بھارت ہندو توا سوچ کا قیدی

161

حکومت پاکستان نے نو نومبر کو کرتار پورہ راہداری کھولنے اور دنیا بھر کے سکھوں کو گوردوارے کی یاترا اور عبادت کا موقع فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کرتار پورہ دنیا بھر میں سکھوں کا سب سے بڑا گورد وارہ اور مقدس مقام ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان دنیا بھر کے سکھوں کے لیے اپنے دروازے کھولنے جا رہا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کی طرح سکھ بھی اس وقت دیوار سے لگائی جانے والی اقلیت ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے بعد انتہا پسند ہندئوں کے نشانے پر تیسری قوم کا نام سکھ ہے۔ سکھوں کے لیڈر ماسٹرا تارہ سنگھ نے تقسیم ہند کے وقت اپنا وزن کانگریس کے پلڑے میں ڈال کر جہاں متحدہ پنجاب کی تقسیم کی راہ ہموار کی وہیں سکھوں نے مسلمانوں کا قتل عام اور جوابی ردعمل کا شکار ہو کر ہندو انتہا پسندی کے لیے اگلے مورچے کا کردار ادا کیا۔ سکھوں کو استعمال کرنے کے بعد رفتہ رفتہ ہندو اکثریت نے دیوار سے لگانا شروع کیا۔ مسلمانوں کا جرم تو پاکستان بنانا تھا مگر سکھوں نے تو پوری طرح کانگریس اور ہندووں کی حمایت میں اپنا زور بازو صرف کیا تھا انہیں تنہا کرنے کی واحد وجہ ہندو مائنڈ سیٹ تھا جس میں دوسرے مذاہب اور اقلیتوں کے لیے صرف اسی صورت میں گنجائش نکل سکتی تھی کہ اگر وہ ہندو سماج کا حصہ بن جائیں۔ اپنی انفرادیت برقرار رکھنے اور سر اُٹھا کر چلنے پر اصرار اس مائنڈ سیٹ کو قبول نہیں تھا۔
سکھوں کے ساتھ ناانصافیوں نے اسی کی دہائی میں خالصتان تحریک کی صورت میں ایک مقبول نعرے اور تحریک کا روپ دھارا۔ اندراگاندھی نے سکھوں کی سیاسی جماعت اکالی دل کا زور توڑنے کے لیے پہلے پہل اس نعرے کی حمایت کی اور اس تحریک کے مقبول کردار سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی مدد کی مگر جب یہ تحریک خالصتان کے نام سے الگ وطن کے مطالبے کی شکل اختیار کر گئی تو ہندو انتہا پسندوں نے اسے نشانے پر رکھ لیا۔ 1984میں اندرا گاندھی نے بدنامِ زمانہ آپریشن بلیو اسٹار کے ذریعے دربار صاحب امرتسر کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ بھنڈرانوالہ سمیت ہزاروں افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد سکھ محافظوں نے اندرا گاندھی کو قتل کیا۔ جس کے جواب میں ہندئووں نے ہزاروں سکھوں کو قتل کیا، ہزاروں سکھ عورتوں کی عزتیں لوٹی گئیں اور گھروں اور دکانوں کو نذر آتش کیا گیا۔ سکھوں اور ہندئووں میں پہلی بار سماجی اور سیاسی سطح پر ایک دراڑ اُبھر آئی۔ لاکھوں سکھوں نے مغربی اور یورپی ملکوں میں سیاسی پناہ حاصل کی۔
پاکستان کے تعاون سے بھارت نے سکھو ں کی مسلح تحریک پر کنٹرول حاصل کیا مگر سکھوں کے دلوں میں بھڑکے ہوئے جذبات سرد نہ ہوسکے۔ کینیڈا، برطانیہ اور امریکا میں مقیم سکھوں نے خالصتان تحریک کی جدوجہد تیز کی۔ جس کی وجہ سے بھارتی حکومت اور ریاست میں ان کے لیے گنجائش مزید سکڑ کر رہ گئی۔ پاکستان نے سکھوں کے ساتھ بھارتی ریاست کے اس سلوک کو بروقت بھانپ کر تاریخ میں دبی تلخیوں کو کم کرنے اور سکھوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ ان کے مقدس مقامات اور گوردواروں کی حفاظت کا موثر نظام تشکیل دیا اور سکھ یاتریوں کے لیے دیدہ ٔ دل فرش راہ کیے۔ کرتار پورہ راہداری کا کھولاجانا تعلق اور تعاون کے اس سفر کا سنگ میل ہے۔
