حکومت نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب کے لیے ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی جگہ منیر اکرم کو تعینات کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ خارجہ محاذ پر کئی چہروں کی تبدیلی کی گئی تاہم اس مرحلے پر سب سے اہم فیصلہ ملیحہ لودھی کی جگہ منیر اکرم کا تقرر ہے۔ حسب روایت اس تبدیلی پر قیاس آرائیوں کا سلسلہ چل پڑا ہے اور اس فیصلے کی وجوہات تلاش کیے جانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ایسے میں ملیحہ لودھی نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ وہ اس اہم مقام پر اپنے ملک کی نمائندگی کا موقع دیے جانے پر شکرگزار ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ اقوام متحدہ کے اجلاس تک وہ نمائندگی کا سلسلہ جاری رکھیں۔ اس طرح ملیحہ لودھی نے اپنے تئیں قیاس آرائیوں کے غبارے سے ہوا نکال دی مگر کہانیوں اور قیاس آرائیوں کا غبارہ بدستور ہوائوں میں اُڑ رہا ہے۔ یوں تو ملیحہ لودھی چار سال اس منصب پر کام کرتی رہی تھیں اور کنٹریکٹ کی بنیاد حاصل کیے جانے والے عہدے اور مناصب تاحیات اور غیر معینہ مدت کے لیے نہیں ہوتے مگر جس طرح وزیر اعظم کے دورہ امریکا کے فوری بعد انہیں عہدے سے فارغ کیا گیا وہ خاصا معنی خیز ہے اور اس ڈور کا سرا کسی نہ کسی بے ضابطگی سے ضرور جا ملتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ملیحہ لودھی کے ساتھ تارکین وطن کی تلخ وترش گفتگو کی ایک وڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں ایک شخص ان پرچار سال سے تنخواہ لینے کے عوض ملک کے لیے کچھ نہ کرنے کا الزام عائد کر رہا تھا۔ یہ اقوام متحدہ کے اجلاس سے چند ہفتے قبل ہوا تھا۔ ملیحہ لودھی نے اپنی بساط کے مطابق عالمی فورم میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔ اس عرصے میں انہوں نے امریکا میں سابق سفیر حسین حقانی جیسی ناخوش گوار روایات بھی قائم نہیں کیں جو ہر نازک اور اہم موقع پر اپنے ملک کے بجائے دوسروں کی نمائندگی کرنے لگ جاتے۔ اقوام متحدہ کا حالیہ دنگل بھی ملیحہ لودھی کی قیادت میں لڑا گیا۔ ملیحہ لودھی کی بھارت کے ہندو گھرانے کے ساتھ رشتہ دار ی ایک سوالیہ نشان کھڑا کر گئی تھی۔ حکومت نے منیر اکرم کو ان کی جگہ تعینات کیا ہے منیر اکرم کے ساتھ بھی ایک ناپسندیدہ کہانی وابستہ ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کا المیہ یہی رنگین تہ در تہ اور دلچسپ داستانیں رہی ہیں۔ اس شعبے میں اس طرح کی داستانوں کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ اب انہی داستانوں سے خارجہ پالیسی کو آزاد کروانے کا وقت آگیا ہے۔
منیر اکرم ایک تجربہ کار سفارت کار ہیں اور انہیں عقابی یعنی سخت گیر سمجھا جاتا ہے۔ وہ ایک انگریزی اخبار میں کالم بھی لکھتے ہیں یوں ملیحہ لودھی کی طرح ان کا تعلق بھی لکھنے لکھانے سے ہے۔ اس کالم میں ان کے خیالات دوٹوک اور غیر مبہم ہوتے ہیں جسے بعض لوگ ’’عقابی‘‘ سوچ قرار دیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ وزیر اعظم کی جنرل اسمبلی سے جارحانہ تقریر کے بعد حکومت کشمیر پالیسی پر یہی جارحانہ رنگ چڑھانا چاہتی ہو کیونکہ ماضی کی مدافعانہ پالیسی نے بھارت کے حوصلے بڑھانے کے سوا کوئی فائدہ نہیں دیا۔ بھارت اس پالیسی کو کمزوری جان کر پاکستان کے خلاف دنیا بھر میں پروپیگنڈا کرتا ہے اور خود وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں کہا کہ بھارت ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے کی سازشیں کرتا رہا۔
حالات کا تقاضا ہے کہ ریاست کی پالیسی میں انقلابی تبدیلی لائی جائے، اپنے بہتر سالہ تجربات سے سیکھ کر ایک نئی جدوجہد کا آغاز کیا جائے۔ چیلنج اور بحران جس قدر گہرا اور وسیع ہے اس سے چہروں کی تبدیلی سے نہیں نمٹا جا سکتا۔ آج حالات کے بھنور میں گھری کشمیریوں کی نائو کو اس مشکل صورت حال سے نکالنا ہے۔ یہ کسی قوم اور ریاست کی پوری توانائیوں کو مجتمع کرکے بروئے کار لانے کا معاملہ ہے۔ گزشتہ بہتر سال کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پاکستان کے ادارے بالخصوص وزارت خارجہ اس عظیم چیلنج کے لیے پوری طرح کبھی تیار نہیں رہی۔ ہماری وزارت خارجہ کو حقیقت میں ایک ہی چیلنج درپیش رہا ہے اس کا نام کشمیر ہے اور اس لحاظ سے اس کی تما م تیاریوں اور سرگرمیوں کا مرکز ومحور کشمیر ہونا چاہیے تھا۔ کانفرنسیں، سیمینار، تجارتی معاہدے، غیر ملکی دورے ترقی اور تعیناتی کے کام دنیا میں ہر ادارے میں ہوتے ہیں۔ کشمیر جیسے بڑے چیلنج کے باوجود پاکستان کی وزرات خارجہ بھی انہی روایتی بھول بھلیوں میں سرگرداں رہی اور وزارت خارجہ کے بابو ٹائپ لوگوں نے اس چیلنج کا کبھی حقیقی تناظر میں اداراک واحساس نہیں کیا۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ریاست کی پالیسی حالات اور بیرونی دبائو کے باعث پنڈولم کی طرح جھولتی رہی۔ کبھی کشمیر پر کوئی سرگرمی ہوتی رہی تو کبھی اس مسئلے کو طاق نسیاں کی زینت بنایا جاتا رہا۔ جس کی وجہ سے ریاست کی کشمیر پالیسی میں تسلسل اور جان برقرار نہیں رہی۔ اب ریاستی اداروں بالخصوص وزارت خارجہ کو روایتی مصلحت، مصالحت، کہولت اور سہولت کی پالیسی ترک کرنا ہوگا کیونکہ سرنڈر کا کوئی راستہ نہیں بلکہ اس راہ میں آخر تک لڑنا اور لڑتے چلے جانا ہی واحد آپشن ہے۔ عمران خان کے دعوؤں کے اثرات سب سے پہلے وزرات خارجہ میں نظرآنے چاہییں اور اس کے بعد یہ اثرات خارجہ پالیسی کا مستقل اور لازمی حصہ بن جانا چاہیے۔ لاالٰہ الااللہ کی شبیہ پالیسیوں سے جھلکنی چاہیے اور کسی جانے اور انجانے خو ف کا سایہ بھی ملک کی کشمیر پالیسی پر نہیں پڑنا چاہیے۔ مصلحت کا گزر بھی ان راہوں سے نہیں ہونا چاہیے۔