بہت دن سے ہم بھی صبر کررہے تھے لیکن وزیراعظم عمران خان نے بے صبرا کہہ کر صبر کا بندھن توڑ دیا۔ کہتے ہیں کہ ابھی 13 ماہ ہی تو ہوئے ہیں عوام میں صبر نہیں۔ ابھی سے پوچھ رہے ہیں کہ کہاں ہے نیا پاکستان۔ ریاست مدینہ بھی چند دن میں نہیں بن گئی تھی۔ خدا کے بندے تو پھر ایسی باتیں کیوں کرتے رہے تھے کہ اقتدار سنبھالتے ہی لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لے آئوں گا۔ گورنر اور وزیراعلیٰ ہائوس توڑ دوں گا۔ چوروں سے لوٹی ہوئی دولت نکلوا لوں گا۔ ایک کروڑ ملازمتیں دوں گا۔ 50 لاکھ گھر بنائوں گا۔ مدینے کی ریاست بنائوں گا۔ وزیراعظم کے انداز سے برہمی اور بے چینی صاف عیاں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ جو کرنا چاہتے تھے یا وزارت عظمیٰ کے بارے میں جو سمجھتے تھے اس سے بالکل الٹ معاملہ نکلا ہے اس لیے ہر وقت ایسی ہی الٹی سیدھی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ارے بھائی ایک حکومت پانچ سال کے لیے منتخب ہوتی ہے۔ ایک سال میں 20 فی صد مدت گزر جاتی ہے، پندرہ ماہ میں یہ مدت 25 فی صد ہوجائے گی جس میں زیادہ دن نہیں ہیں، لیکن اس 25 فی صد مدت میں مدینے کی ریاست اور نیا پاکستان کی جانب پیش رفت کیا ہوئی ہے۔ جب آپ وزیروں کی فوج کی طرف رُخ کریں تو جنرل پرویز مشرف یاد آتے ہیں۔ زبیدہ جلال، شاہ محمود قریشی، شیخ رشید، فواد چودھری، عبدالرزاق دائود، خسرو بختیار، فروغ نسیم وغیرہ کو دیکھ کر پرانا پاکستان ہی یاد آتا ہے۔ اسی طرح آصف زرداری کی فردوس عاشق اعوان نئے پاکستان کی علامت کیونکر ہوگئیں۔ اگر کسی حکومت کے آئینی دور حکومت کا 25 فی صد عرصہ گزرنے کے باوجود اس کے دعوئوں کی جانب ایک قدم بھی پیش رفت نہ ہو تو پھر لوگ سوال تو پوچھیں گے۔ اسے بے صبرا پن کیوں کہا جارہا ہے۔ جو کام وزیراعظم صاحب اقتدار سنبھالنے کے اگلے دن کرنے والے تھے وہ کام 13 ماہ میں بھی نہیں کرسکے۔ تو پھر یہ تو عوام کا عظیم صبر ہے۔
ایک جانب عوام کو بے صبرے پن کا طعنہ دیا گیا اور دوسری جانب بجلی، گیس، پٹرول، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کیا جارہا ہے، سب کچھ سودی قرضوں کی وجہ سے ہے یا حکومتی اضافہ ہونے کی وجہ سے۔ سیاستدان ناراض ہیں، چلو وہ تو ہر حکومت سے ناراض ہوتے ہیں۔ تاجر ناراض ہیں یہ سوچنا حکومت کا کام ہے لیکن وہ تو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تاجروں پر لاٹھیاں برسا رہی ہے۔ ٹیکسوں کی بھرمار ہے اور ٹیکس دینے والوں ہی کو مزید زیر بار کیا جارہا ہے۔ پھر قادیانیوں پر مہربانیاں، مجرموں کے لیے آسانیاں، نئے پاکستان میں کیوں ہیں۔ توہین رسالت کی مجرمہ خاموشی سے ملک سے باہر چلی گئی، شکور چشمے والا کھسک گیا، سودی قرضوں کی بھرمار ہے، آئی ایم ایف کے سودی نظام کے رکھوالے ملک کی معاشی ٹیم میں شامل ہیں اور وزیراعظم مدینے کی ریاست کے دعوے کررہے ہیں۔ اب چار سو بدعنوان لوگوں کو جیل بھیجنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم کے مخالفین کہتے ہیں کہ وہ کنٹینر کی نفسیات سے پیچھا نہیں چھڑا سکے، ان کا انداز وہی ہے جو کنٹینر پر تھا۔ انہیں کون بتائے گا کہ اب آپ وزیراعظم بن چکے ہیں۔ اب انہوں نے چین جا کر یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ پانچ سو لوگوں کو جیل بھیجنا چاہتا ہوں۔ سوال ہے کہ جب وزیراعظم پانچ سو لوگوں کو جیل بھیج دیں گے تو کیا خود بھی گھر چلے جائیں گے۔ اگر ان کی یہ معصوم سی خواہش پوری ہوجائے اور وہ پانچ سو لوگوں کو جیل بھیج کر خود چلے جائیں گے تو شاید پاکستان بھر میں پانچ سو کیا پانچ ہزار بلکہ پانچ لاکھ لوگ یہ قربانی دینے کو تیار ہوجائیں گے۔ ویسے سودا بُرا نہیں ہے۔ پوری قوم اس وقت ایک جیل میں ہی قید ہے۔ ایف بی آر کی غنڈہ گردی، نیب کے چھاپے کسی کے گھر میں گھس جانے کے انداز، توڑ پھوڑ، جعلی اور اصلی مقدمات، بغیر کسی رسید کے گھروں سے لاکھوں روپے، قیمتی اشیا لے جانا اور بعد میں لیپ ٹاپ اور موبائل سے خطرناک معلومات ملنے کا دعویٰ کرکے مقدمے کو میڈیا کے ذریعے سنگین ثابت کرکے تاریخوں پر تاریخیں دے کر مقدمہ لمبا کھینچا جاتا ہے۔ یہ ہے نیا پاکستان اور قوم بے صبرے پن کا مظاہرہ کررہی ہے۔ بس یوں ہی ایک لطیفہ یاد آگیا۔ کنٹینر والی بات پر… ایک شخص پر دیوانگی کا دورہ پڑا اور وہ ہر وقت چڑیاں مارنے کی بات کرتا تھا۔ اسے اس کے سلیکٹرز نے پکڑ کر علاج کے لیے بھیج دیا۔ 126 دن کے علاج کے بعد اس سے پوچھا گیا کہ اب کیا خیال ہے چڑیاں مارو گے؟ کہنے لگا… نہیں اب تو باغبانی کروں گا۔ معالجین خوش ہوگئے انہوں نے کہا کہ اب تمہیں ہم پورا باغ دے دیتے ہیں۔ چناں چہ اسے پورا باغ حوالے کردیا گیا۔ لیکن 13 ماہ کے بعد وہ کہنے لگا کہ باغبانی کروں گا، پودے لگائوں گا، درخت اُگائوں گا، درخت سے لکڑی توڑوں گا، ربڑ خریدوں گا، غلیل بنائوں گا اور چڑیاں ماروں گا۔ ارے مار دیا… معالجین (سلیکٹرز) بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ یعنی اس کو جیل بھیج دوں گا، اُس کو بند کردوں گا، دس بیس کو جیل بھیج دوں گا، اب پانچ سو کو جیل بھیج دوں گا۔ یہ کیا ہورہا ہے اس ملک میں۔پھر کہتے ہیں کہ عوام بے صبرے ہیں۔ بھائی 13 ماہ سے جیلیں ہی تو بھر رہے ہیں اور کیا کررہے ہیں۔ پھر بھی صبر نہیں آتا۔