تجربے، پیشے اور انسان

433

 

 

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان کی زندگی کے تجربے اور انسان کے پیشے انسان کی شخصیت، اسلوب حیات یہاں تک کہ زبان و بیان پر گہرا اثرا ڈالتے ہیں۔
اٹھارہ بیس سال پہلے کی بات ہے، ہم نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی کے سربراہ ڈاکٹر کلیم الرحمن سے کہا کہ آپ کو درس و تدریس سے وابستہ ہوئے تین دہائیاں ہوگئی ہیں کیا آپ کے پیشے نے آپ کی شخصیت پر کوئی گہرا اثر ڈالا؟ ڈاکٹر صاحب ہمارا سوال سن کر مسکرائے۔ کہنے لگے کہ ہمارے پیشے نے ہم پر یہ اثر ڈالا ہے کہ ہم کسی کی بات سننے کے قابل نہیں رہے۔ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی عظیم اکثریت کلاس روم میں طلبہ سے مکالمہ نہیں کرتی وہ صرف خود کلامی کرتی ہے۔ آپ روزانہ تین چار گھنٹے خود کلامی کریں گے تو بیس پچیس سال بعد آپ واقعتا کسی دوسرے کی بات سننے کے قابل نہیں رہیں گے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں مکالمے کی روایت موجود ہوتی تو شاید ڈاکٹر کلیم الرحمن کا جواب مختلف ہوتا۔
اسکول کے زمانے میں ہمارے ایک دوست کے والد پرچون کی دکان چلایا کرتے تھے۔ مگر انہیں شطرنج سے اتنی دلچسپی تھی کہ گاہک آکر کھڑا ہو جاتا تھا اور ہمارے دوست کے والد چال سوچنے میں مصروف رہتے۔ وہ گاہک کو انتظار کراتے رہتے یہاں تک کہ گاہک عاجز آکر چلا جاتا۔ ہمارے دوست کے والد کی اس روش نے ان کی دکانداری تباہ کردی مگر انہوں نے شطرنج کے شوق کو کبھی ترک نہ کیا۔ وہ شطرنج میں اتنا ڈوبے ہوئے تھے کہ ہم اور ہمارا دوست کیرم بورڈ کھیل رہے ہوتے تو ہمارے دوست کے والد کسی ایک کو ہارتا دیکھ کر کہتے ہاں بھئی ’’شہ‘‘ کا سامنا ہے۔ کوئی ہار جاتا تو کہتے لو بھئی ’’مات‘‘ ہوگئی۔ کہاں کیرم بورڈ کہاں شطرنج، مگر وہ کیرم بورڈ کے کھیل کو بھی شطرنج کی اصطلاحوں میں بیان کرتے۔
عمران خان کی پوری شخصیت کرکٹ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ انہیں اب سیاست کرتے ہوئے 20 سال ہوگئے ہیں مگر وہ سیاست میں بھی ’’وکٹیں‘‘ اُڑاتے ہیں۔ ’’بائونسر‘‘ کراتے ہیں، ’’بولڈ‘‘ کرتے ہیں۔ ’’امپائر کی انگلی‘‘ کی طرف دیکھتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کی شخصیت کا اصل جوہر کرکٹ ہے۔ کرکٹ ان کے خون میں ہے، کرکٹ ان کی حسیّت یا Sensibility ہے، کرکٹ ان کا تناظر ہے، عمران زندگی کو ’’کرکٹ میچ‘‘ کی طرح دیکھتے ہیں۔ کبھی ون ڈے میچ کی طرح کبھی پانچ روزہ ٹیسٹ میچ کی طرح۔
آج سے بیس سال پہلے ہم نے اپنے ایک شاعر دوست سے کہا کہ آخر آپ کوئی ’’Job‘‘ کیوں نہیں کرتے؟۔ کہنے لگے آپ ہرن پر گھاس لادنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ہمیں ان کی بات نے رتیّ برابر حیران نہ کیا۔ شاعروں کی بہت بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ شاعر صرف شعر کہنے کے لیے ہوتے ہیں۔ ان سے شاعری کے سوا کوئی کام کرانا ان کے ساتھ ظلم ہے۔ ہم نے بہت سے شاعروں کے بیوی بچوں کو سماجی اور معاشی اعتبار سے خستہ حال دیکھا ہے۔ شاعروں کی ایک بہت بڑی تعداد کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ والدین اور بیوی بچوں کی معاشی، سماجی، جذباتی اور نفسیاتی ضروریات پوری کرنا بجائے خود ایک ’’شاعرانہ کام‘‘ ہے۔ بدقسمتی سے بہت سے شاعر صرف شاعری کو شاعرانہ کام سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ شاعری ایک بہت بڑا آرٹ ہے مگر زندگی شاعری سے ہزار گنا بڑا آرٹ ہے۔ شاعری کے لیے اگر انسان اور اس کے متعلقین کی زندگی’’مسخ‘ہوجائے تو یہ صرف مذہبی اعتبار سے نہیں جمالیاتی اور فنکارانہ اعتبار سے بھی ایک نقصان کا سودا ہے۔ مگر وہ شاعر اور ادیب بھی جو چار آنے میں آٹھ مل جاتے ہیں بڑے ’’اہتمام‘‘ کے ساتھ اپنی اور اپنے متعلقین کی زندگی کو مسخ کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ شاعری یا ادب نہیں بلکہ شاعر اور ادیب کا خود ساختہ تصور ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ کوئی شاعر ہوگا اور شراب نہیں پیتا ہوگا۔ حالاں کہ شراب یا کسی بھی نشے کا شعر کہنے یا افسانہ لکھنے کی اہلیت سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم نے 25 سال سگریٹ پی۔ بدقسمتی سے سگریٹ پینے اور لکھنے کا عمل باہم مربوط ہوگئے۔ ہمیں ایسا لگتا تھا کہ ہم سگریٹ نہیں پئیں گے تو شعر کیا کالم بھی نہیں لکھا جائے گا۔ مگر اب ہمیں سگریٹ چھوڑے ہوئے بارہ سال ہوگئے ہیں۔ اب ہمیں شعر یا کالم لکھتے ہوئے سگریٹ پینے کا خیال بھی نہیں آتا۔
قائد اعظم کے عظیم رہنما ہونے میں کوئی کلام ہی نہیں۔ ہم ثابت کرسکتے ہیں کہ گاندھی اور نہرو مجموعی طور پر بھی قائداعظم کے سامنے کچھ نہیں۔ مگر قائد اعظم بنیادی طور پر رہنما نہیں وکیل تھے۔ انہوں نے پاکستان کا مقدمہ ایک وکیل کی طرح لڑا۔ ذرا دو قومی نظریے پر قائد اعظم کی تقریر ملاحظہ کیجیے۔ لگتا ہے کوئی وکیل تاریخ کی عدالت میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں کا مقدمہ لڑ رہا ہے۔ قائد اعظم کی نظر میں دو قومی نظریہ کوئی نظریہ نہیں ایک ’’قانون‘‘ تھا۔ ایک اٹل قانون اور اسی قانون کا تقاضا تھا کہ اس کی بنیاد پر مسلمانوں کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ایک الگ ملک مہیا کیا جائے۔ قانون پسند شخصیت پر جذبات سے زیادہ دلیل کا غلبہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم کی زندگی میں جذبے کے مظاہر بہت کم ہیں اور منطقی استدلال کے مظاہر بہت زیادہ ہیں۔ قائد اعظم عام زندگی میں بھی لمبی چوڑی باتیں کرنے کے عادی نہیں تھے۔ وہ مرتب اور مختصر بات کو پسند کرتے تھے۔ ایک اچھے وکیل کی طرح انہیں معلوم تھا کہ کب بولنا ہے اور کتنا بولنا ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ مسلم برصغیر کے اشراف کے گھروں میں ’’مردانہ‘‘ اور ’’زنان خانہ‘‘الگ ہوتے تھے۔زیر بحث موضوع کے اعتبار سے اہم بات یہ تھی کہ اس دور میں مردوں اور خواتین کی زبان میں بہت نہیں تو کافی فرق ہوتا تھا۔ یہاں اکبر کا ایک شعر یاد آگیا۔ اکبر نے کہا ہے۔
اکبر ڈرے نہیں کبھی دشمن کی فوج سے
لیکن شہید ہوگئے بیگم کی نوج سے
یہ جو اس شعر کے مصرع ثانی میں ’’نوج‘‘ کا لفظ ہے یہ خواتین کی زبان کا حصہ تھا اور ہے۔ بعض گھروں میں آج بھی ’’ناس پیٹے‘‘ کہنے والیاں موجود ہیں۔ شائستہ اکرام اللہ نے دلّی کی خواتین کے مخصوص محاوروں پر ایک پوری کتاب لکھ ڈالی ہے۔ کسی دن دلّی کی خواتین کے محاوروں اور ضرب الامثال پر گفتگو ہوگی۔ آج اتنا پڑھ لیجیے کہ پرانی دلّی میں ایک محلہ ’’کوچۂ پنڈت‘‘ بھی ہے۔ اس کوچے میں دلّی کے ’’کرخنداروں‘‘ کی بڑی تعداد آباد تھی۔ ہم بچپن میں ایک بار ہندوستان گئے تو اس محلے میں بھی جانا ہوا۔ ہم نے وہاں ایک لڑکے کو ’’کرخنداری زبان‘‘ میں اپنے دوست سے مخاطب ہوتے ہوئے سنا۔ وہ کہہ رہا تھا۔
