امریکا میں مقیم بھارتی تارکین وطن کے ایک بڑے جلسے میں مودی کے ساتھ ٹرمپ کی بے خودی اور بے تابانہ سرگرمیاں اور پھر خیالات کے اظہار میں کئی مشترکات کا تذکرہ دونوں ملکوں کے تعلقات کے بلندیوں اور گہرائیوں کی جانب مائل ہونے کا ایک اور ثبوت فراہم کر گیا۔ نریندر مودی نے اس جلسے میں پاکستان کا نام لیے بغیر تنقید کی اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی شناخت ختم کرنے کے فیصلے کا پوری ڈھٹائی سے دفاع کیا۔ مودی نے کشمیر کی پوری آبادی کو قید رکھنے اور ابلاغ اور اطلاع کے دور میں دنیا سے کاٹنے کی بات گول کر دی۔ مودی نے بھارت کی روایتی پالیسی کے تحت خود کو امریکا کے ساتھ دہشت گردی کے مظلوم کے رشتے میں جوڑا اور دہشت گردی بھی اسلامی دہشت گردی۔ ٹرمپ نے بھی جم کر بھارت اور مودی کی تعریف کی اور اسلامی شدت پسندی کے خلاف مشترکہ طور پر نمٹنے کا ذکر کیا۔ دلچسپ بات یہ اسلامی شدت پسندی کی بات ایک ایسے اسٹیج سے دو ایسے افراد کر رہے تھے جو خود اپنی طرز کی شدت پسندی کو پوری قوت سے اپنے قول عمل سے بڑھاوا دے رہے ہیں۔ ٹرمپ دانستہ یا نادانستہ دنیا بھر میں سفید فام دہشت گردی اور شدت پسندی کے فروغ کا باعث بن رہے ہیں اور مودی ہندو نسل پرستی کے سب سے بڑے علم بردار کے طور پر اُبھر رہے ہیں۔ وہ ہندوستان کو اسم بامسمیٰ یعنی ہندئووں کے ملک کے طور پر تشکیل دینے جا رہے ہیں جس میں اقلیتوں اور غیر ہندوئوں کے رہنے کے امکانات رفتہ رفتہ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔
امریکا نے دنیا میں دو ملکوں کو اعلانیہ طور پر اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر ہونے کا شرف بخشا ہے۔ ان میں اسرائیل کے بعد بھارت کے نام کا اضافہ ہوگیا ہے۔ دفاعی شراکت داری کا مطلب یہ ہے کہ تینوں میں سے کسی ایک کا دشمن تینوں کا دشمن اور کسی ایک کا دوست تینوں کا دوست ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکا، بھارت اور اسرائیل یارانہ مزید گہرا ہوتا چلا گیا اور اس کی بنیاد اسلامی شدت پسندی اور فلاسفی قرار پائی۔ جوں جوں بھارت امریکا کے قریب چلا گیا اسی رفتار سے پاکستان امریکا سے دور ہوتا چلا گیا۔ امریکا کی مثال ایک ایسے کینگرو جیسی تھی جس کے پاس صرف ایک تھیلی تھی اور اس تھیلی میں بھارت براجمان ہو چکا تھا۔ پاکستان حسرت ویاس سے اس منظر کو دیکھنے کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتا تھا۔ امریکی صدرکلنٹن کا بھارت کا پانچ روزہ دورہ کرنے کے بعد واپس جاتے ہوئے چند گھنٹے پاکستان میں گزارنا امریکا کے نزدیک دونوں ملکوں کی اہمیت کو ظاہر کررہا تھا۔ بش جونئر کے دور میں نائن الیون ہوا اور بھارت نے خود کو امریکا کے ساتھ مظلومیت کی ڈور میں باندھ دیا۔ اس وقت امریکا مسلمان دنیا پر غضب ناک تھا اور پوری مسلمان دنیا کا جغرافیہ ہی بدلنا چاہتا تھا۔ وہ جمہوریت، امن اور تہذیب ِنو کے نام پر مسلمان دنیا کے روایتی حکمرانوں اور نظام کو تلپٹ کرکے آدھی مسلمان دنیا پر اسرائیل اور آدھی پر بھارت کی چوکیداری کو مسلط کرنا چاہتا تھا۔ عرب ملک تو امریکا کی اس اسکیم کے آگے ڈھیر ہوگئے تھے اور پھر ان کا جو حشر ہوا اسے دنیا اب تک دیکھ رہی ہے۔ صدام حسین اور معمر قذافی جیسے ’’مردان آہن‘‘ خزاں
