ذرائع ابلاغ کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ اس حیثیت سے ذرائع ابلاغ کا فرض ہے کہ وہ ریاست اور اس کے نظریے کے وفادار رہیں۔ ریاست میں جو شخص ریاست اور اس کے نظریے کا وفادار نہیں ہوتا اسے ’’غدار‘‘ کہا جاتا ہے اور کوئی ریاست غداروں کو برداشت نہیں کرتی۔ سوویت یونین وقت کی دو سپر پاورز میں سے ایک تھا مگر یہ سپر پاور اپنے نظریے کے بارے میں اتنی حساس تھی کہ اس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سُن سکتی تھی۔ حالاں کہ مارکسزم ایک انسانی ساختہ نظریہ تھا اور اس میں کوئی الوہیت نہیں تھی۔ ٹراٹسکی سوویت یونین کے انقلاب کے بانیوں میں سے ایک تھا مگر اسے مارکسزم کی تشریح کے سلسلے میں لینن سے اختلاف تھا مگر لینن نے اس کے اختلاف تک کو برداشت نہ کیا۔ ٹراٹسکی کو ملک چھوڑنا پڑا اور سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی نے ٹراٹسکی کو دیار غیر میں مار کر دم لیا۔ ایزرا پاونڈ امریکا کا شاعرِ اعظم اور عظیم نقاد تھا۔ اس نے اٹلی جا کر مسولینی کی تعریف کردی اور امریکی نظام پر طنز فرما دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایزرا پاونڈ کو جان بچانی مشکل ہوگئی۔ اس کے پرستاروں کو اس کی جان بچانے کی واحد صورت یہ نظر آئی کہ اسے پاگل قرار دے کر پاگل خانے میں داخل کرادیں۔ چناں چہ ایزرا پاونڈ نے دس سال پاگل خانے میں بسر کیے۔ سوسن سونٹگ امریکا کی ممتاز دانش ور تھیں۔ انہوں نے دس بارہ سال پہلے کہہ دیا کہ امریکا کی بنیاد نسل کشی پر رکھی ہوئی ہے۔ ہر طرف سے غدار، غدار کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ نوم چومسکی امریکا کو ’’بدمعاش ریاست‘‘ کہتے ہیں۔ انہیں امریکا نے مارنے کی صورت یہ نکالی ہے کہ وہ امریکا یا یورپ کے کسی بڑے ٹی وی چینل پر نہیں بلائے جاتے، حالاں کہ اس وقت وہ مغرب کے سب سے بڑے دانش ور ہیں۔ پاکستان میں آپ جرنیلوں کے بارے میں کچھ کہہ کر دیکھیں نتیجہ چار دن میں سامنے آجائے گا۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس کا نظریہ ’’اسلام‘‘ اتنا بے یارومددگار ہے کہ اس پر جو چاہے کھلے عام حملہ کرسکتا ہے۔
اس کی تازہ ترین مثال ڈان اور جیو ہیں۔ اہل پاکستان جانتے ہیں کہ 15 ستمبر 2019ء کو گھوٹکی میں توہین رسالت کی ایک شرمناک واردات ہوئی۔ ایک ہندو پروفیسر ایک کالج کے کلاس روم میں داخل ہوا۔ کالج کے طلبہ اس وقت اسلامیات پڑھ رہے تھے۔ ہندو پروفیسر نے یہ جان کر کہ بچے اسلامیات پڑھ رہے ہیں۔ پیغمبر اسلام پر توہین آمیز حملہ کیا۔ یہ بات کلاس میں موجود ایک طالب علم ابتسام نے اپنے والد کو بتائی۔ چناں چہ علاقے میں بجا طور پر غم و غصے کی فضا پیدا ہوگئی اور لوگ احتجاج کے لیے گھروں سے نکل آئے۔ اس واقعے کو ڈان نے صفحہ اوّل پر رپورٹ کیا اور 127 سطور پر مشتمل خبر شاائع کی۔ مگر ڈان کا ’’کمال‘‘ دیکھیے کہ اس نے طویل خبر کی صرف تین چار سطور توہین رسالت پر صرف کیں اور باقی سطور اس حوالے سے سامنے آنے والے ردِعمل کو رپورٹ کرنے پر لگادیں۔ کسی مسلم معاشرے میں توہین اسلام اور توہین رسالت سے بڑے جرم کا تصور محال ہے۔ اسلام اور رسول اکرمؐ کی ذات ہماری پوری زندگی، ہماری پوری تہذیب اور ہماری پوری تاریخ کی بنیاد ہے۔ چناں چہ معروضی صحافت، Objective Jurnalism کا تقاضا یہ تھا کہ ڈان توہین رسالت کی واردات کو اس کی پوری ہولناکی کے ساتھ رپورٹ کرتا اور 127 سطور کی خبر کی کم از کم 100 سطور توہین رسالت کی واردات کی تفصیلات پر صرف کرتا اور باقی 27 سطور میں یہ بتاتا کہ اس واقعے نے کیسے ردعمل کو جنم دیا ہے۔ مگر ڈان نے توہین رسالت کی واردات کو چند فقروں میں نمٹا دیا۔ یہاں تک توہین کہ رسالت کے مرتکب ہندو پروفیسر اور اس کے تعلیمی ادارے کا نام بھی ڈان نے خبر میں دینا ضروری نہ سمجھا۔ البتہ ڈان نے توہین رسالت کے ردعمل میں ہونے والے ’’فطری واقعات‘‘ کو ہر ممکن حد تک غیر فطری بنا کر پیش کیا۔ بلاشبہ اسلام کرے کوئی بھرے کوئی کے فلسفے پر یقین نہیں رکھتا۔ جن لوگوں نے عام ہندوئوں کی املاک کو نقصان پہنچایا انہوں نے ٹھیک نہیں کیا مگر توہین رسالت کی واردات پر لوگوں میں غم و غصے کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔ ڈان نے خبر میں یہ بتانا تو ضروری نہ سمجھا کہ رسول اکرمؐ کی توہین کتنا بھیانک جرم ہے اور رسول اکرمؐ کی تکریم کے تحفظ کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ البتہ ڈان نے اپنے قارئین کے دل میں ٹھنڈک ڈالنے کے لیے یہ بتانا ضروری سمجھا کہ پولیس نے توہین رسالت کے مرتکب ہندو پروفیسر کو ہر ممکن تحفظ مہیا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اس سلسلے میں تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار وانکوانی نے بڑا متحرک کردار ادا کیا اور ہندو پروفیسر کے تحفظ کے لیے پولیس کے اعلیٰ حکام کو فون کرکے یقین دہانیاں حاصل کیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ رمیش کمار وانکوانی کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں؟ عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے اگر ناموس رسالت کا تحفظ اہم ہوتا تو وہ اب تک رمیش کمار کو پارٹی سے نکال چکے ہوتے۔ اہل پاکستان کو مبارک ہو کہ ان کے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک ہندو اتنا طاقت ور ہے کہ وہ توہین رسالت کی مذمت میں تو ایک لفظ نہیں کہتا مگر توہین رسالت کے مرتکب شخص کی حفاظت کی اسے اتنی پروا ہے کہ وہ پولیس کے اعلیٰ اہلکاروں کو فون کرکے بتاتا ہے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ مگر یہ تو صرف ایک واقعے کا تجزیہ ہے۔
ہمارے ذرائع ابلاغ کی ’’اسلامی دوستی‘‘ سے متعلق دوسرا اواقعہ ضلع ہری پور میں پیش آیا جہاں کی ضلعی تعلیمی افسر نے ایک حکم نامے کے ذریعے ضلع کے تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں کی طالبات کو پابند کیا کہ وہ آئندہ سے مناسب پردے کا اہتمام کریں گی۔ حکم نامے کا پس منظر یہ ہے کہ علاقے میں لڑکیوں کو چھیڑنے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ چناں چہ طالبات کے تحفظ کے لیے ضروری سمجھا گیا کہ طالبات برقعے، عبایا یا چادر اوڑھ کر تعلیمی اداروں میں آئیں۔ ڈان کراچی میں یہ معمولی سی خبر صفحہ آخر پر تین کالمی سرخی کے ساتھ شائع ہوئی۔ اس خبر کا سب سے افسوس ناک حصہ یہ ہے کہ اسے ڈان نے Free Will کا مسئلہ بنانے کی کوشش کی۔ اتفاق سے 17 ستمبر 2019ء کے روز کے پی کے کی حکومت نے پورے صوبے میں لڑکیوں کے لیے پردے کا حکم جاری کردیا۔ اس پر جیو کے شاہزیب خانزادہ نے پروگرام کر ڈالا۔ شاہزیب نے ’’اسلام دوستی‘‘ کی صورت یہ نکالی کہ انہوں نے پردے کے معاملے کو ’’بحث کا موضوع‘‘ بنادیا۔ دوسری سطح پر انہوں نے بھی پردے کو Free Will کا مسئلہ بنا کر کھڑا کردیا۔ انہوں نے فرمایا بچیوں کی ’’مرضی‘‘ ہے وہ چاہیں تو پردہ کریں چاہیں تو نہ کریں۔
