مولانا، مسٹر اور وقت کی امتحان گاہ

202

 

 

وقت اگر ایک بڑی عدالت اور مورخ ہے تو پاکستانی سیاست کے مسٹر اور مولانا دونوں اس عدالت میں کھڑے ہوگئے ہیں۔ مسٹر عمران خان اور مولانا فضل الرحمن دونوں کو تنی ہوئی رسی کا سفر درپیش ہے۔ عمران خان روایتی سیاست اور سیاست کاروں کی مخالف قوتوں کی آنکھ کا تارہ ہیں تو مولانا فضل الرحمن اس نئے اسلوبِ سیاست کے سب مخالفین کے لاڈلے ہیں۔ عمران خان کو منظر سے ہٹانے اور موجودہ سسٹم کو دریا برد کرنے کے وہ سب ارمان جو دلوں میں مچل مچل کر دم توڑتے رہے مولانا کی شخصیت کو دیکھ کر ان دلوں میں دوبارہ تڑپنے لگے ہیں۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھے اور حالات زمانے کے ہاتھوں غیر متعلق ہوجانے والے ہر دو طرح کے بہت سے سیاست دان سب مولانا کے پیچھے کھڑے ہوگئے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا اسلامی وضع قطع اپنائے ہوئے تھا اور مولانا فضل الرحمن ایم آر ڈی کا حصہ تھے مگر جنرل ضیاء الحق کے لیے وہ مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے تھے جو پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے بے دخل کرنے والا مرکزی کردار بھی تھے اور افغان جہاد کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے بھی تھے۔ یہ دونوں باتیں جنرل ضیاء الحق کی کمزوریاں تھیں۔ ضیاء الحق عقیدے کی حد تک افغانستان کی جنگ کو جہاد سمجھتے تھے اور بھٹو نہ ہٹتے تو جنرل ضیاء الحق کو تاریخ کے اہم ترین موڑ پر منظر پر اُبھرنے کا موقع کیسے ملتا؟۔ حقیقت میں جنرل ضیاء الحق کی مخاصمت ایم آر ڈی کی ایک ہی جماعت سے تھی اور اس کا نام پیپلز پارٹی تھا۔ پیپلزپارٹی ان کی حقیقی مخالف بھی تھی اور منطقی طور پر مارشل لا کا تختہ مشق بھی۔ کچھ یہی رشتہ وپیوند مولانا کا جنرل پرویز مشرف کے نیم مارشل لا سے بھی رہا۔ یہی وہ مارشل لا تھا جس کے سائے میں انہیں قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف کا منصب بھی حاصل ہوا۔ اس لیے مولانا کی سیاست کو پہلی بار حقیقی امتحان درپیش ہے۔ ایسے میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کی کور کمیٹی نے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے وزیر داخلہ پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی ہے۔ کمیٹی کو اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کا اختیار بھی ہوگا۔ پی ٹی آئی کے چیرمین اور وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ خود ان کا موقف تھا کہ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کو زیادہ اہمیت نہ دی جائے۔
دوسری جانب مولانا فضل الرحمن نے حکومت سے کسی قسم کے مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے استعفے کے بعد ہی مذاکرات ہوں گی۔ پرویز خٹک نے مذاکرات کے لیے اپنا ذہن بھی پوری طرح تیار نہ کیا تھا کہ عمران خان نے کنونشن سینٹر میں خطاب کے دوران یہ کہہ کر ایک بار پھر اپنا روایتی انداز اپناتے ہوئے روایتی تیر مولانا کی طرف اُچھال دیا کہ یہ پہلی اسمبلی ہے جو ڈیزل کے بغیر چل رہی ہے۔ مذاکرات کی کامیابی کا تو پہلے ہی بہت کم امکان تھا کہ وزیر اعظم کے اس انداز گفتگو نے انہیں مزید معدوم کر دیا۔ مولانا اب اپنے احتجاج کا گراف بیانات کے ذریعے جس مقام پر لے جا چکے ہیں وہاں آسانی سے واپسی ممکن نہیں۔ نہ حکومت کی روکھی سوکھی مذاکراتی پیشکش مولانا کو راضی کر سکتی ہے۔ مولانا خاکسار تحریک کی طرز پر اپنے خاکی لباس میں ملبوس لٹھ برداروں کی نمائش کرکے حکومت کے اوسان خطا کرنے کی اپنی سی کوشش کر چکے ہیں۔ ظاہر ہے ڈنڈا بردار فورس کا ریاستی فورسز کے ساتھ تصادم ہوتا ہے تو اس سے کوئی خیر کی خبر برآمد نہیں ہو سکتی۔ تصادم اور دھینگا مشتی کے اندر سے کوئی ففتھ کالمسٹ نمودار ہو کر ہتھیار کا استعمال کر کے لال مسجد ٹائپ حادثہ بھی برآمد کر سکتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل وزیرستان میں خار کمر چیک پوسٹ پر مظاہرین کے احتجاج کے دورن گولی چلنے سے کئی سیکورٹی اہلکار اور مظاہرین جاں بحق ہوئے تھے۔ مظاہرین کے نمائندے آج تک اپنی جانب سے گولی چلنے کی تردید کر رہے ہیں جبکہ پاک فوج کے جوان بھی گولی چلنے کی تردید کر چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مظاہرین کے اندر چھپے ہوئے کسی خفیہ ہاتھ نے یہ واردات ڈال دی تھی۔ ہر پرامن احتجاج اور عوامی ہجوم کے اندر سے کوئی ناخوش گوار واقعہ اُبھرنے کے امکان کی طرح مولانا کا آزادی مارچ بھی اس خطرے سے خالی نہیں۔ ایسے میں جبکہ ان کے پیروکار پوری طرح لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں نکلنے کو تیار ہیں۔ حکومت نے مذاکرات کی ضرورت اور اہمیت کو اس وقت تسلیم کیا جب مولانا کے احتجاج میں دو ہفتے سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے۔ غالباً ان کے لیے واپسی کے راستے بہت محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
عدالت نے اس تنازعے میںاُلجھنے سے انکار کر دیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ دھرنا روکنے کے لیے دی جانے والی درخواستوں کو رد کر کے گیند انتظامیہ کی کورٹ میں ڈال چکی ہے۔ ایک اُڑتی ہوئی خبر یہ بھی ہے کہ عسکری ادارے بھی حکومت کو اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر احتجاج سے نمٹنے کا کہہ چکی ہے۔ گویا کہ فیص آباد دھرنے کی طرح اس بار فوج کسی سیاسی تنازعے میں اُلجھنے اور سہولت کار بننے کو تیار نہیں۔ عدلیہ اور فوج کی طرف سے معاملے سے الگ تھلگ رہنے کے بعد حکومت کی سیاسی بصیرت اور انتظامی مہارت کا امتحان شروع ہو چکا ہے۔ مولانا کو بھڑاس نکالنے کا موقع بھی فراہم اور خون خرابہ بھی نہ ہو اور حکومت بھی قائم رہے یہ تینوں بوجھ حکومت کے کندھے پر منتقل ہو چکے ہیں۔ ایسے میں حکومت کو مذاکرات کی نیم دلانہ کوشش کے بجائے مذاکرات کی سنجیدہ کوشش کرنا ہوگی۔ مولانا کو بھی یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ان کے پاس دینی مدارس کے طلبہ کی اسٹریٹ اور احتجاجی پاور شوکرنے اور اس فورس کی دہشت برقرار رکھنے کا یہ آخری موقع ہے۔ یہ بھرم ٹوٹ گیا تو ریاست اس فورس کے اسٹریٹ پاور کے طور پر استعمال ہونے کے امکانات اور اسباب محدود بلکہ ختم کرنے کی تدابیر سوچنے پر مجبور ہو جائی گی۔ ریاست پھر ریاست ہی ہوتی ہے اسے ڈنگ نکالنے کے سو ڈھنگ آتے ہیں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ مولانا کا بھی یہ امتحان ہے کہ وہ اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرائیں اور اپنی فورس کا بھرم اور رومانس بھی قائم رہنے دیں۔