گزیدہ پتوں کی طرح حالات کی ہوا کے ایک جھونکے سے اُڑ گئے۔ ان کی مضبوط فوجوں اور دفاعی حصاروں کے تصورات افسانے بن کر رہ گئے۔ حسنی مبارک کی صورت جو باقی بچے تھے انہیں عرب بہار کی لہروں نے بہا دیا اور یہ لہریں بھی امریکا کی ہی بپا کر دہ تھیں۔ ایشیا میں پاکستان نے اس تسلط اور اسکیم کی مزاحمت کا فیصلہ کر لیا تھا۔ پاکستان نے خود کو مسلم برصغیر اور تہذیب کا نمائندہ جان کر بھارت کی بالادستی اور چوکیداری کے فیصلے کو رد کرکے مزاحمت کا راستہ اپنایا۔ یہ حقیقت میں امریکا کے فیصلے کی مزاحمت اور استرداد تھا اور امریکا نے پاکستان کو اس فیصلے کی سزا دینے کے لیے خود کو بھارت سے مزید قریب کر دیا۔ امریکا نے اس عرصے میں پاک بھارت تعلقات کے لیے امن اور دوستی کے جتنے پروجیکٹ چلائے وہ کشمیر کی کنٹرول لائن کو مستقل بنانے اور سری نگر پر بھارت کے تسلط کو حقیقت کے طور پر قبول کرنے کے تصور کے گرد گھومتے تھے۔ نواز واجپائی مفاہمت اور مشرف من موہن شراکت دونوں اسی تصور کے گرد گھومتے تھے اسی لیے پاکستان کی ہئیت مقتدرہ نے ان دونوں منصوبوں کو تکمیل سے پہلے ہی ناکام بنادیا۔ اسی لیے بھارت کے حکمران پراعتماد انداز سے کہتے تھے مسئلہ کشمیر تو حل ہوگا مگر سرحدوں میں ردوبدل کا کوئی امکان نہیں۔ سرحدوں پر ردوبدل نہ ہونے کا مطلب یہ تھا کہ کنٹرول لائن بھی اپنی جگہ موجود رہے گی اور سری نگر پر بھارت اور مظفرآباد پر پاکستان ہی کا کنٹرول رہے گا۔ یہ حل وادی ٔ کشمیر کے عوام کی قربانیوں اور جذبات سے چونکہ لگا نہیں کھاتا تھا اس لیے پاکستان کی ہیئت مقتدرہ نے اسے تسلیم نہیں کیا۔
امریکا، بھارت اور اسرائیل کے تعلقات اسٹرٹیجک پارٹنرز کے طور پر روز بروز گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان اس کھیل کا بارہواں کھلاڑی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو نہ دوستی کہا جاسکتا ہے نہ شراکت داری اور نہ ان روکھے پھیکے تعلقات پر خوش گواریت کا لیبل چسپاں ہوتا ہے۔ ان تعلقات کو انگریزی میں ’’انگیج‘‘ یعنی مشغول کہا جا سکتا ہے۔ عمران خان کا پچھلا دورہ امریکا بھی امریکا کو اپنے خلاف دشمنی سے ہٹا کر ربط وتعلق کے عمل میں مشغول رکھنا تھا اور اس بار بھی بات اس سے آگے بڑھنے نہیں پائے گی۔ امریکا بھی امداد اور تعاون کے جھانسے دے کر پاکستان کو پوری طرح امریکا مخالف ہوجانے سے روکنے کے لیے ’’مشغول‘‘ رکھنا چاہتا ہے۔ دونوں کا ایک دوسرے کو مشغول رکھنا شاید خود فریبی تو ہے مگر یہ دونوں کی ضرورت بھی ہے۔ اس لیے امریکا میں مودی کی پزیرائی کا ایک طویل پس منظر ہے۔ اس کے باجود پاکستان کو امریکا کا محاذ پوری طرح بھارت کے لیے خالی چھوڑنے کے بجائے اپنی بات اور موقف کو پیش کر نے کا کوئی موقع ضائع نہیںکرنا چاہیے۔ ہوسٹن میں پچاس ہزار بھارتی ’’ہاوڈی مودی‘‘ کہہ رہے تھے تو اسی فضا میں بیس ہزار پاکستانی اور کشمیری ’’کلر مودی‘‘ کے نعرے بھی بلند کر رہے تھے۔ آزاد فضائوں اور رائے کی آزادی رکھنے والے معاشروں کی یہ خوبی تو ہوتی ہے کہ ہر کسی کو اپنی بات آزادی سے کرنے کا موقع میسر آتا ہے، اس موقع کو امکان میں بدلنا ایک فن ہے اور کبھی یہ معجزہ خود بھی رونما ہوجاتا ہے۔ پاک امریکا اور بھارت تعلقات میں ہمیں فرینڈشپ اور انگیجمنٹ کے فرق کو ملحوظ رکھ کر حقیقت پسندی کا ثبوت مظاہرہ کرنا ہوگا۔