شاہنواز فاروقی
دنیا میں ایسی بہت سی جماعتیں، تنظیمیں، گروہ اور قومیں موجود رہی ہیں اور موجود ہیں جن کو حزب الشیطان کہا جاسکتا ہے مگر اس عنوان پر جیسا حق ایم کیو ایم کا ہے ایسا حق شاید ہی کسی کا ہو۔
دنیا میں ہر تنظیم، ہر گروہ، ہر جماعت کو اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے محبت ہوتی ہے۔ مگر الطاف حسین اور ان کی ایم کیو ایم نے مہاجروں کو ان کے مذہب سے دور کیا۔ ان کی تہذیب سے کاٹا اور ان کی تاریخ سے دور کیا۔ مہاجر مذہب میں ڈوبے ہوئے تھے، الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے انہیں ہر معنی میں سیکولر بنانے کی سازش کی۔ مہاجروں کی تہذیب کا مرکزی حوالہ علم اور نیکی تھا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے انہیں جاہل اور بدمعاش بنانے کی شعوری کوشش کی۔ مہاجروں کی تاریخ یہ تھی کہ پاکستان پنجاب یا سندھ، سرحد بلوچستان اور بنگال میں بن رہا تھا مگر وہ دہلی، یوپی اور سی پی میں قیام پاکستان کی جدوجہد کررہے تھے۔ الطاف حسین اور ان کی ایم کیو ایم نے مہاجروں کو بتایا کہ انسان کی اصل چیز چار پیسے کا مفاد ہے۔ اس کے لیے خدا سے بغاوت کرنی پڑے تو کرنی چاہیے، مذہب سے تعلق توڑنا پڑے تو توڑ لینا چاہیے، لاشیں گرانی پڑیں تو گرا دینی چاہییں، خون بہانا پڑے تو بہا دینا چاہیے۔
تاریخ ہے کہ تنظیمیں اور جماعتیں ماضی کو بھول جاتی ہیں مگر حال اور مستقبل کو یاد رکھتی ہیں۔ مگر ایم کیو ایم نے مہاجروں کو ان کے ماضی سے بھی کاٹ دیا۔ حال سے بھی محروم کردیا اور مستقبل سے بھی لاتعلق کردیا۔ اب نہ مہاجروں کا کوئی ماضی ہے، نہ حال اور نہ مستقبل۔
تنظیموں اور جماعتوں کی تاریخ یہ ہے کہ کوئی تنظیم اور جماعت پچاس فی صد کامیاب ہوئی ہے کوئی ساٹھ فی صد۔ چناں چہ اس کے متاثرین کے حصے میں کہیں 50 فی صد کامیابی آتی ہے کہیں 60 فی صد۔ ایم کیو ایم کی ہولناکی یہ ہے کہ اس نے 100 فی صد کامیاب ہونے کے باوجود اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کو 100 فی صد ناکامی سے دوچار کیا۔ ایم کیو ایم نے بلدیاتی، صوبائی اور وفاقی سطح پر ہمیشہ سو فی صد انتخابی کامیابی حاصل کی مگر مہاجروں کے ہاتھ اس طرح خالی ہیں جس طرح وہ ایم کیو ایم سے پہلے خالی تھے۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے سیکڑوں رہنما لکھ پتی، کروڑ پتی اور ارب پتی ہوگئے مگر عام مہاجروں کو کبھی لاکھ کیا ہزار کا بھی فائدہ نہ ہوسکا، بلکہ ایم کیو ایم کی سیاست نے مہاجروں کو پورے ملک سے کاٹ کے رکھ دیا۔
چنگیز خان کو تاریخ میں خون آشام رہنما کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ جس علاقے کو تاراج کرتا تھا وہاں کھوپڑیوں کے مینار بنا دیتا تھا۔ ہٹلر پر الزام ہے کہ اس نے 60 لاکھ یہودیوں کو قتل کرایا۔ بلاشبہ چنگیز خان اور ہٹلر بدترین انسان تھے مگر چنگیز خان منگول تھا اور اس نے کبھی منگولوں کو قتل نہیں کرایا۔ ہٹلر جرمن تھا اور اس نے کبھی جرمنوں کو نہیں مارا۔ الطاف حسین مہاجر ہے مگر اس نے کراچی میں جماعت اسلامی کے مہاجروں کو قتل کرایا، پیپلز پارٹی کے مہاجروں کو مارا، ایم کیو ایم حقیقی کے مہاجروں کی لاشیں گرائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ الطاف حسین مخصوص معنوں میں چنگیز خان اور ہٹلر سے بھی بدتر ہے۔ لسانی سیاست ایک طرح کی قبائلی سیاست ہے۔ قبائلی سیاست میں قبیلے کے لوگوں سے زیادہ اہم کوئی نہیں ہوتا۔ چنگیز خان اور ہٹلر کے لیے بھی ان کے قبیلے کے لوگ اہم تھے مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے قتل و غارت گری میں قبیلے کے لوگوں کا بھی خیال نہ رکھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی نام نہاد اور شرمناک ’’لسانیت‘‘ اور ’’قبائلیت‘‘ بھی جھوٹی ہے۔ سلیم احمد کی ایک دو مصروں کی نظم ہے۔