موجودہ حالات میں مسلمانوں کے درپۂ آزار نریندر مودی کو سکھ کمیونٹی کا پاکستان کے ساتھ راہ ورسم ایک آنکھ نہیں بھاتا کیونکہ مودی کو اندازہ ہے کہ یہ عمل بھارت میں سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان تعلق اور تعاون کو مزید مضبوط کرنے کا باعث ہوگا۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کو زیادہ تندہی سے سکھوں کو قریب لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دونوں کی قربت خطے کی سیاسی اور سماجی حرکیات کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ کرتار پورہ راہداری کے بعد بھی تعلق اور تعاون کا یہ سفر جاری رہنا چاہیے۔ نریندر مودی ہندوتوا کی مقبولیت کی لہر پر سوار ہو کر پورے خطے میں اس سوچ اور نظریے کو بالادست بنانا چاہتا ہے۔ حقیقت میں یہ آگ کا کھیل ہے۔ ہندوتوا کی سوچ میں بھارت کو بہت سی وفادار اور دوستانہ سوچوں سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔
بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو کیا پڑی ہے کہ ہندو نسل پرستی پر مبنی سوچ کا حصہ بنیں رہیں۔ مدرسہ دیوبند لاکھ چاہے بھی تو وہ مسلمانوں کی اجتماعی سوچ کا عکاس اور نمائندہ نہیں بن سکتا۔ دیوبند نے بھارت میں جس سوچ کا ساتھ دیا تھا وہ پٹیل کی نہیں بلکہ نہرو اور گاندھی کی فلاسفی تھی جس میں برہمن بالادستی اور تکبر کا عنصر تو غالب تھا مگر اس کے باوجود دوسری اقلیتوں کے لیے کہیں نہ کہیں گنجائش موجود تھی مگر مودی جس سوچ کو آگے لے کر چل رہا ہے اس میں مسلمانوں کا ساتھ دینا اجتماعی خودکشی کے سوا کچھ نہیں اور مدرسہ دیوبند تادیر مسلمانوں کو اس سوچ کی تائید پر آمادہ نہیں رکھ سکتا۔ اس سوچ میں کسی دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے اور اپنے اندر سمونے کی صلاحیت ہی نہیں کیونکہ اس کا خمیر ہی نفرت سے اُٹھا ہے۔ اسی طرح سکھوں کا بھی اس سوچ کا تادیر ساتھ دینا ممکن نہیں۔ سکھ پہلے ہی ماضی کے تلخ واقعات کے اسیر بنا کر رکھ دیے گئے ہیں اور ہندوتوا کی سوچ ان کے احساس تنہائی کو بڑھا رہی ہے۔ بھارت سے باہر بنگلا دیش جیسا تابع مہمل ہمسایہ بھی تادیر اس سخت گیر ہندو سوچ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس کا اظہار بنگلا دیش میں ہونے والے بھارت مخالف مظاہروں، کشمیر حمایت ریلیوں کے بعد دونوں طرف کی سیکورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی فلیگ میٹنگ میں ہونے والا مسلح تصادم ہے جس میں بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس کے کئی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ مغربی بنگال سے بے دخل اور شہریت سے محروم کیے جانے والے لوگوں کو مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان طویل وجہ نزع بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس طرح بھارت خود اپنی سخت گیر سوچ کے ہاتھوں حالات کا قیدی بن رہا ہے۔ اس ماحول میں پاکستان اپنے کارڈز مہارت اور صلاحیت کے ساتھ کھیلے تو اس صنم خانے سے کعبے کو کئی نئے پاسباں میسر آسکتے ہیں۔