آج کل حکومتی معاشی ٹیم جس میں اسٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر باقر رضا، مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی شامل ہیں۔ اپنی میٹنگوں میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں عوام کو پریس بریفنگ میں یہ خوشخبریاں سنا رہے ہیں کہ معیشت استحکام کی طرف گامزن ہے، روپے کی قدر مستحکم ہے، کرنٹ اکائونٹ خسارے میں 73 فی صد کمی ہوگئی ہے، ٹیکس نیٹ میں 6 لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کا اضافہ ہوگیا ہے، تجارتی خسارے میں 38 فی صد کمی ہوگئی ہے اور نجی کاروبار میں تیزی کا رجحان ہے اور ساتھ میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ سال 2019-20 میں معاشی ترقی کی رفتار 2.4 فی صد سے 2.6 فی صد تک رہنے کا امکان ہے جو دو سال پہلے 5.8 فی صد تھی۔
یہ بات درست ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے گزشتہ سال کے دوران جو قدم اُٹھائے گئے، اصلاحات کے نام پر جو پالیسیاں اپنائی گئیں اُن سے کچھ معاملات میں بہتری ضرور آئی ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ بہتری ہم نے کس قیمت پر حاصل کی ہے۔ مثلاً ایک طرف روپے کی قدر میں کمی ہوئی، دوسری طرف درآمدات پر مختلف ٹیکس لگائے گئے، اس کے علاوہ بجلی اور گیس کے نرخ بھی بڑھائے گئے۔ اس طرح وہ تمام خام مال جو باہر سے درآمد کیا جاتا تھا وہ بے حد مہنگا ہوگیا اور ساتھ ہی ساتھ پیداواری لاگت بھی بڑھ گئی۔ مزید یہ کہ شرح سود میں بے تحاشا اضافے سے کاروبار کے لیے قرضوں کا حصول مہنگا ہوگیا۔ اِن تمام کے باعث نتیجہ یہ نکلا کہ تمام ہی بڑی صنعتوں نے اپنی پیداوار یا تو کم کردی یا پھر کارخانے بند کردیے، حال ہی میں انڈس موٹرز نے اپنے پلانٹ کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے، جب کہ دوسرے دو کاریں تیار کرنے والے کارخانے اپنے پلانٹ جزوقتی طور پر چلا رہے ہیں، اس سے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ہزاروں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں جب کہ مہنگائی نے پہلے ہی لوگوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے۔ حالیہ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ نے آئندہ مہینوں میں مہنگائی برقرار رکھنے کا امکان ظاہر کیا ہے اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے مہنگائی بڑھنے کے خدشات ظاہر کیے ہیں۔
اِس وقت پاکستان میں بڑی صنعتیں Large Sels Manufacturer میں گزشتہ 6 ماہ سے ترقی کی شرح منفی ہے، مطلب یہ ہے کہ آٹو موبائل، سیمنٹ، ٹیکسٹائل، کیمیکلز، ادویات سازی اور چمڑے کی مصنوعات کے کارخانوں میں پیداوار میں مسلسل کمی آرہی ہے، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ روزگار کے مواقعے بڑھنے کے بجائے کم ہورہے ہیں۔ اسی طرح مسلسل غیر یقینی صورت حال کے باعث پرائیویٹ سیکٹر سرمایہ کاری پر تیار نہیں۔ حکومت اس بات کا بڑے زور شور سے کریڈٹ لے رہی ہے کہ تجارتی خسارہ کم ہوا ہے لیکن یہ برآمدات میں اضافے سے نہیں بلکہ درآمدات میں کمی کے باعث ہوا ہے۔ پاکستان کی اہم درآمدات میں کیمیکلز، مشینری اور الیکٹرونکس کے پرزہ جات شامل ہیں اور اگر یہ درآمدات کم ہوئی ہیں تو اس کا منفی اثر مینوفیکچرنگ کے شعبے پر پڑے گا اور یہ اثر پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے بڑی صنعتوں (LSM) کی پیداواری رفتار میں کمی آئی ہے تو حکومت کا یہ کوئی قابل تحسین کارنامہ نہیں ہے۔
دوسری اہم لیکن قابل تشویش بات معاشی شرح نمو ہے۔ (GDP growth) جس کے جو مختلف تخمینے لگائے جارہے ہیں ان کے مطابق آئندہ 2 سال شرح نمو تقریباً ڈھائی فی صد رہے گی۔ اس شرح کو اگر آبادی میں اضافے کی شرح سے ملائیں تو یہ شرح ترقی شرح تنزلی میں بدل جاتی ہے۔ اس شرح کے ساتھ پاکستان جیسا کوئی ملک جو ترقی پزیر ممالک کی فہرست میں آتا ہے نہ تو ترقی کرسکتا ہے، نہ ہی اس ملک میں روزگار کے مواقعے پیدا ہوسکتے ہیں، نہ ہی معاشی سرگرمیاں پروان چڑھ سکتی ہیں اور نہ ہی اس طرح خوشحالی اور بہتری کے آثار پیدا ہوسکتے ہیں اور نہ ہی عوام کا معیار زندگی معقول و مناسب سطح تک جاسکتا ہے اور نہ ہی عوام کو ان کی بنیادی ضرورتیں روزگار، صحت، تعلیم، پینے کے پانی کی فراہمی اور سر پر چھت مہیا کی جاسکتی ہیں، اس کا اندازہ پاکستان کے چاروں طرف دور اور نزدیک میں مختلف ممالک کی معاشی شرح نمو سے لگایا جاسکتا ہے جو تمام ہی ممالک میں اوسطاً چار سے پانچ فی صد ہے جب کہ پاکستان اپنی اصلاحات و اقدامات کے باعث اس شرح کو ڈھائی فی صد تک لے آیا ہے تو یہ ارباب اقدار کے لیے خوش ہونے اور فخر کرنے کے بجائے سنجیدگی سے اپنی پالیسیوں اور پلاننگ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