کراچی کے مسائل اور وزیر اعظم کا دورہ کراچی

334

 مضمون کا عنوان پڑھیے اور ٹھنڈی آہ بھریے… کیونکہ ایسا کرنے سے آپ کو کچھ سکون مل جائے گا اور اطمینان حاصل ہوگا۔ ’’سکون‘‘ یا ’’اطمینان‘‘ کے لیے کراچی کے شہریوں کے پاس اب اس کے سوا کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔ اطمینان یہ ہے کہ اب تک حکومت نے ٹھنڈی آہ بھرنے پر کوئی ٹیکس نافذ نہیں کیا۔ یہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ’’مونچھ دار‘‘ چیئرمین کی نااہلی ہوسکتی ہے مگر قائد کے شہر کے لیے باعث خوش قسمتی ہے۔ ’’قائد کے شہر‘‘ سے مراد بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ہیں ہرگز بانی متحدہ نہیں وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ 32 سال تک کراچی پر راج کرنے والے الطاف نے یہاں کے لوگوں کے دل و دماغ پر بھی خوب راج کیا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ آب و ہوا بھی اسی کے کنٹرول میں لگتی تھی ( نعوذ باللہ)۔
عمران خان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ کراچی کے گلشن اقبال و یونیورسٹی روڈ کے جس حلقے سے قومی اسمبلی کا انتخاب 25 جولائی 2018 کوجیت کر وزیراعظم بنے بیٹھے ہیں اس حلقے کی دس لاکھ کی آبادی میں مَیں بھی شامل ہوں۔ خیال تھا کہ عمران خان پورے کراچی کے مسائل نہیں تو کم از کم گلشن اقبال کے مسائل ہی حل کرا دیں گے۔ مگر یہ خیال ایک خوش فہمی ثابت ہوا۔ عمران خان گلشن اقبال سمیت دیگر حلقوں سے بھی کامیاب ہوگئے تھے یا کیے گئے تھے اس لیے انہیں صرف ایک حلقے کے سوا دیگر حلقوں سے دستبردار ہونا تھا۔ دستبرداری کے لیے انہوں نے کراچی کے گلشن اقبال و گلستان جوہر پر مشتمل حلقے کا انتخاب کیا۔ تب ہی شبہ ہوگیا تھا کہ انہوں نے کراچی سے انتخاب کراچی کی محبت میں نہیں بلکہ سیاست کے لیے لڑا تھا سو وہ سیاسی وزیراعظم بن کر خود کراچی کے ساتھ سیاست سیاست کھیل رہے ہیں۔ مجھے دکھ تو ہوتا ہے کہ میرے حلقے کے لوگوں کا دیا ہوا ووٹ اس بار بھی گلشن اقبال کیا پورے کراچی کے مسائل حل نہیں کرسکا۔ لیکن ایک اطمینان ہے کہ عمران خان صرف گلشن اقبال کے لوگوں کو دھوکا نہیں دے رہے بلکہ وہ بانی پاکستان کے شہر کے کروڑوں لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیر رہے ہیں۔ دھوکا دینے والوں سے اللہ ہی نمٹے گا اور ضرور نمٹے گا۔ اس بات کا یقین تو ملک کو مدینے کی ریاست بنانے کا دعویٰ کرنے والے عمران خان کو بھی خوب ہوگا۔
عمران خان نے گلشن اقبال کی نشست پر اپنے جس کارکن عالمگیر خان کو کامیاب کرایا وہ اگرچہ پرانے کراچی کے رہنے والے بلکہ کراچی کے پیدائشی بھی ہیں وہ ایوب خان کے دور میں بلدیہ کراچی کے کونسلر اور چیئرمین منتخب ہونے والے سردار سخی جان کے پڑ پوتے بھی ہیں مگر ان کی ویڈیو بہت دن بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ اپنے ذاتی پلاٹ کے مسئلے پر بطور رکن قومی اسمبلی ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے ڈاکٹر بدر جمیل سے ان کے دفتر میں جواب طلب کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور ڈی جی، کے ڈی اے ایک سرکاری خادم کی طرح کھڑے ہوکر ان کے سوالات کا جواب دے رہے ہیں۔ شہر میں گٹروں کے ڈھکن لگوانے کے لیے متحرک ہونے والے عالمگیر خان اگر اپنے ذاتی پلاٹ پر چائنا کٹنگ ختم کرالیں تو بھی بڑی بات ہوگی مگر اس بات کے امکانات بھی بہت کم ہیں کیونکہ وہ اپنے حلقے گلستان جوہر بلاک تین کے ایک پارک کے پلاٹ نمبر ایس ٹی 15 پر قبضے اور اس پر غیر قانونی بنگلوز کی تعمیرات بھی نہیں رکواسکے بلکہ اس طرح ایم این اے کی حیثیت سے کے ڈی اے حکام سے بازپرس بھی نہیں کی جس طرح وہ اپنے ذاتی پلاٹ کے حصول کے لیے کر رہے تھے۔
خیر عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد چوتھی بار 21 اکتوبر کو کراچی کا دورہ کیا تو شہریوں کو توقع تھی کہ اس بار تو کچھ نہ کچھ کراچی کی بہتری کے لیے بڑا اعلان کر جائیں گے۔ مگر خان صاحب نے تو گزشتہ تین دوروں کی طرح کراچی کے لوگوں کو ’’لولی پاپ‘‘ بھی نہیں دیا۔ بلکہ صاف صاف کہہ دیا کہ ’’کراچی کے مسائل کا حل سندھ حکومت کی ذمے داری ہے، لیکن وفاقی حکومت عوامی فلاح کو مد نظر رکھتے ہوئے ان مسائل کو اپنے وسائل سے حل کرنے کے لیے صوبائی حکومت سے تعاون کررہی ہے‘‘۔ گو کہ وزیر اعظم نے دوسرے الفاظ میں یہ واضح کیا کہ وہ اپنی ذمے داری سمجھ کر نہیں بلکہ عبدالستار ایدھی اور دیگر این جی اووز کی طرح فلاح و بہبود کے نام پر کراچی کے مسائل کے حل کے لیے تعاون کررہے ہیں۔ اب تک تو ان کے اس بیان کو حکومتی ترجمان نے سیاق و سبق سے ہٹ کر قرار نہیں دیا اور نہ ہی اس بارے میں کوئی وضاحت کی۔ تاہم خیال ہے کہ اس کالم کے بعد کوئی وزیر یا کوئی دوسرا شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار اس بیان پر ضرور وضاحت کردے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کراچی کے مسائل حل ہو جائیں گے یا انہیں حل کرنے کے لیے اقدامات شروع کردیے جائیں گے؟
وزیر اعظم کے دورہ کراچی کے حوالے سے ریاستی ریڈیو نے اپنی خبر میں بتایا ہے کہ عمران خان نے کہا کہ ’’کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے لیکن بدقسمتی سے اس شہر کے لوگوں اور مسائل کو ماضی میں نظرانداز کیا گیا‘‘۔ اگر ریڈیو پاکستان کی یہ بات درست ہے تو وزیراعظم صاحب آپ بھی تو یہی کچھ کررہے ہیں جو کچھ ماضی میں حکمران کرتے رہے ہیں۔ ہاں البتہ وزیر اعظم عمران خان نے تمام وفاقی وزرا کو ہدایت کی کہ وہ کراچی کے اراکین اسمبلی کے ساتھ رابطوں میں رہیں۔ اتنا بڑا حکم کراچی کے لیے!! شاید یہ بھی انہوں ’’ازراہ تکلف یا ازراہ مذاق‘‘ دیاہو۔
ویسے عمران خان کی نہ مذاق کی عادت ہے اور نہ ہی وہ تکلفات سے کام لیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے یہ بات طنزاً کہی ہو کیونکہ اب تک اپنے ہوں یا پرائے سب ہی کراچی کے ساتھ طنز و مزاح تو کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کے لوگ یہ بات برملا کرتے ہیں کہ ’’کراچی اور کراچی والوں سے کوئی مخلص نہیں ہے‘‘۔ سندھ حکومت تو صرف اتنا ہی جانتی ہے کہ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘۔ اس کی نظر میں بھٹو کا زندہ رہنا اس کے زندہ رہنے کے مترادف ہے۔