کراچی (اسٹاف رپورٹر)اعضاء ناکارہ ہونے والے مریضوں کی کسمپر سی اور حالت زار کو اُجاگرکرنے کے لئے سندھ انسٹیٹیو ٹ آف یورولوجی اینڈٹرانسپلانٹیشن(SIUT)میں ہفتے کو ایک تقریب کااہتمام کیا گیا۔ وہ مجبور افراد جن کے اعضاء ناکارہ ہوچکے ہیں اور ان کو عطیہ دینے والا کوئی نہیں ہے۔
تقریب کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ ذرائع ابلاغ اور معاشرے کے دوسرے اہم لوگوں کے ذریعے اس کی آگہی پیدا کی جائے اور بعد از مرگ عطیہ کے فروغ دینے کے پروگرام کو کامیاب بنایا جائے کیونکہ ان مریضوں کی جان بچانے کا واحد ذریعہ بعد ازمرگ عطیہ ہے،
ممتاز سر جن اور ڈائریکٹر ایس آئی یو ٹی پروفیسر ادیب رضوی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرے ادارے ایس آئی یو ٹی نے پاکستان میں گردوں کی پیوندکاری کی بنیادرکھی اور 1985ء میں گردے کاپہلا کامیاب ٹرانسپلانٹ انجام دیاتھا۔ انہوں نے معاشرے کے تمام افرادکو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ آگے آئیں اور ملک میں بعد ازمرگ اعضاء کے عطیہ کو فروغ دیں،
اعضاء کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہونے والی اموات کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ایک محتاط تخمینے کے مطابق پاکستان میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ افراد اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ یہ تعداد اس سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے،
تمام مکاتبِ فکر کے علماء اور مفتیان حضرات کے اعضاء کے پیوندکاری کے اس طریقہ علاج کے متعلق جواز کے فتوے سے قیمتی جانیں بچانے کے اس تسلسل کو مزید تقویت ملی ہے،
ایس آئی یو ٹی کی ڈاکٹر سعدیہ نشاط نے سندھ گورنمنٹ کے حالیہ جاری کردہ نوٹیفیکیشن کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سند ھ کی جانب سے نوٹیفیکیشن بعداز مرگ عطیہ اعضاء کے حوالے سے جاری کیا گیا ہے،
جس کے مطابق تمام سرکاری اور نجی اسپتال برین ڈیتھ کے کیسز کو سندھ ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹیشن اتھارٹی کی قائم کردہ ہیلپ لائن 0300-0064682پر اندراج کریں گے اور اس سلسلے میں واضح طریقہ کار مرتب کر لیا گیا ہے،
تقریب میں سینکڑوں کی تعداد میں وہ مریض موجود تھے جن کو اعضاء نہ ملنے کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے اپنے دکھ اور مسائل کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ
ہمیں اعضاء کی اشد ضرورت ہے مگر ان کے خاندان میں ڈونر نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک غیر یقینی صورتحال میں زندگی گزار رہے ہیں۔
تقریب میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں، طبی ماہرین، سماجی ورکروں اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی شرکت کی