مکالمہ

184

آزاد کشمیر کی سیاسی تاریخ میں غازی ملت سردار محمد ابراہیم‘ سردار محمد عبدالقیوم خان کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا‘ پانچ اگست کے فیصلے نے جس طرح تاریخ کا دھارا ہی موڑ کر رکھ دیا ہے آج شدت سے ان کی یاد آرہی ہے۔ 14 اگست 1947 اور پانچ اگست 2019‘ کے درمیان کتنا فرق ہے‘ اگر سال میں یہ وقت ماپا جائے تو 72 سال کا فرق ہے لیکن تاریخ میں اسے 72 سال کا فرق نہیں لکھا جائے گا تاریخ اسے اپنے حق سے دستبرداری کا نام دے گی‘ یہ حق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی تسلیم کر رکھا ہے‘ یہ جملہ لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ اب اس حق سے دست برداری اختیار کرلی گئی ہے‘ قبلہ سعود ساحر ایک سینئر صحافی ہیں‘ تاریخ بھی ہیں اور اپنی ذات میں انجمن بھی‘ وہ سیاست کے کئی سورج چڑھتے اور غروب ہوتے ہوئے دیکھ چکے ہیں‘ جن دنوں آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس تقسیم ہوئی اور اس کی پسلی سے مسلم لیگ(ن) نے جنم لیا تو بے شمار سوالات نے آن گھیرا‘ کسی نے لکھا کہ سردار محمد عتیق خان اس کے ذمے دار ہیں‘ مسلم کانفرنس کی لیڈر شپ کا موقف رہا کہ مسلم لیگ اس کی ذمے دار ہے‘ مسلم لیگ میں چند رہنماء ایسے تھے جنہوں نے کہا یہ کام نہ ہونے دیا جائے‘ تاہم متعدد رہنماء چاہتے تھے کہ مسلم کانفرنس اب مسلم لیگ کا متبادل نہیں رہی‘ بہر حال اگر راجا محمد ظفر الحق اور چودھری نثار علی خان اس سے پردہ اٹھا سکیں تو سب کچھ افشاء ہوسکتا ہے۔ سعود ساحر اسے ’’چار شہزادوں‘‘ کی لڑائی کا نام دیتے رہے‘ کہ عتیق‘ فاروق حیدر‘ سردار سکندر اور سردار خالد ابراہیم‘ یہ چار شہزادے باہم برسرپیکار ہیں‘ لیکن اب تو ان چاروں کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا‘ اب لڑائی بہت دور نکل گئی ہے‘ بے شمار ایسے رہنماء ہیں جو آج حکومت میں ہیں مگر انہیں حکومت میں سے آنے سے قبل زندگی میں کبھی کسی کشمیر ریلی میں شریک ہوتے اور قیادت کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔
طورخم میں کیا کہا‘ جو کشمیر لڑنے گیا‘ تو یہ کشمیریوں سے غداری ہوگی‘ کسی پاکستانی کو یہ بیان سمجھ نہیں آیا‘ تاہم صرف امریکی صدر ٹرمپ ہی کو سمجھ میں آیا‘ اسی لیے تو انہوں نے اس بیان کی تعریف کی‘ پاکستان میں کسی نے اس بیان پر ردعمل نہیں دیا آج اگر سردار عبد القیوم خان‘ سردار ابراہیم‘ نواب زادہ نصرا للہ خان‘ قاضی حسین احمد‘ سردار فتح محمد کریلوی‘ راجا حیدر خان جیسے رہنماء حیات ہوتے تو لازمی رد عمل دیتے‘ نواب زادہ نصرا للہ خان کے صاحب زادے‘ نواب زادہ افتخار احمد خان کہتے ہیں کہ آج نواب صاحب حیات ہوتے تو ان کے لیے جینا بہت مشکل ہوجاتا‘ سردار عبد القیوم خان‘ سردار ابراہیم‘ قاضی حسین احمد‘ سردار فتح محمد کریلوی‘ راجا حیدر خان سب کے لیے بھی جینا مشکل ہوجاتا‘ آج سیاسی رہنمائوں میں کتنے ایسے ہیں جنہیں کشمیر کی تاریخ پر عبور حاصل ہے؟ آج سیاسی جماعتوں کے سربراہ ان رہنمائوں کے مقابلے میں بونے ہیں‘ ان کے پاس پانچ اگست کو شکست دینے والی کوئی دلیل نہیں‘ صرف رٹے رٹائے جملے ہیں‘ انہیں ادراک ہی نہیں کہ چار اگست تک تو لال چوک میں آزادی کے نعرے لگ رہے تھے اور پانچ اگست کو ایک فیصلے کے بعد سری نگر غلامی میں چلا گیا‘ تو اس ماحول میں‘ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجا فاروق حیدر کیوں سوال نہ ا ٹھائیں کہ آپ لوگوں کو کیا ہوگیا؟ آپ ڈالروں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، ڈالر کھائیں گے آپ؟ آپ لوگ ڈالر چبا کر کھائیں گے؟ کیا کریں گے آپ؟ مجھے بتائیے آپ! آپ آخری کشمیری کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں؟ یہ کیا بات ہوئی کہ اگر انڈیا نے آزاد کشمیر پر حملہ کیا تو ہم دیکھ لیں گے؟ آپ کشمیریوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیں گے کہ وہ کشمیری مارے جائیں؟ میں آپ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ کشمیریوں کا ساتھ دینے کے لیے اب ہمیں میدان میں آنا ہوگا۔
