خطاب ِ دلنواز کے بعد

247

وزیرِ اعظم عمران خان نے 27ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انتہائی مؤثر، جاندار اور دینی وملّی جذبات سے معمور خطاب کیا۔ میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں اس خطاب کی پرزور تحسین کی، اس کے مشمولات (Contents) کو بھی تحریر کیا اور اس میں کسی بخل سے کام نہیں لیا۔ بعض میڈیا کے دوستوں نے سوال بھی کیا کہ فلاں فلاں موضوع پر گفتگو نہیں کی گئی، میں نے اُن سے کہا: عربی کا ایک مقولہ ہے: ’’اَلنُّکْتَۃُ لِلْفَارّلَا لِلْقَارّ‘‘ یعنی اپنے اصلی مقام سے کسی چیز کو ہٹایا جائے تو اس کے لیے وجہ بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جو چیز اپنے اصلی مقام پر ہے، اُس کے لیے کسی توجیہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کسی کے لیے بھی ممکن نہیں کہ پچاس منٹ میں سارے ضروری موضوعات کا احاطہ کرلے، پھر ہر ایک کی ترجیحات اپنی اپنی ذہنی سوچ کے مطابق ہوتی ہیں، ہمارے لیے اطمینان کا باعث یہ ہے کہ جن چار نِکات کو جنابِ وزیر اعظم نے اپنی تقریر کا موضوع بنایا، وہ اپنی اہمیت کے لحاظ سے درست تھے اور اُن کا پیشکش کا انداز بھی موثر تھا، موضوعات کی ترتیب مقرر اپنی ترجیحات کے مطابق کرتا ہے اور یہ اس کا حق ہے۔
وفاقی وزیر مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی محترم ڈاکٹر پیر نورالحق قادری سے ملاقات ہوئی، انہوں نے کالم پر شکریہ ادا کیا اور کہا: آخر میں آپ نے کچھ باتیں لکھی ہیں۔ میں نے اُن سے کہا: حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کا زاویہ نظر اپنا اپنا بلکہ ایک دوسرے کی ضد ہوتا ہے، اس میں انانیت اور جماعتی وابستگی کا بھی پاس رکھا جاتا ہے، اپنے اپنے لوگوں کو کسی نہ کسی درجے میں مطمئن بھی کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے منصب اور دیانت وامانت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ذاتی سطح سے بالاتر ہوکر کسی جانبداری یا تعصب کے بغیر تجزیہ کریں اور ہر اچھی بات کی تائید کریں۔ بعض اوقات مصلحت اور موقع کی مناسبت سے کمزور پہلوئوںکی نشاندہی مؤخر کردی جاتی ہے۔ میں نے پیر صاحب سے عرض کیا: آخری چند سطور میں نے اس لیے لکھی تھیں کہ لوگوں کی تربیت بھی ہو اور لوگ ہر طرح کے عواقب (Subsequences) کے لیے بھی تیار رہیں، میں نے لکھا تھا:
’’قوموں اور ملکوں کے تعلقات کی سائنس کا جنابِ عمران خان کو اب خوب اندازا ہوگیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سامعین تاثّرات سے عاری، سپاٹ چہرے کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ تقریر کے استدلال اور مقرر کے جذبات سے لا تعلق رہتے ہیں، وہ اپنی اپنی حکومتوں اور ملکوں کے مفادات کے ترجمان ہوتے ہیں، وہ گونگے بہروں کی طرح بے حس ہوتے ہیں، وہ دلوں پر تالے لگاکر پاسبانِ عقل کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ اپنے لیے داخلی مسائل پیدا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، جب وزیرِ اعظم کا تاریخی خطاب جاری تھا، تو امریکیوں کی ساری توجہ صدر کے مواخذے کے امکانات پر تھی۔ امریکی معاون نائب وزیرِ خارجہ ایلس ویلز نے انڈیا سے صرف کرفیو ختم کرنے اور اطلاعات پر پابندیاں اٹھانے کا کہا ہے۔ انہوں نے 5اگست کے اقدام کو واپس لینے کا نہیں کہا، اس کے برعکس ان کے بیان سے عیاں ہوا کہ پاکستان بدستور ٹیسٹنگ لیبارٹری میں ہے، انہوں نے کہا: ’’پاکستان کے ساتھ مستقبل کے تعلقاتِ کار کا انحصار اس کے آئندہ رویے اور عمل پر ہوگا ‘‘۔ گویا کلین چٹ نہیں مل سکی۔ ایران کے ساتھ مکالمے کے امکانات پر بھی بات ہوئی ہے اور ایران کے صدر جنابِ حسن روحانی نے کہا: ’’انہوں نے جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے اصرار پر بعض امریکی اہلکاروں سے ملاقات کی ہے، انہوں نے کہا: ہم نے 2015 کے ایٹمی معاہدے میں ردّوبدل کے امکانات کو رد نہیں کیا، لیکن اس کا انحصار پابندیاں اٹھانے پر ہے‘‘۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے موثر خطاب اور عالمی دورے سے واپسی کے بعد بھی زمینی صورت حال میں نہ کوئی تبدیلی آئی، نہ دور دور تک اس کے کوئی آثار نظر آئے کہ بھارتی حکومت 5اگست کے اقدام کو واپس لینے کے بارے میں سوچ رہی ہے، اس حوالے سے انڈین سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر ہوئی ہے، لیکن اس کا رویہ بھی ٹھنڈا ٹھار ہے، اس نے کیس کی پروسیڈنگ میں کسی عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مودی حکومت کو اپنے ملک کے اندر کسی موثر مخالفت کا سامنا بھی نہیں ہے، اکا دکا آوازیں یا تحریریں جمہوری معاشرے میں معمول کا حصہ ہوتی ہیں، وہاں اس حوالے سے کوئی تحریک برپا نہیں ہوئی۔
تاحال مقبوضہ جموں وکشمیر کے مسلمان محصور ہیں، ایک طرح سے یرغمال ہیں اور طویل کرفیو کی زد میں ہیں۔ یہ امر طے ہے کہ جلد یا بدیر یہ کرفیو یا محاصرہ آخرِ کار اٹھانا ہوگا، اس کے بعد معلوم ہوگا کہ ردِّعمل کیا ہے، اس کا سائز اور جذبات کا اُبال کس قدر ہے، نیز یہ کہ تازہ ترین حالات میں وہاں کوئی منظم تحریکِ حریّت یا تحریکِ مزاحمت بپا ہوتی ہے یا نہیں اور یہ کہ اسے وسائل کہاں سے ملتے ہیں اور کیسے ملتے ہیں۔ سرِدست پاکستان کا اصولی اورسرکاری موقف یہ ہے کہ ہم مقبوضہ جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے، اس میں مادی یا عسکری حمایت کا حوالہ نہیں ہوتا۔ مادّی حمایت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی روٹ سے مزاحمت کے لیے اسلحے کی فراہمی ہو، جیسے یمن اور بعض دیگر خطوں میں ہم دیکھ رہے ہیں، آخر افغانستان کے اندر بپا تحریکِ مزاحمت کی بھی کوئی نہ کوئی سپلائی لائن یقینا ہوگی۔ افغان طالبان کا دعویٰ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم غیر ملکی قابض افواج اور ان کے تحت قائم مقام افواج سے اسلحہ چھین لیتے ہیں، واللہ اعلم بالصواب۔ لیکن مزاحمت تو تسلسل اور مقاومت کے ساتھ جاری ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی علیحدگی کی تحریکیں بپا ہوتی ہیں، وہ عالمی طاقتوں کی آماجگاہ بن جاتی ہیں، سب اپنے اپنے قومی اور عالمی مفادات کے تحت ان پر نظر رکھتے ہیں، علانیہ یا پوشیدہ طور پر مدد بھی کرتے ہیں، ماضیِ قریب میں مشرقی تیمور،جنوبی سوڈان، لیبیا اور شام وغیرہ کی مثالیں دنیا کے سامنے ہیں۔
