترک نہیں۔ بلاشبہ مسلم ممالک بالخصوص پاکستان میں ’’نظریاتی سیاست‘‘ کی اصطلاح مروج ہے اور پاکستان کو ایک ’’نظریاتی ریاست‘‘ کہا جاتا ہے۔ مگر یہ دینی سیاست اور دینی ریاست کو جدید اصطلاح میں بیان کرنے کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ اسلامی سیاست و اسلامی ریاست اور کمیونسٹ اور سرمایہ دارانہ سیاست و ریاست کی ہر چیز ایک دوسرے کی ضد ہے۔ اسلام کا مرکزی تصور ’’خدا‘‘ ہے۔ کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام میں خدا کا کوئی تصور ہی موجود نہیں۔ ان نظاموں میں خدا کی جگہ مادے اور اس کے اوصاف نے لے لی ہے۔ اسلامی سیاست و ریاست کا تصور علم یہ ہے کہ وحی سے بڑا اور کامل علم کوئی نہیں۔ اس کے برعکس دوسرے ’’ازم‘‘ وحی کے منکر ہیں اور وہ انسان کی عقل کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ خورشید ندیم نے خود تزکیے کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ وہ ذرا دوسرے ازموں میں سے کسی ازم سے یہ اصطلاح نکال کر دکھائیں۔
خورشید ندیم نے اہل مذہب پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ وہ سیاست میں متحرک ہوئے تو انہوں نے سیاست کی بنیادیں مذہب میں تلاش کیں جہاں یہ بنیادیں موجود ہی نہ تھیں۔ اسلام عیسائیت نہیں کہ اس میں مذہب اور سیاست کے باہمی تعلق کے حوالے سے کوئی ابہام موجود ہو۔ رسول اکرمؐ نے ریاست مدینہ قائم بھی کی اور اسے اسلام کے مطابق چلایا بھی۔ خلافت راشدہ کا پورا تجربہ بھی مذہب اور سیاست کے باہمی تعلق پر گواہ ہے مگر غامدی اور ان کے شاگرد ریاست اور مذہب کے تعلق پر بات کرتے ہیں تو عہد رسالتؐ اور عہد خلافت کو اس طرح پھلانگ کر کھڑے ہوجاتے ہیں جیسے یہ عہد کبھی تھے ہی نہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کی عظیم فکری روایت کا تعلق ہے تو امام غزالی سیاست اور مذہب کے تعلق اور سیاست پر مذہب کی بالادستی کے قائل تھے۔ ابن خلدون نے بھی اپنے مقدمے میں سیاست و ریاست کو مذہب کے تابع دکھایا ہے۔ الماوردی بھی سیاسات پر مذہب کی بالادستی کے قائل تھے۔ مجدد الف ثانی نے بھی اپنے عہد میں سیاست و ریاست کو مذہب کے تابع کرنے کی کوشش کی۔ شاہ ولی اللہ کا موقف بھی یہی ہے کہ ریاست و سیاست دین کے تابع ہیں۔ اقبال نے اپنی شاعری میں صاف کہا ہے کہ سیاست دین کے تابع نہ رہے تو بڑی خرابی پیدا ہوتی ہے۔ مولانا مودودی کی بھی یہی رائے ہے کہ دین قائد ہے اور ریاست و سیاست اس کے مقلد۔ آخر خورشید ندیم کو اس سلسلے میں اور کتنے حوالے درکار ہیں؟۔
خورشید ندیم بی جے پی کی ’’ہندوتوا‘‘ کو ایک مذہبی تصور سمجھتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہندو ازم، ہندوستان اور بی جے پی کی الف بے سے بھی آگاہ نہیں۔ ہندو ازم کبھی ایک زندہ حقیقت تھا مگر وہ اب ایک مُردہ فلسفے کے سوا کچھ نہیں۔ بی جے پی ہندوستان کے سیکولر ازم کا صرف مذہبی چہرہ ہے۔ ہندوستان کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان مغرب کی جدیدیت کو حتمی اور غالب تصور کے طور پر قبول کرچکا ہے۔ البتہ وہ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے۔ چناں چہ ہندو اسلام اور مسلمانوں کو کچلنے کے لیے ہندو بن جاتے ہیں ورنہ ان کی روح، دل اور دماغ میں ہر جگہ ’’جدیدیت‘‘ بسی ہوئی ہے۔ مغرب کی سیکولر جدیدیت۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ حال ہی میں ہندوستان کی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی اور زنا بالرضا کو قانونی قرار دے دیا ہے اور اس پر کسی ہندو دانش ور اور تنظیم نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