برطانیہ میں پانچ روز

285

 

 

برطانیہ کے حالیہ دورے کے موقع پر جامعہ قادریہ ٹرسٹ برمنگھم میں حاضری کا موقع ملا، یہ ادارہ علامہ صاحبزادہ طیب الرحمن اور ان کے رُفقاء نے قائم کیا ہے، اس میں پاکستانی مسلمانوں کی مختلف دینی وسیاسی تنظیموں کے قائدین، مختلف مکاتبِ فکر کے علماء اور اہلِ فکر ونظر سے خطاب کا موقع ملا، ظاہر ہے کہ ان دنوں ہر جگہ گفتگو کا مرکز ومحور مقبوضہ کشمیر کے حالات ہیں۔
میں نے انہیں مشورہ دیا: آپ اپنے گردوپیش کے حالات سے باخبر رہا کریں۔ عام طور پر اقلیت کو اندیشہ ہوتا ہے کہ اکثریت میں اس کا تشخص، اَقدار اور شناخت گم یا مسخ ہوجائے گی، سو اس حوالے سے اقلیتیں حساس رہتی ہیں، جبکہ اکثریت کو ایسا کوئی اندیشہ لاحق نہیں ہوتا۔ لیکن میں نے برطانیہ کے مختلف اداروں کے دوتین ریسرچ پیپر پڑھے، ان میں وہ اس بارے میں متفکر دکھائی دیے کہ مسلمانوں سے اُن کی تہذیب اور کلچر کو خطرات لاحق ہیں، میرے لیے یہ بات حیرت کا سبب بنی، لہٰذا میں نے ان کو مشورہ دیا کہ مسلمانوں کے اہلِ فکر ونظر اس بارے میں سوچ بچار کریں کہ اقلیت ہونے کے باوجود اکثریت کو مسلمانوں کے بارے میں ایسی حساسیت کیوں ہے۔
ایک سبب تو سمجھ میں آتا ہے کہ افریقا، مشرقِ بعید اور بعض ممالک حتیٰ کہ عالَمِ عرب کے لوگ بھی مساجد کے علاوہ وہاں کا عمومی لباس استعمال کرتے ہیں، ویسی ہی وضع قطع اختیار کرتے ہیں، جبکہ پاک وہند اور افغانستان کے مسلمان ڈیوٹی کے اوقات کے علاوہ بالعموم اپنی وضع قطع، لباس اور شناخت برقرار رکھتے ہیں۔ نیز اشیائے خوراک کے حوالے سے بھی محتاط رہتے ہیں، جبکہ عرب ممالک کے مسلمان اس سلسلے میں کافی آزاد واقع ہوئے ہیں، وہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں: ’’اور اہلِ کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے، (المائدہ: 5)‘‘، اس کے تحت مفسرین نے لکھا ہے: اہلِ کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا کسی الہامی کتاب پر ایمان ہو، اللہ کے نام پر حلال جانور کو ذبح کریں تو اُس کا گوشت کھانا حلال ہے۔ موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ یہودی ذبیحہ کرتے ہیں، اُسے Kosher کہا جاتا ہے، جبکہ آج کے نصاریٰ کے ہاں ماکولات ومشروبات میں حرام کا کوئی تصور باقی نہیں رہا، سو یہودی اہلِ کتاب اگر اللہ کے نام پر ذبح کریں تو قرآنِ کریم کی رو سے وہ حلال ہے۔
آج کل برطانیہ میں سب سے اہم مسئلہ بریگزٹ یعنی یورپین یونین سے برطانیہ کے خروج کا ہے، 23جون 2016 کو برطانیہ میں یورپین یونین سے خروج کی بابت قومی سطح پر ریفرنڈم کیا گیا اور تقریباً باون فی صد رائے دہندگان نے یونین سے خروج کے حق میں ووٹ دیا، پھر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں 26جون 2018 کو اس کی پارلیمنٹ نے منظوری دی اور یہ ایکٹ بن گیا۔ اب حکومت اس پر عمل درآمدکی پابند ہے تاوقتیکہ پارلیمنٹ اپنے فیصلے کو منسوخ نہ کرے، واضح رہے کہ 11فروری کو میں بریگزٹ پر کالم لکھا چکا ہوں۔
بریگزٹ برطانیہ کے لیے ’’وزیر اعظم خور‘‘ بن گیا، اس کا وعدہ ڈیوڈ کیمرون نے 2016 کی انتخابی مہم میں کیا تھا تاکہ علیحدگی پسندوں کو بے اثر بنایا جاسکے، الیکشن انہوں نے بھاری اکثریت سے جیتا اور پھر حسبِ وعدہ انہیں ریفرنڈم کرانا پڑا۔ ریفرنڈم کو انہوں نے سنجیدگی سے نہیں لیا اور عوام کو یورپین یونین چھوڑنے کے طریقۂ کار اور مابعد اثرات سے آگاہ نہیں کیا گیا، عوام نے یورپین یونین چھوڑنے کے حق میں ووٹ دیا اور ڈیوڈ کیمرون، جو یورپین یونین میں شامل رہنے کے حامی تھے، نے وزارتِ عظمیٰ سے یہ کہتے ہوئے استعفا دیا: ’’نئی قیادت آکر بریگزٹ کے عمل کو مکمل کرے‘‘۔ اس کے بعد ٹِرسامے وزیر اعظم بنیں، انہوں نے 8جون 2017 کو تازہ مینڈیٹ لینے کے لیے انتخابات کرائے، لیکن اکثریت میں کمی
