سرینگر (اے پی پی+ صباح نیوز) مقبوضہ کشمیر میں قابض حکام اظہار رائے کی آزادی کے حق کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جیلوں میں نظربند سیاسی قیدیوں کو رہائی کے عوض کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بھارتی اقدام کے خلاف نہ بولنے اور احتجاجی مظاہروں میں شرکت نہ کرنے کے معاہدے پر دستخط کرنے پرمجبور کررہے ہیں۔ کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق حال ہی رہا ہونے والی 2 خواتین کو دفعہ 107کے تحت ایک نئے قسم کے معاہدے پر دستخط کرائے گئے جوعام طورپر ضلع مجسٹریٹ انتظامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے فوجداری مقدمات میںکسی کواحتیاطی تدابیر کے طورپر حراست میں لیتے وقت استعمال کرتا ہے۔ معاہدے میں گرفتار افراد پرجموںوکشمیر میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کے بارے میں بات نہ کرنے یا بیان نہ دینے، تقاریر نہ کرنے یا عوامی جلسوں میں شرکت نہ کرنے کی شرائط لگائی جاتی ہیں۔ حالیہ واقعات کا مطلب دفعہ 370 یا جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور اس کو دو یونین ٹیریٹوریز میں تقسیم کرنا ہے۔ قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق نئی شرائط تکلیف دہ اور غیر آئینی ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز نے صحافیوں کو بتایا کہ کچھ لوگوں کو نئے معاہدے کی شرائط پر رہا کیاگیاہے۔ علاوہ ازیں بھارت کا فوجی محاصرہ مسلسل 78ویں روز بھی جاری رہنے کے باعث مقبوضہ وادی کشمیر اور جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں میںخوف و غیر یقینی کا ماحول جاری رہا۔ مقبوضہ علاقے میں انٹرنیٹ اور پری پیڈ موبائل فون سروسزمسلسل معطل ہیں جبکہ بیشتر دکانیں اور کاروباری مراکز بند اور تعلیمی ادارے ویرانی کا منظر پیش کرر ہے ہیں۔مزاحمتی قیادت اور کشمیری شہداء کے ورثاء کی طرف سے جاری پوسٹروںمیں کشمیری عوام پر زوردیا گیا ہے کہ وہ اپنی املاک غیر کشمیریوں کو فروخت نہ کریں اور مقبوضہ علاقے میں انکا داخلہ ناممکن بنا دیں۔ مزید برآںمقبوضہ کشمیر کے حقوق انسانی کمیشن نے سرینگر کے مینٹل اسپتال انتظامیہ کو نوٹس جاری کر کے اسلامی تنظیم آزادی جموں و کشمیر کے چیئرمین عبدالصمد انقلابی کی میڈیکل رپورٹ مقررہ وقت میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ دوران حراست دماغی توازن بگڑنے پر انہیں اسپتال میں علاج کے لیے داخل کرایا گیا تھا۔ دریں اثنا عبدالصمد انقلابی کے اہل خانہ نے حکام سے انہیں خصوصی طور پر علاج کی سہولیات فراہم کرنے اور انسانی بنیادوں پر رہا کرنے کی اپیل کی ہے۔
مقبوضہ کشمیر