لندن کی زمین جو تین عشروں سے الطاف حسین کے لیے ایک عافیت کدے اور کمیں گاہ کا کام دیتی رہی ہے رفتہ رفتہ تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ برطانوی پولیس نے نفرت انگیز تقریروں کی پاداش میں الطاف حسین کو عدالت میں پیش کرکے اس پر فرد جرم عائد کی اور عدالت نے الطاف حسین کو مشروط ضمانت پر رہا کیا۔ عدالت نے ملزم پر سخت پابندیاں عائد کرتے ہوئے رات کو باہر نکلنے پر پابندی عائد کی۔ الطاف حسین نے تیسری بار بھی عدالت کے سوالوں کے جواب دینے کے بجائے نوکمنٹس کی گردان جا ری رکھی۔ عدالت نے ملزم پر نائٹ کرفیو نافذ کیا۔ الطاف حسین پر سوشل میڈیا کے استعمال، پاکستان کی سیاست پر تبصرہ کرنے، میڈیا سے ملاقات اور سفر کرنے کی پابندی بھی عائد کر دی گئی۔ ملزم کے لیے رات اپنے گھر میں گزارنا لازم ہوگا اسے عدالت نے نائٹ کرفیو کا نام دیا۔ لندن وہی شہر ہے جو تیس برس تک الطاف حسین کے لیے مادر مہربان بنا رہا۔ وہ لندن کی پر آسائش اور سحر انگیز شاموں کو ایک ٹیلی فونک خطاب کے نام پر شہری سندھ کو شعلوں کی نذر کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ خود الطاف حسین امن کے جزیرے میں بیٹھ کر اپنے پیروکاروں کے ذریعے کراچی اور حیدرآباد جیسے شہروں کو بدامنی کا چلتا پھرتا اشتہار بناتا رہا۔ ایک فون کال پر شہروں میں کاروبار حیات رک جاتا اور لوٹ مار شروع ہوجاتی اور ایسی ہی کال رکی ہوئی نبض ِ زندگی کو بحال کرنے کا باعث بنتی یوں وہ کروڑوں کی آبادی کے شہروں پر سول کرفیو نافذ کرنے کی جادوئی صلاحیت کے حامل شخص تھے جس نے انہیں جاسوسی کہانیوں اور فلموں کے کسی کردار کی سی شکل دی تھی۔ الطاف حسین کے سسٹم اور نیٹ ورک میں انسان کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں تھی۔ اس سسٹم میں ایک اشارہ ٔ ابرو پر سیکڑوں انسان زندہ جلادیے جاتے تھے۔ بھتا خوری، بوری بند کلچر، بھائی بندی ٹارگٹ کلنگ، چائنا کٹنگ جیسی قبیح اصطلاحات اسی نیٹ ورک کی کارستانی اور دین ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان کی سیاست اور ریاست میں بہت سے کردار اُبھرے۔ کچھ کے تخلیق کار اندرونی تھے تو کچھ کے باہر۔ الطاف حسین جیسے کچھ پتھر دل اپنوں کے تراشیدہ تھے جنہیں زباں ملی تو خود اپنے ہی تخلیق کاروں پر برس پڑے۔ رنگ برنگے عارضے پاکستان کے قومی وجود کو لاحق تھے۔ پاکستان تو حکمران طبقات کی تجربہ گاہ کا نام ہے اسی لیے کوئی کسی ناکام تجربے کا نتیجہ تھا تو کوئی کیمیائی تعامل کے غلط ہو جانے کا شاخسانہ یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ ان سب میں سب سے مشکل اور اُلجھا ہوا کیس الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیو ایم تھی۔ اس اُلجھی ہوئی ڈور کا آخری سرا تلاش کرنا کاردارد تھا۔ پاکستان کی سب سے باشعور تعلیم یافتہ، علم وادب کی عاشق، آرٹسٹک مزاج کی حامل لکھنو اور دہلی کی تہذیب کی امین اردور بولنے والی آبادی کا رشتہ مرزا غالب، مومن، سرسید احمد خان جیسے تاریخی کرداروں سے کاٹ کر کن کٹوں، لنگڑوں، پہاڑیوں، کانوں، چوہوں، بلوں، موچیوں کو اس کی شناخت بنادیا گیا جس کا قلق اس آبادی سے تعلق رکھنے والے دانشور کلاس کو ہمیشہ رہا۔ میں نے خود ہفت روزہ تکبیر کے بانی محمد صلاح الدین مرحوم کی زبانی یہ جملہ سنا ہے کہ الطاف حسین نے میرا وسیع تعارف چین کر مجھے لالو کھیت کی مخلوق بنا دیا ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں بھی اس تاسف کا اظہار کرتے رہے۔ اردو بولنے والی آبادی کو الطاف حسین نے ثقافتی اور تہذیبی زوال اور بانجھ پن کا شکار کیا۔
