کے ایم سی کا مستقبل کیا ہوگا؟

168

محمد انور
اطلاعات ہیں کہ حکومت سندھ نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے 15 ہزار ملازمین کے لیے اضافہ کی گئی 15فی صد تنخواہوں کی مد میں فنڈ جاری کرنے سے انکار کردیا۔ یہی نہیں بلکہ سابق سیکرٹری فنانس تجمل شاہ اور سیکرٹری بلدیات خالد حیدر شاہ نے تقریباً 20 دن قبل بلدیہ عظمیٰ کے حکام کو کے ایم سی بلڈنگ میں رکھی گئی ایک میٹنگ میں واضح کیا تھا کہ اضافہ کردہ الاؤنس کے لیے اگر کے ایم سی کے پاس فنڈز نہیں ہیں تو وہ الاؤنس نہ دے۔ مذکورہ دونوں سیکرٹری اب فنانس اور بلدیات کے شعبہ جاتی سربراہ نہیں رہے مگر کے ایم سی کا مالی بحران جوں کا توں ہے۔ ان افسران نے یہ بھی واضح کردیا تھا کہ حکومت بلدیہ عظمیٰ کے واحد میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے لیے بھی کوئی فنڈ نہیں دے سکتی۔ اس کا حکومت سے کوئی تعلق بھی نہیں، اس لیے بلدیہ کراچی خود ہی اس کالج کے مالی و دیگر معاملات حل کرے یہ اور بات ہیکہ دو سیکرٹریز کے اس موقف کے بعد وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے 2 اکتوبر کو کے ایم ڈی سی کے لیے نو کروڑ کی خصوصی گرانٹ کی منظوری دی تھی۔ لیکن یہ منظور کردہ گرانٹ بھی تاحال کالج کو نہیں مل سکی جس کی وجہ سے کالج اساتذہ اور دیگر اعلیٰ افسران کو گزشتہ 3 ماہ کی تنخواہیں نہیں مل سکی ہیں جس کی وجہ سے ان میں تشویش پائی جاتی ہے۔
کے ایم سی میں مالی بحران کو تین سال ہونے والے ہیں۔ اس مالی بحران کی وجہ سے میئر وسیم اختر کو بھی فنڈز اور اختیارات نہ ہونے کی شکایات کا موقع ملا ہوا ہے۔ مالی بحران کے باعث اس کے اہم شعبے فائر برگیڈ کے ملازمین کو اوور ٹائم کی ادائیگی گزشتہ 17 ماہ سے رکی ہوئی ہے۔ اب تک بلدیہ عظمیٰ مجموعی طور پر فائر برگیڈ کے ملازمین کی 30 کروڑ روپے کی مقروض ہوچکی ہے۔ ان دنوں ایک بار پھر محکمہ فائر برگیڈ کے نو سو سے زائد فائر مین اور دیگر اسٹاف اوور ٹائم کے لیے ہڑتال پر ہیں اور تمام فائر اسٹیشن عملاً بند ہیں۔
کراچی ڈھائی کروڑ سے زائد آبادی اور دس لاکھ سے زائد چھوٹی بڑی رہائشی و تجارتی عمارتوں کا شہر ہے یہاں ہزاروں صنعتیں اور کارخانے ہیں جن میں کبھی بھی کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے۔ مگر یہاں کا اپنا فائر فائٹرز کا ادارہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ آتشزدگی کی صورت میں صرف 8 فائر ٹینڈرز کراچی فائر برگیڈ کے پاس درست حالت میں موجود ہیں۔ باقی چالیس فائر ٹینڈرز ورکشاپ میں کھڑے ہیں جہاں سے ان کے لیے پٹرول اور ڈیزل کا اجراء جاری ہے۔ دراصل یہ ادارہ کے ایم سی کے کرپٹ افسران اور کرپٹ چیف فائر افسر اور اسٹشن افسران کی ماہانہ لاکھوں روپے آمدنی کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ اس آمدنی کا حصہ حکومت کے افسران اور حکومتی شخصیات تک بھی پہنچایا جاتا ہے اس لیے ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی بھی نہیں کی جاتی۔ فائر برگیڈ ڈپارٹمنٹ کا ماضی میں ذمے دار ترین افسر رہنے والا آج بھی میئر وسیم اختر کی ’’ناک کا بال‘‘ بنا ہوا ہے اور بحیثیت سینئر ڈائریکٹر کو آرڈی نیشن تمام شعبوں کا سردار ہے یہی پورے کے ایم سی کو مالی بحران سے دوچار کرنے اور شدید بد انتظامی پیدا کرنے کا مبینہ طور پر بڑا ذمے دار ہے۔ ٹائیکون اور ملک کے بڑے بلڈر ملک ریاض کہا کرتے تھے کہ وہ فائلوں پر پہیے لگادیا کرتے تھے اس لیے ان کی فائلیں کسی دفتر میں رکتی نہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ کے ایم سی کے یہ سینئر ڈائریکٹر اپنی فائلوں کو ’’ڈرون‘‘ سے منسلک کرکے ان کو منزل کی جانب بڑھا دیا کرتا ہے۔
کے ایم سی ملک کے سب سے بڑے شہر اور ملک کا سب سے بڑا بلدیاتی ادارہ ہے۔ اس بجٹ کا 26 ارب روپے سالانہ ہے مگر اس کی اصل صورتحال ’’باتیں کروڑوں کی اور دکان پکوڑوں‘‘ کے مصداق بنی ہوئی۔ لیکن یہ دکانداری اگر کرپٹ عناصر کو لگام ڈال کر کی جائے تو یقینا کے ایم سی کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے آمدنی حاصل کرنے والی دکان نہیں ادارہ بن جائے۔ مگر بدقسمتی سے ان دنوں اگر شہر میں کوئی بڑی آتشزدگی ہوجائے تو کے ایم سی فائر برگیڈ اس قابل بھی نہیں رہا کہ اس آگ پر فوری قابو پا سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ صوبائی حکومت کے ایم سی کو اب بہتر بنانے کے بجائے ختم کرنے کے منصوبے پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پروونشل فنانس کمیشن ایوارڈ بھی یہ 2007 کے بعد آج تک نہیں لاسکی۔ ویسے ’’سندھ میں پیپلزپارٹی حکومت‘‘ کا تصور کرنے پر بھی ہنسی آنے لگتی ہے کیوں کہ اس دور میں کرپشن کو جتنا فروغ حاصل ہوا کسی اور دور میں اس کی مثال نہیں ملتی۔