ایوان اور پیغام اقبال کا ایک ہی حال

235

ستمبر میں ایک شادی کے سلسلے میں سیالکوٹ جانا ہوا۔ شادی بھی جورو کے بھائی کی بیٹی کی تھی اور بیٹی بھی آخری یعنی وہ تمام بیٹیاں بیاہ چکے ہیں۔ اب کس میں ہمت ہے کہ اس شادی میں شرکت سے انکار کرے۔ سارے گھر والوں کو ساتھ لیا اور ٹرین کے ذریعے لاہور روانہ ہو گئے۔ ڈرتے ڈرتے ٹرین کا سفر کیا کہ یہ تاخیر کا بھی شکار ہوتی ہیں اور ان میں گندگی بھی بہت ہوتی ہے۔ بہر حال ٹرینوں کا حال وہی تھا جو شیخ رشید کے پہلے دور میں تھا اور مسلم لیگ کے سعد رفیق اور پھر شیخ رشید کے دور میں ہے۔ وزیروں اور حکمرانوں کے بدلنے سے ریلوے نہیں بدلتی۔ لاہور سے بذریعہ کار سیالکوٹ پہنچے۔ جہاں کینٹ کے میس میں رہائش کا انتظام تھا۔ لیکن کنٹونمنٹ میں داخل ہوتے ہی کراچی یاد آ گیا۔ رات ہونے والی بارش کے بعد مرکزی شاہراہ پر ڈیڑھ کلو میٹر تک کئی فٹ پانی کھڑا ہوا تھا۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ خوشی کا اظہار کریں یا افسوس… کہ سیالکوٹ میں بھی یہی حالات ہیں۔ دو تین روز تو شادی کی تقریبات میں مصروف رہے لیکن سر پر دھن سوار تھی کہ بچوں کو مفکر پاکستان شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کی جائے پیدائش اور ان کی رہائش گاہ ایوان اقبال ضرور لے جائیں۔
۲۲ ستمبر کو بچوں کو بمشکل راضی کیا کہ ایوان اقبال چلنا ضروری ہے بالآخر کامیابی ہوئی اس میں بھائی محمد لطیف (جامعہ کراچی ۸۳؍۱۹۷۹) کا بڑا ہاتھ تھا وہ صبح ہی کینٹ کی میس میں آ دھمکے اور حکم جاری کیا کہ تیار ہوجاؤ۔ بچوں پر یہ حربہ کارگر ہوا سب ۱۱ بجے تک پہنچ گئے، حسب توقع بہت کم لوگ تھے ایوان اقبال کے منتظم ریاض صاحب نے کمال کیا، دیکھتے ہی پہچان لیا ہم نے بڑے فخر سے گھر والوں کو بتایا اور ایوان اقبال دیکھنے میں مصروف ہوگئے دوران گفتگو ریاض صاحب سے پتا چلا کہ ہمارا تعارف بھی لطیف بھائی نے تازہ کرایا ہے لیکن ریاض صاحب کو آٹھ برس قبل کی باتیں یاد تھیں اور وہ بتانے لگے کہ پچھلی مرتبہ جب آپ آئے تھے تو علامہ کے ہاتھ سے لکھے یہ دو کتبے نہیں تھے جو اب نصب تھے، انہوں نے بتایا کہ فرش کا اصلی لال رنگ لوگوں کے پاؤں کی رگڑ سے غائب ہو رہا تھا اس کا حل یہ نکالا گیا کہ لوہے کی ریلنگ اور پائدان لگا دیے گئے ہیں۔ ریاض صاحب کی گفتگو سے یہ تاثر ملا کہ وہ اصل فرش پر کوئی کام نہیں کروانا چاہتے تھے لیکن ہم لوگوں کے چلنے کے انداز اور بد تمیزی کی وجہ سے اسے قبول کرلیا، اب تو ایسا لگتا ہے کہ ایوان اقبال کے نوادرات میں ریاض صاحب بھی شامل ہیں بلکہ لازم ہیں، لیکن جتنا خیال حکومت ایوان اقبال کا رکھتی ہے اس سے کہیں زیادہ بلکہ سیکڑوں گنا زیادہ ریاض صاحب خیال رکھتے ہیں، بدقسمتی یہ ہے کہ حکمران طبقے کو (بلا استثنیٰ) ایوان اقبال کی اہمیت ہی کا اندازہ نہیں، اس میں پی ٹی آئی کی حکومت نہیں عوامی پیپلز پارٹی اور نظریاتی مسلم لیگ اور مارشل لا سب ایک صف میں ہیں، پورے ایوان کا حال برا ہے، اس عمارت کو ایک سو دس سال ہونے کو ہیں، جتنے لوگ اب روزانہ یہاں آتے ہیں، اتنی تعداد میں تو تعمیر کے وقت عمارت میں شاید ہی کسی روز شادی غمی میں آگئے ہوں ورنہ ایسا ممکن نہیں، اور آج اس عمارت کی دیکھ بھال کا بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے، اب تو حکومت میں علامہ کا پوتا موجود ہے لیکن پوتا ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے، دادا کے تاریخی ورثے سے انہیں کیا مل رہا ہے، ایوان اقبال دیکھ کر جو تاثر ذہن میں راسخ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے ایوان اقبال کا وہی حال کیا ہے جو پیغام اقبال کا کیا ہے، نہ ایوان سالم ہے نہ پیغام،
دو روز قبل کی بارش سے مہمان خانے کی بالکونی میں پانی آگیا تھا ریاض صاحب دروازہ کھول کر ٹھٹھک گئے لیکن اتنی دیر میں ہم داخل ہو چکے تھے کائی جمی ہوئی تھی ریاض صاحب نے فوراً صفائی والے کو بلوایا صفائی بھی ہو گئی لیکن ریاض صاحب چھت کی وہ درز تو ٹھیک نہیں کرسکتے تھے جس میں سے پانی اندر آتا ہے، یہ کام تو پیسے سے ہوگا اور حکومت وہ نہیں نکالتی کم از کم اپنے خزانے سے تو نکالتی ہی نہیں، سیاسی مخالفین کے گھروں تجوریوں اور ان کے چمچوں کے گھروں سے ضرور نکال رہی ہے۔ پورے ملک میں ہر کوئی اختیارات اور فنڈزکی کمی کا رونا رو رہا ہے۔ ایوان اقبال اور پیغام اقبال کا مقام تو یہ ہے حکمراں ان پر بڑے فنڈز خرچ کریں۔ ایوان اقبال کے اردگرد کئی پلاٹ خریدکر وسیع علاقہ اس مقصد کے لیے استعمال کریں۔ ایوان اقبال کو با قاعدہ قومی ورثہ قرار دیا جائے۔ اسے میوزیم کے طور پر ترقی دی جائے اور یہاں ایک نہیں کئی گائڈ مقرر کیے جائیں جو اردو، فارسی اور انگریزی میں اقبال کے پیغام سے یہاں آنے والوں کو متعارف کرائیں۔ خدشہ یہ ہے کہ جب کبھی ایسا ہوگیا یہاں وسیع علاقے پر میوزیم بن گیا تو حکومت اس پر ٹکٹ لگا دے گی۔ لیکن پھر بھی کوئی ہرج نہیں اس قومی ورثے اور پیغام کو سنبھالنا تو ہے۔