آئی۔ پھر انہوں نے یورپین یونین کے ساتھ بریگزٹ کا مکالمہ شروع کیا اور بالآخر ایک ’’بریگزٹ ڈیل‘‘ کرنے میں کامیاب ہوئیں، لیکن پارلیمنٹ سے بار بار کی کوششوں کے باوجود توثیق نہ کراسکیں، کیونکہ نارتھ آئرلینڈ کے بیک اسٹاپ کا مسئلہ اُن کے لیے پائوں کی زنجیر بن گیا اور نوڈیل بریگزٹ کو بھی پارلیمنٹ نے رد کردیا، اس عمل میں انہیں اپنی پارٹی کے کئی ساتھیوں سے محروم ہونا پڑا، بالآخر وہ ناکام ہوکر اشکبار آنکھوں کے ساتھ وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہوگئیں۔ پھر بورس جانسن نے پارٹی لیڈر منتخب ہونے کے بعد وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور پارلیمنٹ کو پانچ ہفتوں کے لیے معطل کرتے ہوئے برملا اعلان کیا کہ 31اکتوبر تک یورپین یونین کو چھوڑ دینا ہے، خواہ نوڈیل پر ہی چھوڑنا پڑے۔ انہوں نے نئے الیکشن کرانے کی بھی سرتوڑ کوشش کی، لیکن پارلیمنٹ نے اُن کے پائوں میں بھی بیڑیاں ڈال دیں اور دوقراردادیں پاس کیں: (۱) نوڈیل بریگزٹ نہیں ہوگا (۲) بریگزٹ ڈیل کے بغیر نئے الیکشن منعقد نہیں کیے جاسکیں گے۔ الغرض بریگزٹ دو برطانوی وزرائے اعظم کو ہضم کرچکا ہے اور تیسرا اُس کے شکنجے میں ہے، دیکھیے ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔ یہ حالیہ برطانوی تاریخ کا سب سے مشکل مرحلہ ہے۔ ماضی میں کہا جاتا تھا: ’’برطانوی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا‘‘، لیکن آج برطانیہ تماشا گاہِ عالَم بنا ہوا ہے، علامہ اقبال نے کہا تھا: ’’حذَر اے چِیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں‘‘۔ اس سفر کے دوران بریڈفورڈ میں المرکز الاسلامی کے دورے کا موقع ملا، اس مرکز کے بانی اور سربراہ علامہ حسن رضا ہیں، جن کا ہری پور کے ایک قدیم علمی خانوادے سے تعلق ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اس ادارے میں چھ سو مقامی طلبہ زیرِ تعلیم ہیں، ان میں اکثریت جدید تعلیم یافتہ حضرات کی ہے اور ذریعۂ تعلیم انگریزی ہے، برطانیہ کے اعتبار سے یہ تعداد نہایت حوصلہ افزا ہے۔بریڈفورڈ میں ایک اور نیا ادارہ سنی کالج دیکھنے کا موقع ملا، جو ابتدائی مراحل میں ہے، البتہ اس کے بانی جناب عمران چودھری جواں عمر ہیں اور انہوں نے ’’سنی فائونڈیشن‘‘ کے تحت انگریزی میں ابتدائی نصابی کتب اور ترجمۂ قرآن کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔ اسی سفر کے دوران برمنگھم میں مشہور خطیب اور رومیِ کشمیر میاں محمد بخش کے کلام کے حافظ علامہ غلام رسول چکسواریؒ کے عرس میں شرکت کا موقع ملا، انہوں نے جامع مسجد مجدد الف ثانی قائم کی تھی اور اس میں اُن کے صاحبزادے حافظ محمد سعید مکی خدمات انجام دے رہے ہیں، یہ بھی کافی بیدار مغز اور باصلاحیت ہیں۔
میرے ایک عزیز اور جواں عمر عالم مولانا قاری منظور شاکر صاحب اولڈھم میں ایک ادارہ چلا رہے ہیں، انہوں نے طالبات کے لیے ایک اسکول بھی قائم کیا ہے تاکہ جو لوگ مخلوط نظامِ تعلیم کی خرابیوں سے بچاکر اپنی بچیوں کو دینی ماحول میں جدید تعلیم دینا چاہتے ہیں، اُن کے لیے ایک مناسب متبادل میسر ہو، اس کی ہر شہر میں ضرورت ہے اور علماء کو ایسے اداروں کی طرف لوگوں کو راغب کرنا چاہیے۔ میں نے برطانیہ کے علماء کو مشورہ دیا: ’’ساراوقت سوشل میڈیا پر ضائع نہ کریں، تجربے میں آیا ہے کہ اس کے نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ ہیں، مطالعے کی عادت ڈالیں، سہل پسندی سے اجتناب کریں، مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کو جو چیلنج درپیش ہیں، ان کا صحیح ادراک کریں اور دلیل واستدلال کے ساتھ ان کا سامنا کریں، نوجوانوں کے ساتھ رابطہ رکھیں، مذہب کے بارے میں ان کے ذہنی اشکالات کا تسلّی بخش جواب دینا آپ کی دینی ذمے داری ہے۔ حسّاس مسائل پر عجلت میں ایسے فتوے صادر نہ کریں جن کا دفاع مشکل ہوجائے، اہم مسائل پر کوئی فتویٰ صادر کرنا یا موقف دینا ہو تو اصحابِ فتویٰ اور اہلِ علم سے مشاورت ضروری ہے، مغرب کا مقولہ ہے: ’’اجتماعی دانش انفرادی دانش سے بہتر ہوتی ہے‘‘۔ میری مراد اس دانش سے ہے جو عقلِ سلیم کا فکری نتیجہ ہو، عقلِ عیّار سے گریز کیا جائے، عقلِ سلیم خداداد نعمت ہے۔