وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد میں خیبر پختون خوا اور پنجاب میں متعارف کرائے جانے والے مقامی حکومتوں کے نئے نظام کے خد وخال کی بریفنگ سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے متعارف کرایا جانے والا مقامی حکومتوں کا نیا نظام حقیقی معنوں میں انقلاب برپا کرے گا، تحصیل اور میونسپل سطح پر براہ راست انتخاب سے جہاں عوام کو اہل اور قابل نمائندگان منتخب کرنے کے مواقع میسر آئیں گے وہاں سیاسی جماعتیں بھی مضبوط ہوں گی۔ دوسری جانب پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس عبدالشکور پر مشتمل دو رکنی بینچ نے صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈراور سابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی کی جانب سے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں کی گئی ترامیم کیخلاف دائر رٹ پر صوبائی حکومت سے جواب مانگ لیا ہے، اکرم خان درانی سمیت دیگر ارکان اسمبلی کیجانب سے دائر رٹ کی سماعت کے دوران ان کے وکیل قاضی جواد اور احسان اللہ قریشی نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں مختلف ترامیم متعارف کرائی ہیں جن کے تحت ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا مکمل طور پر خاتمہ کیا گیا ہے حالانکہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی بنیادی شقوں میں ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو بہت زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں، ایکٹ کا مقصد اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنا تھا تاہم اب صوبے کے وزیراعلیٰ کو بااختیار بنا کر لوکل گورنمنٹ ایکٹ کو تباہ کیا گیا ہے، نئی ترامیم میں وزیراعلیٰ کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی قرار داد اور دیگر امور کو کالعدم قرار دے سکتا ہے حالانکہ جب یہ ایکٹ بنایا جا رہا تھا تو اس کا مقصد یہ تھا کہ اضلاع اپنے طور پر حکومتیں بناسکیں گی اور تحصیل کی سطح پر ترقیاتی کاموں کے ساتھ ساتھ دیگر امور کو دیکھا جائے گا مگر موجودہ حکومت نے اس ایکٹ کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔
واضح رہے کہ صوبائی حکومت نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں کئی بنیادی ترامیم کی ہیں جن میں خاص بات ضلعی حکومت کا مکمل طور پر خاتمہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ تحصیل ناظم کو چیئرمین قرار دیا گیا ہے جنہیں ووٹرز جماعتی بنیادوں پر براہ راست منتخب کریں گے حالانکہ سابقہ ایکٹ میں تحصیل ناظم کو تحصیل کونسل کے ارکان اکثریت کی بنیاد پر منتخب کرتے تھے۔ آئینی ماہرین کے مطابق کہ یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 140 اے کی خلاف ورزی ہے کیونکہ لوکل گورنمنٹ کے سابقہ ایکٹ میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ زیادہ تر محکموں کا کنٹرول ضلعی حکومتوں کے پاس ہو گا مگر اس اقدام سے صوبائی حکومت تمام امور پر اپنا کنٹرول لانا چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ضلع ناظم کی حیثیت کو مکمل طور پر ختم کرنے سے شدید مسائل سامنے آئیںگے۔ نئے قانون کے تحت تحصیل چیئرمین سیاسی جماعت کا ہوگا اور وہ ایک پارٹی کی نمائندگی کرے گا جس کے باعث نیچے ویلج کونسلوں کے غیرجماعتی ناظمین جو متعلقہ تحصیل اور ٹائون کونسلوں کے بر بنائے عہدہ رکن ہوں گے کو بھی مسائل اور حکومتی دبائو کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح ضلعی نظام کی بساط لپیٹے جانے سے بھی مقامی حکومتوں کی روح کو شدید دھچکا پہنچے گا۔ یاد رہے کہ 2013 کے بلدیاتی نظام سے یونین کونسل پر مشتمل مقامی حکومتوں کے ایک مستحکم اور مانوس درجے کے خاتمے سے ہمارے ہاں کے مروجہ بلدیاتی نظام میں جو خلل واقع ہوا تھا اب ضلعی نظام کے خاتمے کی صورت میں اس پورے نظام کے عضو معطل بننے کے خدشات ظاہرکیے جارہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ الیکشن کمیشن نے بھی خیبر پختون خوا میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں تاخیری حربے استعمال کرنے پر محکمہ بلدیات کی کارکردگی پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن کی جانب سے محکمہ بلدیات کو بھیجے گئے ایک مراسلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ڈائریکٹر جنرل لوکل گورنمنٹ سے ضروری دستاویزات اور اعلامیے طلب کیے تھے تاہم محکمہ بلدیات کی جانب سے الیکشن کمیشن کے احکامات کے مطابق درکار دستاویزات فراہم نہیں کی گئی ہیں جس پر الیکشن کمیشن ارکان نے نا پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن 28اگست کو موجودہ بلدیاتی نظام کی چار سالہ مدت ختم ہونے کے چار ماہ کے اندر اندرنئے بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے کے نہ صرف آئینی طورپر پابند ہیں بلکہ اس سلسلے میں خیبر پختون خوا حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان بلدیاتی انتخابات منعقد کرنے کے حوالے سے بعض مشترکہ اقدامات پر بھی اتفاق کیا گیا ہے لہٰذا توقع ہے کہ صوبائی حکومت اپوزیشن کی مثبت اور مفید تجاویز کا خیر مقدم کرنے کے ساتھ ساتھ اس ضمن میں ہائی کورٹ کے کسی بھی ممکنہ فیصلے کے احترام کو ہر حال میں یقینی بنائے گی۔