روٹی پر کتّے لڑتے ہیں
میں روٹی کے حق پر لڑتا ہوں
دو مصرعوں کی اس نظم کا مفہوم یہ ہے کہ روٹی پر لڑنا کتوں کی نشانی ہے۔ خواہ وہ کتّا مہاجر ہو یا پنجابی، سندھی ہو پشتون، بلوچی ہو یا سرائیکی مگر کتوں میں بھی اہلیت ہوتی ہے کہ وہ ’’ٹھوس روٹی‘‘ پر لڑتے ہیں مگر انسان اس لیے کتوں سے گئے گزرے بن جاتے ہیں کہ وہ ٹھوس روٹی کے بجائے صرف روٹی کے حق پر لڑتے ہیں۔ روٹی کا حق محض ایک ’’تصور‘‘ ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ اس تصور کے لیے لڑیں تو ٹھوس روٹی ضرور ہاتھ آجائے۔
الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے کہا کہ وہ کوٹا سسٹم ختم کرائیں گے، مہاجروں کو ملازمتیں دلائیں گے، مزید رزق مہیا کریں گے۔ مگر 35 سال میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے عام مہاجروں کو ایک ملازمت کیا ایک اضافی روٹی بھی مہیا نہیں کی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے ایک تصور کے لیے مہاجروں اور کراچی و حیدر آباد کو برباد کردیا۔ یہاں تک کہ اب تو برسوں سے الطاف حسین اور ایم کیو ایم روٹی کے تصور یا کوٹا سسٹم کا نام بھی نہیں لیتے۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کہا کرتے تھے کہ وہ بنگلادیش میں پھنسے ہوئے بہاریوں کو واپس لائیں گے مگر اب تو ایم کیو ایم کو پھنسے ہوئے مظلوم بہاری یاد بھی نہیں آتے۔ یعنی ایم کیو ایم نے اپنی دوسری بنیاد پر خود ہی تھوک دیا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم ’’مہاجر کلچر‘‘ کو زندہ کرنے کا نعرہ بھی لگایا کرتے تھے۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے جو مہاجر کلچر پیدا کیا اس کی ایک شاخ بوری بند لاشوں کا کلچر تھا، دوسری شاخ بھتا خوری کلچر کہلائی، تیسری شاخ ندیم کانا اور ذیشان لنگڑا بن کر سامنے آئی۔ یعنی الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے بھیڑ کو بھیڑیا بنادیا۔ انسانی تاریخ میں کلچر کی اس سے زیادہ خدمت شاید ہی کبھی ہوئی ہو۔
ایم کیو ایم کی دہشت گردی اور بھتا خوری کا ذکر ہوتا ہے مگر لوگوں کو اندازہ نہیں کہ ان دونوں کی سطح کیا تھی۔ سندھ رینجرز کے سربراہ میجر جنرل محمد سعید نے اے آر وائی کو انٹرویو میں بتایا کہ کراچی میں گزشتہ 35 سال کے دوران 92 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ یہ انسانوں کی اتنی بڑی تعداد ہے کہ اتنے لوگ تو بڑی بڑی جنگوں میں بھی ہلاک نہیں ہوئے۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سفاکی کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ایم کیو ایم نے بلدیہ کی فیکٹری کے مالک سے 50 کروڑ روپے بھتا طلب کیا۔ بھتا نہ ملنے پر پوری فیکٹری کو آگ لگادی اور 259 لوگوں کو زندہ جلادیا۔ اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم کے رہنما 259 لوگوں کو زندہ جلتے ہوئے دیکھتے رہے۔ یہ سفاکی کچھ کم نہ تھی مگر اس سے آگے کا قصہ بھی سامنے آگیا۔ اطلاعات کے مطابق سندھ کے سابق گورنر عشرت العباد نے فیکٹری کے مالک سے کہا کہ وہ انہیں 25 کروڑ روپے دے تاکہ ایم کیو ایم اپنے پلٹ فارم سے زندہ جل جانے والے لوگوں کے متعلقین کو رقم دے سکے۔ فیکٹری مالک کے بیان کے مطابق اس نے ایک بڑی رقم ایم کیو ایم کو دی مگر ایم کیو ایم کے رہنما یہ رقم ہڑپ کرگئے اور انہوں نے زندہ جل جانے والے لوگوں کے لواحقین کو ایک پیسا بھی فراہم نہ کیا۔ کیا چنگیز خان نے منگولوں اور ہٹلر نے جرمنوں کے ساتھ کبھی اس طرح کا سلوک کیا؟
آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ نے ایک اہم سیاسی رہنما کو بتایا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک دن جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں اپنے دفتر کے ساتھیوں سے ملنے گئے تو انہیں بتایا گیا کہ الطاف حسین نے جنرل پرویز سے کہا ہے کہ انہیں کہیں سے 7 ارب روپے مہیا کیے جائیں، ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ آئی ایس آئی کے مذکورہ بالا سابق سربراہ کچھ دن کے بعد دوبارہ دوستوں سے ملنے کے لیے گئے تو انہوں نے ازراہ تجسس پوچھا کہ الطاف حسین کے 7 ارب روپے کے مطالبے کا کیا ہوا؟ انہیں بتایا گیا کہ یہ رقم کہیں سے ’’Arrange‘‘ کرکے الطاف حسین کو مہیا کردی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تاجر، صنعت کار اور عام افراد ہی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو بھتانہیں دے رہے تھے بلکہ ریاست بھی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو بھتا دے رہی تھی۔ یہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی بھتا خوری کی بلند ترین سطح تھی۔ ان کی بھتا خوری کی پست ترین سطح خود ہمارے مشاہدے میں آئی۔ چودہ پندرہ برس پہلے کی بات ہے،
باقی صفحہ7نمبر1
ہمیں ایک دن دفتر جانے میں تاخیر ہوئی تو ہم نے ٹیکسی کے ذریعے دفتر جانے کا فیصلہ کیا۔ علاقے میں ایسے کئی ٹیکسی والے تھے جو ہمیں جانتے تھے۔ ان میں سے ایک ٹیکسی والا ہمیں کئی بار دفتر لے جاچکا تھا۔ اس کی ٹیکسی ہمارے علاقے کے ایک مخصوص درخت کے نیچے کھڑی ہوتی تھی۔ ہم وہاں پہنچے تو وہاں کوئی بھی ٹیکسی موجود نہ تھی۔ ہم نے اِدھر اُدھر ٹیکسی کی تلاش میں نظریں دوڑائیں تو سامنے سے آواز آئی۔ ’’سرمیں یہاں کھڑا ہوں‘‘ ہم نے آواز کی طرف دیکھا تو شناسا ٹیکسی والے کو وہاں کھڑا پایا۔ ہم نے اس کی ٹیکسی میں بیٹھتے ہی اس سے پوچھا کہ تم آج درخت کے سائے میں کیوں نہیں کھڑے؟ کہنے لگا بھائی لوگوں نے بھتے کی رقم بڑھادی ہے۔ پہلے وہ مجھ سے پانچ سو روپے ماہانہ لیتے تھے اب انہوں نے ایک ہزار روپے ماہانہ کا مطالبہ کردیا۔ ہم رات دن محنت کرتے ہیں تو ڈیڑھ دو دن میں ایک ہزار روپے کما پاتے ہیں۔ چناں چہ ہم ایم کیو ایم کو ایک ہزار روپے دینے لگیں گے تو کھائیں گے کیا؟ اس دن ہمیں پہلی بار معلوم ہوا کہ ایم کیو ایم ٹیکسی والوں اور رکشے والوں سے بھی بھتا لیتی ہے۔
دنیا میں آج تک کوئی ایسی تنظیم نہیں آئی جو اپنے شہر کی بلدیہ پر قابض ہونے کے باوجود نہ شہر سے کچرا اٹھاتی ہے، نہ شہر کو پانی مہیا کرتی ہے، نہ شہر کے گٹر رواں رکھتی ہے۔ بلکہ اس کے برعکس وہ پتھر اور لحاف ڈال کر گٹر لائنوں کو بند کرکے گٹروں کے ابلنے کا ’’اہتمام‘‘ کرتی ہے۔ چنگیز خان کے زمانے میں تو خیر گٹر لائین ہی نہیں تھیں مگر ہٹلر کو کبھی یہ خیال نہ آیا کہ یہودیوں کو تکلیف دینے کے لیے ان کے علاقوں کو کچرے سے بھرا اور ان کے علاقے کی گٹر لائینوں کو پتھر اور لحاف ڈال کر بند کیا جاسکتا ہے۔ مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی ’’Creativity‘‘ بے مثال ہے۔ آخر ایم کیو ایم حزب الشیطان ہے کوئی مذاق تھوڑی ہے۔