کراچی پاکستان کی اقتصادی شہ رگ تھا اور اس شہ رگ کو مستقل بدامنی کا شکار رکھ کر قریبی ملکوں کے شہروں کو پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کیے گئے۔ پاکستان نے جب بھی الطاف حسین کی تخریبی سرگرمیوں پر اعتراض کیا تو برطانیہ نے اسے سنجیدہ اہمیت نہ دی۔ جس سے الطاف حسین کے حوصلے بلند ہوتے چلے گئے۔ اس نے ایم کیو ایم کی دہشت اور طاقت کو جرم کی سرپرستی کے لیے استعمال کیا۔ اس کے اوپر سیاست کی چھتری تان دی گئی۔ ایم کیو ایم ہر سیاسی جماعت کی مجبوری بن کر رہ گئی اور ایم کیو ایم سے اتحاد کے لیے الطاف حسین کے دولت کدہ نائن زیرو پر اس کی تصویر کے نیچے بیٹھنا لازمی بنا دیا گیا تھا۔ قدرت کی رسی دراز تو ہوتی ہے مگر کبھی یہ اچانک کھنچ بھی جاتی ہے۔ چند برس پہلے الطاف حسین اسی تاریخی اور ابدی حقیقت کی زد میں آگئے۔ پاکستان میں رینجرز کے آپریشن میں الطاف حسین کا عسکری بازو کریک ڈائون کی زد میں آگیا جس کے بعد باقی ایم کیو ایم کے الطاف حسین کی قید سے آزاد ہونے کے دن آگئے اور یوں رفتہ رفتہ الطاف حسین قصہ ٔ پارینہ بنتے چلے گئے۔ ان کے لیے دنوں کا اُلٹ پھیر ناقابل یقین تھا اور اس بدلی ہوئی صورت حال میں الطاف حسین پر پاگل پن کے دورے پڑتے رہے۔ وہ کھلے عام بھارت کے حق میں اور پاکستان کے خلاف نعرے بازی کرکے اپنی ذہنی کیفیت کا کھلے بندوں کا اظہار کرتا رہا۔ اب برطانیہ کا عافیت کدہ الطاف حسین کے لیے تعذیب کدہ بنتا جا رہا ہے۔ تین عشروں تک آبگینے کی طرح الطاف حسین کی پرورش اور حفاظت کرنے والی طاقت اب یہ بوجھ مزید برداشت نہیں کرسکتی۔ الطاف حسین اس غلط فہمی میں رہے کہ شاید یہ ان کی کشف وکرامت اور پتوں پر نظر آنے والی شبیہ کا کمال ہے کہ پاکستان کی سیاست اور ریاست ان کے آگے بچھی جاتی ہے اور برطانیہ ان پر سایہ کیے ہوئے ہے مگر یہ اس صلاحیت اور عوامی طاقت کی پزیرائی تھی ایک بڑے شہر کو اتھل پتھل کر نے کی صلاحیت کو تعظیم اور احترام تھا جو الطاف حسین نے اپنی ذات میں مرتکز اور اس سے منسوب کر رکھی تھی۔ اس طاقت کا سورج ڈھل گیا تو سب نے نظریں پھیر لیں۔ اب الطاف حسین اکثر ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ گاتے ہوئے نظر تو آتے ہیں مگر اب وہ ان کے لیے بھی بے کار شے ہوتے جا رہے ہیں۔ برطانیہ کے بدلے ہوئے ماحول میں کچھ نہ بھی ہو گھنٹوں پر محیط تقریروں کے نام پر اول فول کہنے اور جواب میں جھولتی گردنوں اور تعظیم میں جھکی نگاہوں کا ’’جی بھائی جی بھائی‘‘ سننے والے کی زباں بندی اس کے سر پر برسنے والا تاریخ اور مکافات کا سب سے بڑا کوڑا ہے اور اس سے بڑی کوئی سزا شاید ہی ہو۔ سول کرفیو سے نائٹ کرفیو تک کی یہ کہانی طاقت کو سب سے بڑی حقیقت، سچائی اور میعارِ حق سمجھنے والوں کے لیے بھی ایک سبق ہے مگر اس سے بڑا سبق یہ ہے جب طاقت ہو تو ایسے سبق یاد ہی کون رکھتا ہے۔