اندھا دھند سمن!

220

 

 

عزت مآب چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے فخریہ انداز میں قوم کو باور کرایا ہے کہ انہوں نے عدالتی نظام میں جدید ٹیکنالوجی متعارف کراکے قوم کو عدالتی دھکوں سے نجات دلا دی ہے۔ ماڈل کورٹس کے نتائج انتہائی حوصلہ افزا اور لائق تحسین ہیں، قوم کو ہر وقت انصاف کی فراہمی کا خواب حقیقت بن چکا ہے۔ ماڈل کورٹس کی کارکردگی اور اس کے نتائج سے متاثر ہو کر ہم نے ای (E) کورٹ کا آغاز کیا۔ ای کورٹ کا تصور ہمارے قابل فخر جسٹس اور سینئر وکلا کی ذہنی کاوش کا نتیجہ ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں ای کورٹ کا نظام نافذ العمل ہے جو ہماری آئین و قانون کے ماہرین کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ای کورٹ وکلا کے کلائنٹ کو بہت سی سہولتیں فراہم کرتا ہے، وکلا کا وقت ضائع نہیں ہوتا اور کلائنٹ کو بھی اقتصادی بوجھ سے نجات مل جاتی ہے۔
واجب الاحترام چیف جسٹس آف پاکستان کا فرمان سر آنکھوں پر مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نظام عدل میں ای کورٹ کا اضافہ کرکے آپ دنیا کو کیا باور کرانا چاہتے ہیں، کیوں کہ دنیا میں اس نظام کی کوئی گنجائش ہی نہیں، وہاں پر وقت پر انصاف فراہم کرنے کی روایت بہت مستحکم ہے، عدالتیں پوری ذمے داری اور دیانت داری سے اپنے فرائض پورے کررہی ہیں، ہمارے عدالتی نظام میں جلد انصاف کی فراہمی ممکن ہی نہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے گزشتہ دنوں بڑے دُکھ کے ساتھ بتایا تھا کہ دنیا کی کسی عدالت میں ثبوت کے بغیر مقدمے کی سماعت نہیں ہوتی، کیوں کہ بغیر ثبوت کے کسی مقدمے کی سماعت انتہائی مکروہ فعل ہے۔ بھارت کی عدالت عظمیٰ نے تمام عدالتوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ سمن جاری کرنے سے قبل الزامات کی انکوائری کی جائے تا کہ شہری کے بنیادی حقوق مجروح نہ ہوں، ہمارے ہاں اندھا دھند فائرنگ کی طرح اندھا دھند سمن جاری کیے جاتے ہیں اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ سول کورٹ ایسے مقدمات کو عدم ثبوت کی بنا پر خارج کردے تو سیشن اس کی سماعت کے لیے تیار بیٹھی ہوئی ہے، یہاں سے بھی عدم ثبوت کی بنیاد پر مقدمہ خارج ہوجائے تو عدالت علیہ خوش آمدید کہنے کے لیے باہیں پھیلائے کھڑی ہوتی ہے۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ جب دنیا بھر میں ایسے مقدمات کی سماعت ممنوع ہے تو پاکستان کے نظام عدل میں اس کی گنجائش کہاں سے نکل آئی؟۔ سمجھ میں نہیں آتا ہمارے نظام عدل کے چودھری آگے چھوڑ پیچھے دوڑ میں کیوں دوڑ رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے نیا پاکستان بنانے کے زعم میں پرانے پاکستان کو لنڈے کا مال کیوں بنا دیا ہے؟ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں اور وہ چلّا چلّا کر فریاد کناں ہیں کہ خدارا ہمیں ہمارا پرانا پاکستان لوٹا دو۔ پرانے پاکستان میں جیبیں خالی تھیں مگر پیٹ تو بھرے ہوئے تھے، اب تو پیٹ بھی خالی ہوگئے ہیں مگر وزیراعظم عمران خان خالی خولی باتوں سے قوم کا پیٹ بھرنے کے جتن کررہے ہیں اور ان کے حواری مشورہ دے رہے ہیں کہ پیٹ پر پتھر باندھ لو، بھوک کا احساس دب جائے گا۔ خدارا نئے نظام عدل کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دو اور پرانے نظام عدل کے مطاابق عدالتی نظام کو چلنے دو، جعلی مقدمات کی پیروی اور سماعت پر پابندی لگادو اور سماعت سے قبل الزامات کی انکوائری کرائو، لوگوں کو معاشرے میں بے وقار ہونے سے نجات دلائو، اپیل کی سماعت کے لیے مقدمات کو غور سے پڑھو اور سوچو کہ یہ قابل سماعت ہیں یا نہیں پھر ای کورٹ کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ ہر پیشی پر سماعت کو یقینی بنائو گے تو سائلین کا وقت اور پیسا بچے گا ورنہ سب اس نظام عدل کے تحت مقدمات اپیل در اپیل کے ابلیسی چکر کے باعث کئی کئی نسلیں انصاف کی راہ تکتے تکتے اللہ میاں کی عدالت میں پیش ہوتی رہیں گی اور نظام عدل کے چودھری اپنی کارگزاری پر قوم سے داد و تحسین طلب کرتے رہیں گے۔