پنجاب کا ضلع قصور پچھلے چند دنوں سے ایک بار پھر ملکی اور بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ قصور پچھلے سال اس وقت عالمی خبروں کا مرکزبنا تھا جب جنوری میں آٹھ سالہ معصوم بچی زینب انصاری کواغواء اور جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیاگیا تھا۔ حالیہ واقعات قصور کی تحصیل چونیاں میں وقوع پزیر ہوئے ہیں جہاں چند روز قبل ایک ویرانے سے ایک کمسن بچے فیضان کی لاش اور دو دیگر بچوںکی باقیات ملی تھیں۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق فیضان نامی کمسن بچے کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا جب کہ باقی دو کے بارے میں بھی یہی قیاس ہے۔ ان تازہ واقعات کے بعد پنجاب پولیس جو پہلے ہی سے بعض دیگر واقعات کے باعث دبائو میں ہے کو ایک بار پھر سخت صورتحال کا سامنا ہے، علاقے میں غیر یقینی کی فضا قائم ہے اور پولیس پر ان تین کم سن اور بے گناہ بچوں کے قاتلوں کی فوری گرفتار ی کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پولیس ایک مرتبہ پھر اسی حکمتِ عملی پر کام کر رہی ہے جس کے ذریعے زینب کے قاتل عمران کو گرفتار کر کے تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔ علاقے کے بالغ مردوں کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے جا رہے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس طرح اس شخص تک پہنچا جا سکے گا جس کے نمونے بچے کی لاش پر پائے گئے ہیں۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ عمران کی گرفتاری کے بعد چونکہ یہ طریقہ کار نیا نہیں رہا لہٰذا اگر مبینہ قاتل اس بات کا اندازہ لگا لے کہ اس کی گرفتاری ڈی این اے کے ذریعے عمل میں لائی جا سکتی ہے اور علاقے سے فرار ہو جائے تو اس صورتحال میں یہ حکمتِ عملی کتنی کارگر ثابت ہو گی اس سوال کا تشفی جواب فی الحال کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ اسی طرح یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ زینب کے قاتل کی گرفتاری اور پھانسی کے بعد ایک سال کے اندر اندر اسی نوع کے واقعات کا دوبارہ رونما ہونا کیا ہماری پولیس کی ناقص کارکردگی اور اجتماعی بے حسی نیز معاشرتی زوال کی واضح نشانی نہیں ہے۔
فیضان کی والدہ نے پولیس اور اعلی حکام سے شکوہ کیا کہ اگر پولیس پہلے دن سے اپنا کام درست انداز میں کرتی تو ان کے بچے کو بچایاجا سکتا تھا۔ واضح رہے کہ پنجاب حکومت نے ان واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ ٹیم تشکیل دی ہے جس میں پولیس کے علاوہ انٹیلی جنس بیورو اور محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے افسران بھی شامل ہیں۔ ایک پریشان کن امر یہ ہے کہ زینب قتل کیس کے برعکس حالیہ واقعات میں پولیس کے پاس سی سی ٹی وی فوٹیج وغیرہ نہیں ہیں کیونکہ یہ واقعات چونیاں کے نیم شہری علاقے میں رونما ہوئے ہیں جہاں سی سی ٹی وی کیمرے نصب نہیں ہیں تاہم پولیس کا دعویٰ ہے کہ بچوں کے حوالے سے دستیاب دیگر معلومات ان کی رہنمائی کر سکتی ہیں۔ ان بچوں کے بارے میں حاصل شدہ معلومات کے مطابق ان کی عمریں سات سے دس برس کے درمیان تھیں۔ یہ عام دیہاتی بچے تھے جو چھوٹی موٹی محنت مزدوری کرکے اپنے غریب ماں باپ کا ہاتھ بٹھاتے تھے۔ ان معلومات سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ان بچوں کو اغوا کرنے والا شخص یا اشخاص ان کے لیے نئے نہیں تھے کیونکہ اس طرح کے بچے عموماً کسی اجنبی کے ساتھ نہیں جاتے۔ سو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ملزم ان بچوں کا جاننے والا تھا جس سے پولیس کے لیے مطلوبہ ملزمان پر ہاتھ ڈالنا نسبتاً آسان ہوگا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس اب تک پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی مدد سے دوسو سے زائد افراد کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کر چکی ہے جب کہ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مطلوبہ نمونہ مل نہ جائے۔
پولیس مذکورہ علاقے کی حد بندی کرنے کے بعد اس کو چھوٹے چھوٹے وارڈوں میں تقسیم کر کے ووٹروں لسٹوں کی بنیاد پر گھر گھر جا کر لوگوں کی نشاندہی کے ذریعے ملزمان تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس عمل سے پولیس کو یہ معلوم ہو پائے گا کہ اس علاقے میں کتنے بالغ مرد موجود ہیں اور ان میں کتنے لوگ ڈی این اے کے نمونے دینے کے لیے نہیں آئے۔ پولیس کے مطابق جو نمونہ دینے نہیں آیا وہ مشکوک ہو جائے گا اور ہم اس تک پہنچ سکتے ہیں۔ پولیس کے بقول اگر ووٹر لسٹوں سے بھی اسے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے تو وہ مردم شماری کی فہرستیں حاصل کرکے اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ملزم ڈی این اے کے نمونے دینے سے بھاگنے نہ پائے جو بھاگے ہوں گے ان پر زیادہ آسانی سے کام ہو سکتاہے۔ اسی طرح پولیس نے علاقے میں جیو فینسنگ بھی کر رکھی ہے۔ اس طریقہ کار کے ذریعے موبائل فون کے ریکارڈ کی مدد سے کسی شخص کی لوکیشن کا پتا چلایا جا سکتا ہے۔ اس طرح اگر کوئی نمبر علاقے کے باہر سے بھی ہے تو اس کا پتا چل سکتا ہے۔ تفتیشی ماہرین کے مطابق جہاں سے بچوں کی لاشیں ملی ہیں وہ ایک ویرانہ ہے اگر وہاں سے کسی ایسے فون نمبر کا پتا چلتا ہے جسے وہاں کال موصول ہوئی تھی یا میسیج آیا تھا تو وہ تحقیقات کے دائرے میں آ سکتا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس اس کیس کے حوالے سے اگر زیادہ معلومات نہیں ہیں تو کم از کم وہ مکمل اندھیرے میں بھی نہیں ہے لہٰذا توقع کی جاسکتی ہے کہ پولیس ان تین معصوم بچوں کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچا کر اپنے دامن پر لگنے والے نااہلی کے داغ دھونے کے اس سنہری موقعے کو ضائع نہیں ہونے دے گی۔