’’نہ آریا ہے نہ جاریا ہے، کھڑے کھڑے لگھا رِیا ہے‘‘
ہم نے اپنی خالہ سے پوچھا یہ کیا کہہ رہا ہے۔ ہنس کر کہنے لگیں یہ اپنے دوست سے کہہ رہا ہے کہ تو نہ کہیں سے آرہا ہے نہ کہیں جارہا ہے بس کھڑے کھڑے اِدھر اُدھر دیکھ رہا ہے۔ ہماری خالہ ’’کرخنداری زبان‘‘ کے فقرے کا ترجمہ نہ کرتیں تو ہمیں معلوم ہی نہ ہوتا کہ ایک لڑکے نے دوسرے لڑکے سے کیا کہا ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ ایک مخصوص پیشے کے لوگوں نے ایک مخصوص زبان اور اس کا لب و لہجہ پیدا کیا ہوا تھا۔ معلوم نہیں یہ زبان اور یہ لب و لہجہ اب بھی دلّی میں موجود ہے یا نہیں۔
جدید صحافت ہمارے یہاں مغرب سے آئی ہے اور مغرب میں ’’اچھے صحافیوں‘‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ :
’’Jack of all but master of none‘‘ ہوتے ہیں۔ یعنی انہیں ہر شعبہ زندگی کے بارے میں کچھ نہ کچھ علم ہوتا ہے مگر وہ ماہر کسی شعبے کے نہیں ہوتے۔ یہ صحافیوں کے بارے میں ایک ’’عالمگیر سچائی‘‘ ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان، ہندوستان، برطانیہ، امریکا اور فرانس کی کوئی تخصیص نہیں۔ کرائم رپورٹرز عام صحافی ہوتے ہیں مگر ہم نے کئی کرائم رپورٹرز کو ’’Criminal‘‘ بنتے دیکھا ہے۔ دنیا بھر میں صحافیوں کی بڑی تعداد اسٹیبلشمنٹ کی آلہ کار بن جاتی ہے اس لیے کہ صحافت طاقت کے کھیل کا حصہ ہے۔ دنیا کے تمام ہی ممالک میں بڑی سیاسی جماعتیں صحافیوں کو خرید لیتی ہیں۔ اس لیے ہمیں دنیا کے سارے صحافی ایک جیسے لگتے ہیں۔
افراد کی طرح قوموں یہاں تک کہ تہذیبوں کی بھی ایک شخصیت ہوتی ہے اور اس شخصیت کے اسلوب اور زباان و بیان کا تعین اس تہذیب کے بنیادی تصورات یا ان تصورات سے حاصل ہونے والے تجربات کرتے ہیں۔ سلیم احمد نے اپنے ایک کالم میں فارسی اور اردو غزل کے علامتی نظام پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزل کی علامتوں کے پانچ سلسلے ہیں۔ مثلاً غزل کی بعض علامتیں ’’باغ‘‘ سے برآمد ہوئی ہیں جیسے گُل و بلبل، قفس و آشیاں، بہار و خزاں، صیاد اور گلچیں۔ علامتوں کا دوسر ابڑا سلسلہ ’’کارواں‘‘ کے نظام سے ماخوذ تھا۔ جیسے رہبر، رہزن، منزل، میل، فرسنگ وغیرہ۔ تیسرے سلسلے کی علامتیں ’’محفل‘‘ سے آئی ہیں۔ مثلاً شمع و پروانہ، بعض علامتوں کا تعلق ’’مے خانے‘‘ سے ہے۔ جیسے شیشہ و پیمانہ، بادہ و ساغر، جام و مینا، ساقی و مے کش۔ اردو اور فارسی غزل کی کچھ علامتیں ’’سپہ گری‘‘ کے پیشے سے آئی ہیں۔ جیسے شمشیر و سناں، تیغ و سپر، دشنہ و خنجر۔ یہاں کہنے کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ان علامتوں کا ہمارے مذہبی تصورات سے گہرا تعلق ہے۔ اسلام دنیا کو جنت ارضی بنا دینا چاہتا ہے اور جنت کی ایک علامت ’’باغ‘‘ ہے۔ اسلام زندگی کو ایک ’’سفر‘‘ سمجھتا ہے اور ’’کارواں‘‘ اس سفر کا ایک استعارہ ہے۔ سفر تمام ہوتا ہے اور زندگی معمول پر آتی ہے تو دوستوں کی ’’محفل‘‘ آراستہ ہوتی ہے۔ مے خانہ ایک سطح پر ’’جام معرفت‘‘ کی علامت ہے۔ دوسری سطح پر ’’انحراف‘‘ کی علامت ہے۔ اسلام کے نزدیک زندگی ایک معرکہ آرائی ہے اور سپہ گری کا شعبہ معرکہ آرائی کے لیے ناگزیر ہے۔