اسلام آباد( میاں منیر احمد) وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کے مطالبے پر استعفا دینے سے صاف انکارکرتے ہوئے جمعیت علماء اسلام (ف) کو آزادی مارچ کی مشروط اجازت دے دی ۔یہ فیصلہ اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے قائم کی گئی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ وزیر دفاع پرویز خٹک اور دیگر اراکین کی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد کیا گیا۔ احتجاج کی مشروط اجازت تحریک لبیک دھرنا کیس میں جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے مقرر کیے جانے والے نکات کی روشنی میں دی گئی ہے۔ حکومت کی اجازت دھرنا کے لیے عدالت عظمیٰکے فیصلے کی تابع رہے گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کیس کے فیصلے میں دھرنا دینے والی جماعت کی فنڈنگ‘ رہنمائوں کے ذرائع آمدن‘ ٹیکس دینے کی تفصیلات اور میڈیا پر تشہیر کے بارے میں حکومت کو مکمل رہنمائی دی گئی تھی ۔جے یوآئی نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ دھرنا کے دوران کسی بھی کاروبار زندگی کی سرگرمی میں رکاوٹ نہیں بنے گی اور دھرنا کا مقام بھی طے کرلیا گیا ہے ۔حکومت نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ جے یو آئی کے دھرنا کے خلاف کارروائی کے لیے جسٹس فائز عیسی کیس کے فیصلے سے مدد لے گی۔ حکومت نے اسلام آباد انتظامیہ کو ہدایت کردی ہے جس کی پابندی کرتے ہوئے اسلام آباد انتظامیہ نے ڈی چوک کو جانے والے تمام راستے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور کنٹینرز پہنچا دیے گئے ہیں۔ ڈی چوک کے لیے آب پارہ‘ میلوڈی‘ کلثوم پلازہ چوک‘ جناح ایوینیو‘ فضل حق روڈ کے 3چوراہے بند کردیے جائیں گے اور اس دائرے میں آنے والے تعلیمی ادارے مارکیٹس بند رکھی جائیں گی۔بدھ کو وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ حکومت جمہوری حقوق کے تحفظ پر یقین رکھتی ہے لہٰذا آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پرامن احتجاج کی اجازت ہوگی۔حکومت نے عدالت عظمیٰ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے احتجاج کے لیے طے کردہ قواعد و ضوابط کو مد نظر رکھنے کا حوالہ دیا ہے۔دوسری جانب وفاقی حکومت نے آزادی مارچ کو روکنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں اور دریائے سندھ پر پنجاب اور خیبرپختونخوا کو ملانے والے اٹک پل پر کنٹینرز لگانے کا کام جاری ہے تاہم ٹریفک کے لیے ابھی ایک لین کھلی ہے۔پولیس حکام کے مطابق وزارت داخلہ کا حکم ملتے ہی اٹک پل کو مکمل بند کردیا جائے گا جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ آزادی مارچ کے پیش نظر پشاور سے لاہور جی ٹی روڈ بھی بند کیے جانے کا امکان ہے۔اْدھر اسلام آباد میں آزاد کشمیر، پنجاب اور بلوچستان سے اضافی پولیس نفری طلب کرلی گئی ہے جنہیں ٹھہرانے کے لیے اسلام آباد کی سرکاری عمارتیں خالی کرانے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ادھر وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں سینئر صحافیوں، تجزیہ کاروں اور اینکر پرسنز سے پونے 2 گھنٹے طویل ملاقات میں ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ استعفے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اس طرح ملک کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ وہ ملک کو مشکلات سے نکال کر دکھائیں گے، مہنگائی اور بے روزگاری بڑے مسائل ہیں اور یہ کہ وہ اس پر کام کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی ہر جماعت مختلف بات کر رہی ہے، نہیں معلوم اْن کا ایجنڈا کیا ہے؟ نواز شریف کچھ اورکہتے ہیں، مولانا فضل الرحمنکچھ جب کہ بلاول زرداری اور شہباز شریف کچھ اور کہتے ہیں،مولانا ہر سیاسی جماعت کو الگ الگ ایجنڈا بتاتے ہیں، حکومتی کمیٹی اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے مذاکرات کرے گی تاکہ ان کا ایجنڈا جان سکیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کے احتجاج کا مخصوص ایجنڈہ ہے، بھارتی میڈیا دیکھیں وہاں مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ پر خوشیاں منائی جارہی ہیں، بھارت پہلے مولانا حضرات کے خلاف تھا لیکن آج دھرنے پر خوشیاں منا رہا ہے، اشارے ایسے مل رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کو بیرونی قوتیں مدد کررہی ہیں،اِس دھرنے کا وقت بہت اہم ہے، دھرنے کی وجہ سے کشمیر کے ایشو سے ساری توجہ ہٹ چکی ہے، فی الحال فضل الرحمن کی یہ خواہش ہے کہ مائنس وزیراعظم ہوجائے اور ان کی یہ خواہش اس لیے ہے کہ وزیراعظم کرپشن کے خاتمے کے درپر ہے۔ عمران خان نے کہا کہ پاک فوج حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ اسرائیل چاہتا ہے کہ سعودی عرب اور ایران میں جنگ ہو لیکن پاکستان کی کوشش ہے کہ سعودی عرب اور ایران میں مصالحت کرائی جائے۔
عمران خان