کوٹا سسٹم

242

 پاکستان کو اس حال میں پہنچانے کے ذمے دار پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ہیں۔ آج سے تقریباً 46 سال پہلے جو جو بھی سیاسی پارٹیاں پاکستان میں موجود تھیں اور عوام نے ان کو اپنی رائے کے ذریعے پارلیمنٹ میں بھیجا تھا وہ تمام کی تمام اس کار بد میں شامل رہی تھیں اور تاحال ہیں۔ 1973 میں جس آئین کو منظور کیا گیا تھا اس میں کوئی ایک رکن پارلیمنٹ بھی ایسا نہیں تھا جو ایسا رہا ہو جس نے آئین کے مسودے پر دستخط نہ کیے ہوں۔ یہ بھی نہیں کہ اس وقت کی پارلیمنٹ نے اپوزیشن کی جانب سے دی جانے والی تجاویز کو یکسر ماننے سے انکار کردیا ہو۔ حزب اختلاف کی جانب سے دی جانے والی کئی تجاویز اس وقت کی پارلیمنٹ نے مانیں اور آئینی مسودے میں رد و بدل بھی کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسی انوکھی مثال اس کے بعد کبھی دیکھنے میں نہیں آئی جس میں آئین کی کوئی ایک ترمیم بھی ایسی ہوئی ہو جو متفق علیہ ہو۔ آئین و قانون کے مطابق ترامیم تو مسلسل آتی رہیں، پارلیمنٹ ان کی منظوری بھی دیتی رہی، آئینی طریقہ کار کے مطابق کسی بھی ترمیم کی منظوری کے لیے جتنی تائید درکار ہو تی ہے وہ بھی حاصل ہوتی رہی لیکن اختلاف رائے اپنی جگہ سامنے آتا رہا۔ اسی آئینِ پاکستان نے ایک عجیب و غریب قانون بھی منظور کیا جس کو ’’کوٹا سسٹم‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہی وہ سسٹم ہے جس نے پاکستان کو آج تباہی کے اس دہانے پر پہنچا دیا ہے جہاں ایک معمولی سا دھکا بھی اسے ایسی گہرائی میں دھکیل سکتا ہے جہاں سوائے تاریکیوں کے اور کچھ بھی نہیں۔
اس سسٹم کی بدولت ہوا یہ کہ جاہلوں کو عاقلوں پر برتری حاصل ہو گئی جس نے دو طرفہ تبا ہی مچا کر رکھ دی۔ جو جس پوسٹ کا اہل تھا وہ وہاں نہ پہنچ سکا اور جو اہل ہی نہیں تھا وہ وہاں متمکن ہو گیا۔ جو کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا اس کی زندگی داؤ پر لگ گئی اور جو صلاحیت ہی نہیں رکھتا تھا اس نے محکمے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ اس بات کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں بلکہ اس سسٹم کو نافذ کیے جانے سے پہلے کے پاکستان کے سارے محکموں کی کارکردگی سامنے رکھ لیں اور آج کے دن کا جائزہ لے لیں تو خود اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ ہم اس وقت کے پاکستان میں کہاں تھے اور اب کہاں کھڑے ہیں۔ مزید یہ کہ اس سلسلے میں موجودہ حکومت سے اچھی مثال دی ہی نہیں جاسکتی جسے پاکستان کو چلانے کے لیے پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستانیوں کو بلا کر پاکستان چلانے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارے پاکستانی جن کو اب بلا کر پاکستان چلانے کی دعوت دی جارہی ہے وہ پاکستان سے باہر کیوں گئے؟۔ جب بھی اس بات کا جائزہ لیا جائے گا اس میں اسی کوٹا سسٹم کا آسیب چھپا ہوا نظر آئے گا۔
پاکستان، جو بنا تو اللہ اور اس کے رسول کے بنائے اور لائے ہوئے نظام کو نافذ کرنے کے لیے تھا، وہاں جب اس نظام کو پس پشت ڈال کر اپنی عقل و فہم کے مطابق تراشیدہ قانون کو چلانے کا جرم کرنا ضروری خیال کیا گیا تو پھر ایسا تو ہونا ہی تھا۔ کیا لاکھوں انسانی جانوں کی روحوں اور ان کے کروڑوں لواحقین کی بددعائیں، آہیں اور سسکیاں یونہی رائیگاں جانی تھیں۔ اپنی عقل و فہم کے نتیجے تو سامنے آ ہی رہے ہیں ساتھ ہی ساتھ اس پر کسی بھی دور میں نظر ثانی نہ کرنا اور کسی بھی پارلیمنٹ میں اس کے خلاف نہ تو کوئی آواز بلند ہونا اور نہ ہی کسی ترمیم کو پیش کرنا ان سب جرائم سے کہیں بڑھ کر جرم تھا اور ہے جس کی لعنت اگر سیاسی پارٹیوں اور حکومتوں کو نہیں پڑتیں تو یہ اور بھی ظلم کی بات ہوتی۔ ابلیس اور آدم ؑمیں یہی تو فرق تھا اور ہے کہ ابلیس غلطی کرکے اکڑ گیا اور آدمؑ معافی کے طلب گار بنے۔ جب ساری سیاسی جماعتوں کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ کوٹا سسٹم ایک ظالمانہ قانون ہے تو اس کے بعد تا حال اس کے خاتمے کا سوچنا تک گناہ تصور کرتے رہنا ابلیسیت نہیں تو کیا ہے؟۔ کوٹا سسٹم کیا ہے اس کو سمجھانے کے لیے میں ایک چھوٹی سی کہانی قارئین کی خدمت میں رکھنا چاہوںگا۔
ایک جنگل میں بلی اور شیر کا آمنا سامنا ہوگیا، کافی دیر تک وہ ایک دوسرے کو گھورتے رہے۔ آخر کار شیر کہنے لگا، لگتی تو تو اپنے ہی خاندان کی ہے پر اتنی ’’منی‘‘ سی کیوں ہے؟۔ بلی کو کچھ حوصلہ ہوا تو کہنے لگی، ادب سے بات کر، میں رشتے میں تیری خالہ ہوں۔ دراصل میرا مالک بہت ظالم ہے، رات دن مجھے ڈنڈوں سے مارتا ہے اور کئی کئی دن کھانے پینے کو نہیں دیتا ہے اس لیے میرا یہ حال ہو گیا ہے۔ شیر کو بلی کی روداد سن کر بہت غصہ آیا۔ کون ہے تیرا مالک۔ شیر دہاڑتے ہوئے بولا۔ اتنے میں کوئی غریب لکڑہارا سر پر لکڑیوں کا گٹھرلادے چلا آرہا تھا، بلی نے اس کی جانب اشارہ کرکے کہا وہ آرہا ہے اور خود درخت پر چڑھ گئی۔ شیر نے لکڑہارے کا راستہ روک لیا اور کہا کہ تو میری خالہ پر ظلم کرتا ہے، جانتا نہیں میں جنگل کا بادشاہ ہوں۔ تو پھر۔ لکڑہارے نے جواب دیا۔ میں تجھے اس ظلم کی سزا دوں گا۔ شیر نے کہا۔ تم جنگل کے بادشاہ ہو؟۔ اچھا، لکڑہارے نے کہا، ذرا میں یہ لکڑیاں چھوڑآوں پھر دیکھتا ہوں تم میرا کیا بگاڑ تے ہو۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ جاؤ، میں ادھر ہی ہوں، شیر نے کہا۔ لکڑہارا تھوڑا سا آگے بڑھا مگر پھر پلٹ آیا اور کہنے لگا مجھے تم پر اعتبار نہیں، کیوں نہ میں تمہیں درخت کے ساتھ باندھ دوں۔ واپس آکر مقابلہ کروں گا۔ شیر بھرے میں آگیا، اس نے کہا ٹھیک ہے۔ لکڑہارے نے لکڑیاں ایک طرف پھینکیں اور شیر کو درخت کے ساتھ اچھی طرح باندھ دیا۔ پھر ایک اچھی سی لکڑی منتخب کی۔ اس کے بعد جو شیر کی پٹائی شروع کی تو، الاماں الحفیظ، شیر بے ہوش ہوجاتا تو وہ بھی سانس لیتا۔ نہ کچھ کھانے کو دیتا نہ پینے کو،شیر کے ہوش میں آنے پر پھر اس کی پٹائی کرتا۔ صبح سے شام ہوگئی اور مار پیٹ کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ رات کو جب شیر کو دوبارہ ہوش آیا تو مارے نقاہت اور بھوک پیاس، اس کا برا حال تھا۔ بدقت تمام اس نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ بلی سامنے کھڑی ہے۔ شیر نے اسے دیکھا تو اس سے کہنے لگا۔ لگتا ہے جب تک تیرا مالک مجھے تیرے جیسا ’’منا‘‘ نہیں کر دے گا مجھے چھوڑے گا نہیں۔
لگتا ہے کہ جب تک موجودہ حکومت بھی پاکستان کی شکل و صورت اپنی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے مطابق نہیں ڈھال لے گی۔ اسلام کی تشریح اپنی سوچوں کے مطابق نہیں کر لے گی۔ پاکستان کے عوام (شیروں) کو خالاؤں کے برابر کرکے نہیں رکھ دے گی اس وقت تک ہر قسم کا ظلم و جبر جاری رکھا جائے گا۔ مہنگائی کے بم گرتے رہیں گے، دین و مذہب کو بگاڑا جاتا رہے گا۔ دینی مدارس کے خلاف سازشیں ہوتی رہیں گی۔ علما کے خلاف گھیرا تنگ کیا جاتا رہے گا۔ اسکولوں کا نصاب کافرانہ انداز میں بدلا جاتا رہے گا۔ ٹیکسوں کی بارش ہوتی رہے گی۔ روپے کو کاغذ کے پرزوں میں تبدیل کیا جاتا رہے گا۔ ملک کو قادیانیت کا مرکز بنا کر رکھ دیا جائے گا اور شیر دل عوام کو آخرِ کار خالہ بلی بنا کر رکھ دیا جائے گا۔ باالفاظ دیگر جس کوٹا سسٹم کو 1973 میں نافذ کیا گیا تھا اس کی تکمیل 2023 تک لازماً ہو جائے گی۔