یہ حقیقت عیاں ہے کہ اسلام کا کوئی حکم بھی کم از کم اسلامی معاشرے میں ’’بحث‘‘ کا موضوع نہیں بن سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بحث اصولی طور پر ’’متنازع‘‘ مسائل پر ہوتی ہے اور اسلامی معاشرے میں قرآن کے احکامات نہ کبھی متنازع تھے، نہ ہیں، نہ ہوں گے اور نہ ہونے چاہییں۔ اس لیے کہ اگر اسلامی معاشرے میں اسلام بھی متنازع ہوگیا تو اس سے بڑی بدبختی اس معاشرے کے لیے نہیں ہوسکتی۔ مگر شاہزیب نے اپنے پروگرام میں پردے کے مسئلے پر ’’گرما گرم بحث‘‘ کرادی۔ بلاشبہ اسلامی معاشروں میں بہت سی خواتین پردہ نہیں کرتیں مگر پردہ نہ کرنا اور پردے کے حکم کو چیلنج کرنا دو مختلف باتیں ہیں۔ پردہ نہ کرنا اسلام سے انحراف ہے مگر پردے کے حکم کو چیلنج کرنا اسلام کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ بدقسمتی سے جیو کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں حسن نثار پردے کے خلاف کھلی بغاوت کا اعلان کرچکے ہیں۔ وہ ’’فرما‘‘ چکے ہیں کہ پردے کا حکم تو صرف امہات المومنین کے لیے تھا۔ یعنی پردے کا حکم عام مسلم خواتین بالخصوص عہد حاضر کے لیے ہے ہی نہیں۔ یہ اسلام کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ شاہزیب نے پردے کو ’’بحث‘‘ کا موضوع بنا کر اسلام پر ایک اور حملہ کیا ہے۔
یہ حقیقت عیاں ہے کہ اسلام انسان کو ارادی انتخاب یا Choice کی آزادی دیتا ہے لیکن اس Free Will کا شریعت کے احکامات سے کوئی تعلق نہیں۔ شریعت کا حکم مسلمان کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ شریعت کا حکم مسلمان کو آسان لگے یا مشکل اس کے آگے سر تسلیم خم کرنا ناگزیر ہے۔ ’’بندگی‘‘ اسی کا نام ہے۔ پردے کا حکم قرآن کی نص صریح سے ثابت ہے۔ چناں چہ پردہ کرنے یا نہ کرنے کی ’’آزادی‘‘ کم از کم اسلام میں موجود نہیں۔ کروڑوں مسلمان ہیں جو حرام کھا رہے ہیں مگر حرام کھانے کا عمل خلاف اسلام ہے یہ کسی Free Will کا نتیجہ نہیں ہے۔ اتفاق سے یہ صرف اسلام کا معاملہ بھی نہیں ہے۔ کیا مغرب کا کوئی ملک آزادی اور جمہوریت پر اپنے کسی شہری کو Free Will بروئے کار لانے کی اجازت دے سکتا ہے؟۔ کیا مغرب کا کوئی شہری کہہ سکتا ہے کہ میری مرضی ہے کہ میں جمہوریت کو پسند کروں یا خلافت کو، میں آزادی کو پسند کروں یا آمریت کو، ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ ہر معاشرے کے کچھ بنیادی تصورات اور کچھ بنیادی اقدار ہوتی ہیں ان پر نہ کوئی ’’بحث‘‘ ہوتی ہے نہ ان کے سلسلے میں کوئی نام نہاد Free Will بروئے کار آتی ہے۔ مگر ڈان اور جیو کی جرأت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے پردے کے قرآنی حکم کو ’’آزاد ادارے‘‘کا مسئلہ بنادیا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں جس کا دل چاہے پردہ کرے جس کا دل نہ چاہے پردہ نہ کرے۔ کل شاید یہ لوگ خدا اور رسول کے بارے میں بھی یہ کہیں گے کہ جس کا دل چاہے خدا اور رسول پر ایمان رکھے جس کا دل چاہے صاف کہے میں خدا اور رسول کو نہیں مانتا۔ ہمیں یاد ہے کچھ عرصہ پہلے جیو نے آئی ایس آئی کے ایک حاضر سروس سربراہ پر الزام لگایا تھا کہ وہ حامد میر پر حملے میں ملوث ہیں۔ اس کا نتیجہ فوراً سامنے آیا۔ پورے ملک میں جیو کی نشریات بند ہوگئیں۔ آئی ایس آئی ملک کا اہم ادارہ ہے اسے متنازع بنانے کا عمل خطرناک ہے مگر بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام آئی ایس آئی کے برابر بھی اہم اور مقدس نہیں۔ ہوتا تو حکومت، ریاست یا معاشرہ پردے کے حکم کو Free Will کا مسئلہ بنانے پر ضرور احتجاج کرتا۔ اسلام کے سلسلے میں حکومت، ریاست اور معاشرے کی مجرمانہ خاموشی شرمناک، اذیت ناک اور المناک ہے۔