مشرقی تیمور مسیحی اکثریتی آبادی کا علاقہ تھا، اس لیے اس کی انڈونیشیا سے علیحدگی کی تحریک کی حمایت میں آسٹریلیا، یورپ، کینیڈا، امریکا الغرض پورا مغرب ان کی حمایت میں کھڑا ہوگیا تھا، اقوامِ متحدہ کو انہوں نے متحرک کیا اور بالآخر ریفرنڈم کے ذریعے ایسٹ تیمور ایک آزاد ملک بن گیا۔ یہی صورتِ حال جنوبی سوڈان کی ہے کہ وہاں مسیحی آبادی کا غلبہ تھا، مغربی وسائل سے طویل عرصے خانہ جنگی رہی اور بالآخر ان کو بھی ریفرنڈم کے ذریعے آزادی مل گئی۔ لیکن اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے باوجود عالمی برادری مسلمانوں کے حق میں کبھی بھی فعال نہیں رہی۔ اہلِ کشمیر کو حقِ خود ارادی دینے کا وعدہ تو خود اقوامِ متحدہ نے 1948 میں کیا تھا، مگر پھر اس پر کبھی بھی عمل درآمد نہ ہوا۔ اسی مسئلے پر پاکستان اور بھارت میں تین جنگیں ہوچکی ہیں، لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے۔
پس لازم ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے مسئلے کو پاکستان کی داخلی سیاست کی خِلافیات سے الگ رکھا جائے، یہ توقع رکھنا تو بظاہر مشکل نظر آتاہے کہ وزیر اعظم مشترکہ حکمتِ عملی تیار کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کو آن بورڈ لیں گے تاکہ ملکی اور ملی وحدت کا تاثر پیدا ہو، لیکن بہر حال یہ وقت کی ضرورت اور اعلیٰ ترین ملی مفاد کا تقاضا ہے۔ اس وقت دنیا میں مقبوضہ کشمیر کے مظلوم، محصور اور مجبور مسلمانوں کا مسئلہ نمایاں ترین عالمی مسائل میں سے ہے، عالمی برادری، حقوقِ انسانی کے ادارے، امریکی کانگریس کے بعض ارکان اور برطانیہ کے بعض پارلیمنٹیرین مختلف فورمز پر کشمیر کی بات تو کرتے ہیں، لیکن ان کی تشویش حقوقِ انسانی کی پامالی، بنیادی ضرورتوں کے فقدان، اشیائے خوراک اور ادویات کی قلّت، تعلیم کی معطلی، اطلاعات پر بندش یعنی موبائل کمپنیوں اور انٹرنیٹ پر پابندی تک محدود رہتی ہے۔ طویل محاصرے کی وجہ سے بے روزگاری کا ایک انسانی المیے کی صورت اختیار کرنا، باغات سے تیار فصلوں کی نقل وحمل پر پابندی وغیرہ شامل ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کے اصل مسئلے پر عالمی طاقتوں میں سے کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، یعنی بھارتی حکومت کے 5اگست کے آئینی اقدام کی منسوخی اور اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام مقبوضہ جموں وکشمیر کے لوگوں کو خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دینا، حقِ خود ارادی یا استصوابِ رائے سے یہی مراد ہے۔
ہمیں لوگوں کو یہ باور کرانا چاہیے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے موثر اور مدلّل ومفصّل خطاب سے مقبوضہ جموں وکشمیر کا مسئلہ ہائی لائٹ ہوا، دنیا کے سامنے آیا، اس پر بات کی جانے لگی ہے، حالانکہ اسے طاقِ نسیان میں رکھ دیا گیا تھا، سو یہ ایک مثبت پہلو ہے اور اس سے امید وابستہ کی جاسکتی ہے کہ اب یہ مسئلہ عالمی مسائل میں سرِ فہرست رہے گا۔ لیکن یہ سمجھنا کہ مسئلہ حل ہوگیا ہے، نہایت ادب کے ساتھ گزارش ہے: ’’ہنوز دلّی دوراست‘‘، ہم قوم کو نیک خواہشات پر مبنی امید کی کرن دکھادیں اور پھر نتیجہ حسبِ منشا برآمد نہ ہو، تو قوم میں مایوسی پھیل جاتی ہے، لہٰذا ہمیں حقیقت پسندی سے بھی کام لینا ہوگا اور قوم کو یہ باور کرانا ہوگا کہ ابھی آزادیِ کشمیر کا سفر کافی طویل ہے اور ہمیں اس کے لیے پیہم مصروفِ عمل رہنا ہوگا، وزیر اعظم کی تقریر سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو بھی کافی حوصلہ ملا ہے اور یہ ایک اچھی علامت ہے۔