قومی پارلیمنٹیرینز کانفرنس برائے کشمیر میں اٹھائے جانے والے ان سوالوں نے آنکھوں میں پناہ لیے ہوئے آنسوئوں کو چھلکنے پر مجبور کردیا کشمیری پچھلے 50 دنوں سے ایک جیل میں قید ہیں ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں کشمیری لڑکیاں اغوا کی جارہی ہیں اور نوجوان گرفتار کیے جارہے ہیں معصوم بچے بھوک سے بلک رہے ہیں اور مریض سسک سسک کر آخری سانسوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ پوری وادی کو مقتل بنا دیا گیا ہے کشمیری آج مدد کے لیے پاکستانی قوم اور حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں حکومت صرف زبانی کلامی دعوے کرر ہی ہے عملی اقدام کوئی نہیں‘ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے سب منتظر ہیں وہاں کشتیاں جلا کر میدان عمل میں اترنے کا اعلان ہوگا؟ یا دنیا ہماری رسوائی دیکھے گی‘ وزیر اعظم کے سامنے دو راستے ہیں‘ ٹیپو سلطان کا اور دوسرا بہادر شاہ ظفر کا‘ اب فیصلہ ہونا ہے کہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘ اقوام متحدہ میں وزیر اعظم کا خطاب نہیں ہونا بلکہ فیصلہ ہونا ہے کہ شاہین کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور‘ محترم جناب لیاقت بلوچ کہتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کشمیر کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو جیل خانے میں تبدیل کردیا ہے۔ بھارتی ظلم و جبر کے حوالے سے اقوام متحدہ‘ عالمی طاقتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ مسئلہ کی سنگینی کے پیش نظر جو کردار انہیں ادا کرنا چاہیے تھا۔ وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ علامہ اقبال کو بھی کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ انہوں نے کشمیر کے ساتھ محبت کا حق ادا کیا اور اس حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے۔ آج کے اہل قلم کو علامہ اقبال سے رہنمائی لینی چاہیے۔
حکومت کو 5اگست کے بعد فوری طور پر قومی کانفرنس بلانی چاہیے تھی وزیراعظم عمران خان تو پارلیمنٹ میں کسی سے ہاتھ ملاتے ہیں نہ کسی اپوزیشن رکن سے ملنا گوارا کرتے ہیںکوئی یہ مانے یا نہ مانے مگر آج اِس حقیقت کا دنیا کو ادراک ضرور کرنا پڑے گا کہ بھارت نے کشمیر پر قبضے کے لیے اپنے آئین میں ترامیم امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کو اعتماد میں لے کر ہی کی ہے۔ یعنی کہ کشمیر پربھارت کے قبضے اور حکمرانی کے لیے کی جانے والی قانونی ترامیم کے درپردہ امریکا پوری طرح سے ملوث ہے جس کی پوری مرضی شامل ہے۔ ورنہ مودی لاکھ چاہتے ہوئے بھی خود سے اتنا بڑا فیصلہ کبھی نہ کرسکتا تھا اور نہ اِس میں مرتے دم تک اتنی ہمت ہوتی۔ کشمیری مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کا پروگرام امریکا ہی سے آیا ہے جس طرح امریکا نے فلسطین پر قبضے کے لیے پہلے طاقت کے زور پر وہاں کی اکثریتی آبادی کو اقلیت میں بدلا پھر کثیر تعداد میں اسرائیلیوں کو وہاں آباد کرکے فلسطین کی اصلیت بدل ڈالی ہے اِسی کلیے اور نظریے تحت امریکا نے بھارت کو کشمیر میں ہندووں کو آباد کرنے کے لیے کہا ہے۔ بہرحال، بھارتی دہشت گرد حکمران اور آر ایس ایس کے جنونی ہندوسیاست دانوں نے بھارتی آئین میں ہٹ دھرمی کی بنیاد پر ترامیم کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا کر جنت نظیر کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بدل کررکھ دیا ہے اِنسا نی حقوق کے علمبرداروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ٹرمپ کا یار مودی پانچ اگست سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا کر اِنسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ کشمیریوں کو نو لاکھ بھارتی افواج اور فوج کی وردی میں تیس، چالیس ہزار آر ایس ایس کے دہشت گرد تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں مگر ابھی تک دنیا لا علم ہے اور بھارتی عدالت عظمیٰ بھی مودی کے حق میں ہی فیصلہ دے چکی ہے‘ فیصلہ پڑھیے تو سمجھ میں آجائے گا‘ اس فیصلے کے بعد بھی پاکستان کی سیاسی قیادت باہمی مکالمہ نہیں کر رہی۔