ملک کی اہم کاروباری شخصیات کے ایک وفد نے وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے الگ الگ ملاقاتیں کر کے معاشی حالات پر اپنی بے چینی اور اضطراب کا اظہار کیا ہے۔ وفد نے آرمی چیف کو بتایا کہ ملک میں معاشی جمود طاری ہے مسائل حل ہورہے ہیں نہ فیصلوں پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ آرمی چیف اور وزیر اعظم کے ساتھ بزنس لیڈرز نے جن شکایات اور تحفظات کا اظہار کیا ہے وہ جائز اور حقیقی ہیں کیونکہ ملکی معیشت کا پہیہ جہاں سال بھر پہلے رکا ہوا تھا وہیں کھڑا ہے اور موجودہ پالیسیوں کے ساتھ اس پہیے کے رواں ہونے کے آثار نظر نہیں آتے۔ کاروباری سرگرمیاں کسی ملک ومعاشرے میں خوش حالی اور بدحالی کا بیرومیٹر ہوتی ہیں۔ کاروباری مراکز پر رونق ہوں تو سمجھا جاتا ہے کہ عام آدمی کی معاشی زندگی بہتر ہو گئی ہے اور یہ مراکز بے رونق اور اُداسی میں گھرے ہوں تو اس سے عام آدمی کی بدحال زندگی کا اشارہ سمجھا جاتا ہے۔ معیشت کے پھلنے پھولنے سے کاروبار کو فروغ ملتا ہے۔ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے معاشی بدحالی اور تنزلی کی راہ پر گامزن رہا ہے۔ اس کی معیشت مصنوعی تنفس پر چلتی رہی ہے۔ کسی دور میں مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تنفس کا نظام زیادہ بہتر کام دکھاتا رہا تو کبھی یہ مصنوعی عمل اپنی بہتر کارکردگی نہ دکھا سکا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آکسیجن ٹینٹ قومی معیشت کے مریض ِ جاں بہ لب کے اوپر سے ہٹا گیا ہو۔ موجودہ حکمران یہ دعویٰ تو کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے درپر رواں حاضری اور وہاں سے حاصل ہونے والا قرض اس سلسلے کی آخری کڑی تھی اس کے بعد کوئی بھی حکومت آئی ایم ایف کا دروازہ نہیں کھٹکھٹائے گی مگر زمینی حقائق اس دعوے کا ساتھ دینے نظر نہیں آتے۔
قومی معیشت جس تنزل کا شکار تھی اسی کے پیش نظر ملک کے دیوالیہ ہونے اور ان گورن ایبل ہونے کی باتیں بھی زباں زد خاص وعام رہی ہیں۔ موجودہ حکومت قائم ہوئی تو معیشت کے ساتھ ساتھ تدبیر اور منصوبہ بندی کا بحران بھی اپنی انتہا پر نظر آنے لگا۔ پی ٹی آئی نے اپوزیشن کے دنوں میں اسد عمر کو معیشت کا ایسا حکیم ثابت کیا تھا کہ جو اپنی جیب میں اس مریض کے شافی علاج کا نسخہ لیے پھرتا ہے اور جونہی یہ شخص خزانے کی وزارت کا انجارچ بنا تو معیشت راکٹ کی رفتار سے اوپر ہوتی چلی جائے گی۔ یہ تاثر قطعی مصنوعی ثابت ہوا اور اندازہ ہوا کہ ملک کا معاشی بحران اس قدر گہرا ہے کہ یہ کسی فرد واحد کے بس کا روگ نہیں بلکہ اس کے لیے اجتماعی دانش کی ضرورت ہے۔ ضرورت اور احساس پی ٹی آئی کے ’’حکیم ِ معیشت‘‘ اسد عمر کی فراغت کا باعث بنی اور ان کی جگہ عالمی اداروں سے ادھار حاصل کی گئی ایک ٹیم کے ذریعے اجتماعی دانش کا کام لیا جانے لگا۔ یہ بین الاقوامی معاشی اداروں کے روبوٹس تھے جن کا کام معاملات کو ’’مینج‘‘ کرنا تھا۔ عوام مطمئن رہیں یا بے چین انہیں اس سے غرض نہیں تھی۔ حکومت مقبول رہے یا غیر مقبول ہوجائے یہ بھی ان کا درد ِسر نہیں تھا۔ حکومت کی ناتجربہ کاری اور بے تدبیری اپنی جگہ مگر بیوروکریسی اور تاجر طبقے کا خوف اپنا ایک پس منظر رکھتا تھا۔ اجتماعی دانش کا ایک حل اقتصادیات کی بہتری کے لیے قائم کی جانے والی کونسل میں فوجی سربراہ کی شرکت بھی تھی۔ اس سے بھی یہ سمجھاجانے لگا تھا کہ فوج چونکہ ایک منظم ادارہ ہے جس میں دفاع ہی نہیں سیاست ومعیشت کے حوالے سے مستقل طور پر تحقیقی کام ہوتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ملک میں کئی اچھے اور نفع بخش ادارے چلانے کا تجربہ بھی رکھتی ہے تو یہ قدم ملکی معیشت کو بہتری کی راہ پر ڈالنے کا باعث بنے گا۔
ملک میں جب دوجماعتی نظام کی بنیاد پڑ رہی تھی تو پیپلزپارٹی کو جاگیرداروں کی نمائندہ جماعت سمجھا جاتا تھا۔ اس کے بانی کا تعلق چونکہ ایک بڑے زمیندار گھرانے سے تھا اس لیے پارٹی کو اسی طبقے کے حقوق کا محافظ سمجھا جاتا تھا۔ یہی وہ طاقت تھی جس نے ابتدا ہی میں ڈاکٹر مبشر حسن کی فلاسفی کو ناکام بنا دیا تھا۔ میاںنوازشریف کی صورت میں کاروباری گھرانہ متبادل کے طور پر اُبھرا تو کاروباری طبقے میں محرومیوں کے ازالے کی امید پیدا ہو گئی۔ اسی لیے شہری طبقات اس نئی سیاسی شمع کے پروانے بن گئے۔ اس دور میں تاجر دوست پالیسیاں اپنانے کی کوششیں ہوتی رہیں اور یہ طبقہ بھی مسلم لیگ ن کے ادوار میں اپنائیت محسوس کرتا رہا۔ پی ٹی آئی ایک تیسری طاقت بن کر منظر پر اُبھری جس پر نہ صنعت کاروں سے دوستی کی چھاپ اور نہ زمینداروں کی دوستی کا رنگ تھا۔ اس کا
پرجوش حامی طبقہ شہروں کے وہ نوجوان تھے جو نئے دور میں نئے نعروںکے رومانس میں مبتلا تھے۔ یہ نوجوان اس دور میں پل کر جوان ہوئے تھے جب دونوں جماعتیں باہم دست وگریبان رہتی تھیں۔ عمران خان نے نوجوانوں کو یہ باور کرایا کہ ملک کی خراب معاشی صورت حال کی ذمے داری ان دو جماعتوں پر عائد ہوتی ہے اور یہی جماعتیں ان کے دکھوں کی وجہ اور بنیاد ہیں اگر دوجماعتی نظام میں شگاف پڑ جائے تو نوجوانوں کی قسمت سنور سکتی ہے۔ اس صورت حال نے ان نوجوانوں کے رومانس کو مزید بڑھا دیا تھا۔ اس طرح پی ٹی آئی معیشت کے بجائے اپنے حامیوں کے رومانس کی اسیر رہی اور وہ معیشت سمیت ہر مسئلے کا حل ’’احتساب‘‘ میں سمجھتی رہی۔ احتساب حکومت کی گاڑی کا ایک پرزہ ہوتا ہے مگر یہ کبھی انجن کی جگہ نہیں لے سکتا۔ اسی لیے احتساب کی صورت گاڑی کی ہیڈ لائٹس تو جلتی رہیں مگر انجن کی سی اہمیت رکھنے والی مشین یعنی ملکی معیشت نے کام چھوڑ دیا۔ اب حال یہ ہے کہ کاروباری نمائندوں کو آرمی چیف سے ملاقات کرکے اپنے تحفظات کا اظہار کرنا شروع کیا۔ یہ تو اچھا ہو ا کہ دوسرے ہی روز ان نمائندوں نے وزیر اعظم سے بھی ملاقات کی وگرنہ نوے کی دہائی کا ایکشن سمجھنے والے بھی کم نہ تھے جب غیر مطمئن طبقات کے وفود پہلے پہل ایوان صدر کے چکر کاٹا کرتے تھے جب صدر سے یہ حکومت کی برطرفی کا اختیار 58/2B ختم ہوا تو ان وفود کی منزل جی ایچ کیو ہوتی تھی۔ حکومت کے لیے ایک خطرناک مرحلہ ہے۔ حکومت کو مزید وقت ضائع کیے بغیر اب معیشت کو بہتر بنانے کے ٹھوس اور فیصلہ کن اقدامات اُٹھانا ہوں گے۔