لوگوں کی لوگ جانیں، مجھ جیسا کوتاہ بین و عقل تو کم از کم اس قابل ہے ہی نہیں کہ اپنے وزیر اعظم کی فلسفیانہ باتوں کا ادراک کر سکے۔ وزیر اعظم پاکستان فرماتے ہیں کہ ’’پاکستان سے مقبوضہ کشمیر میں جہاد کی باتیں کرنے والے کشمیریوں سے دشمنی کررہے ہیں اور یہی بھارت چاہتا ہے‘‘۔ یوم سیاہ کشمیر پر اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں کشمیریوں کی سفارتی و اخلاقی مدد کرنی ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے کشمیریوں سے مخاطب ہوتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’میں آپ کا سفیر تو ہوں لیکن میں آپ کا ترجمان اور وکیل بھی بنوں گا اور جب تک مقبوضہ وادی کے لوگوں کو حق نہیں ملتا جدوجہدکرتا رہوں گا‘‘۔
وزیر اعظم نے ایک ہی سانس میں ہر اس پاکستانی کو جو کشمیریوں کے اس برے وقت میں ان کا ساتھ دینا چاہتا ہے اور ان کی جدوجہد میں عملی کردار ادا کرنا چاہتا ہے، منع بھی کیا اور ڈرایا کہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و زیادتی پر آواز اٹھانا اور ان کے لیے کسی بھی قسم کی جدوجہد کرنا کشمیریوں سے دشمنی کرنے کے مترادف ہے کیونکہ بھارت پاکستان سے کشمیریوں کی حمایت میں اٹھنے والی ہر آواز کو اندرونی معاملات میں ’’مداخلت‘‘ کا نام دیکر کشمیریوں پر ظلم و ستم کے مزید پہاڑ بھی توڑ سکتا ہے تو دوسری ہی سانس میں وہ از خود کشمیریوں کے لیے اپنی آخری سانس تک آواز اٹھانے اور جدوجہد کرتے رہنے کی باتیں کررہے ہیں۔ کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم پر اگر عوام آواز اٹھائیں اور ان کے لیے جہاں تک بھی ہو سکے جائیں تو یہ بات وزیر اعظم کی نظر میں کشمیریوں سے دشمنی ہے لیکن اگر وزیر اعظم، یعنی پورا پاکستان، ان کے لیے دنیا کے ہر فورم پر آواز بلند کرے تو یہ عمل نہ تو بھارت کو برا لگے گا اور نہ ہی ان کا یہ قدم کشمیریوں سے دشمنی میں شمار کیا جائے گا۔ بھارت کے ظلم و ستم کے خلاف دنیا کے ہر فورم پر اگر ’’جدوجہد‘‘ کا لفظ استعمال کیا جائے اور کہا جائے کہ ہم بھارت کے ظلم و ستم کو برداشت نہیں کرسکتے اور دنیا کو چاہیے کہ وہ کشمیر میں ہونے والے ظلم کے خلاف عملی کارروائیاں کرے تو نہ تو دنیا کو اس میں اپنے لیے خدشات نظر آئیں گے اور نہ ہی بھارت تحفظات کا اظہار کرے گا لیکن اگر ہمارے منہ سے ’’جہاد‘‘ کا لفظ نکل گیا تو پوری دنیا میں ایک زلزلہ آجائے گا اور بھارت اگر ایک دن میں دس کشمیروں کو مار رہا ہے اور پچاس خواتین کی عصمت دری کررہا ہے تو وہ اس لفظ کو سن کر ہر روز بیس کشمیری شہید کرے گا اور سو سے زیادہ خواتین کی (خدا نخواستہ) عصمت دری کرے گا۔ یہ ہے ایک ایسا فلسفہ جو کم از کم مجھ جیسے جاہل کی سمجھ میں کسی بھی طور آ ہی نہیں سکتا۔
کوئی ہمارے وزیر اعظم کو یہ بات سمجھائے کہ کیا ’’جدوجہد‘‘ اور ’’جہاد‘‘ کے معنی و مطالب ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور جدوجہد کا مطلب صرف منہ سے گولہ باری کرنا ہوتا ہے اور جہاد کا مطلب توپوں کے گولے چلانا ہوتا ہے؟۔ جہدوجہد کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ ظلم کو روکنے کے جتنے بھی پہلو یا طریقے ہوسکتے ہیں ان کو بروئے کار لاکر ظلم و زیادتی کا خاتمہ کیا جائے اور یہی مفہوم لفظِ ’’جہاد‘‘ میں ہے۔ جب دونوں کے مطالب و مقاصد ایک ہی ہیں تو ایک لفظ کے بولنے اور ادا کرنے میں آپ کو طمانیت محسوس ہوتی ہو اور ایک لفظ سے آپ دہشت زدہ ہوجاتے ہوں تو پھر ضروری ہوجاتا ہے کہ آپ اپنا باطن ٹٹولیں اور اس کھوٹ کا سراغ لگانے کی کوشش کریں جو مسلمانوں کی کسی بھی اصطلاح پر آپ کی طبع نازک پر گراں گزرنے کا سبب بن جاتا ہے۔
ایک جانب اس بات کی مسلسل تکرار کہ نہ تو کسی مجاہد کو سرحد کے اْس پار جانے کی اجازت دی جائے گی اور نہ ہی ہم اس جنگ میں عملاً کودیں گے اور دوسری جانب کشمیر میں ڈھائے جانے ظلم و ستم کا ذکر کرتے ہوئے یہ فرمانا کہ بھارت نے ایک لاکھ سے زیادہ کشمیروں کو شہید کردیا ہے، فکر اور سوچ کا ایسا تضاد ہے جس پر اپنا سر ہی پیٹا جاسکتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیریوں پر ظلم و ستم کو ہوتے دیکھ کر یہ کہنا کہ اگر عوام نے ’’جہاد جہاد‘‘ کا شور مچایا تو بھارت اس بات کو بہانہ بنا کر کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ کر رکھ دے گا تو دوسری جانب ایک لاکھ کشمیریوں کے شہید کیے جانے کا ذکر نہایت دردناک بات نہیں؟۔ جب ہماری جانب سے کسی بھی مداخلت نہ کرنے کے باوجود بھارتی درندے اپنی چیرہ دستیوں اور خواتین اور بچیوں کی عصمت دری سے باز نہیں آرہے تو پھر بھی مسلسل ایک ہی بات کہنا کہ ہمارے جہاد جہاد پکارنے اور عملی میدان میں اتر نے سے بھارت کو اپنے ظلم و ستم کی آگ کے شعلے مزید بھڑکانے کا موقع ملے گا، پتھردلی کے سوا اور کچھ نہیں۔
یہاں جو فلسفہ میری سمجھ سے باہر ہے وہ یہ ہے کہ جس کشمیر میں بھارت معصوم مسلمانوں کے لہو سے مسلسل ہولی کھیلتا چلا آرہا ہے اور یہ کھیل ہر آنے والے دنوں کے ساتھ مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے، کیا وہ ہمارا تھا ہی نہیں؟۔ کیا اسی کشمیر کو ہم اپنا کشمیر اور اپنی شہ رگ نہیں کہتے رہے؟، اگر یہ جھوٹ تھا تو 72 سال تک اسی کشمیر کے نام پر قوم کو دھوکے میں کیوں رکھا گیا اور اگر یہ سچ تھا اور ہے کہ کشمیر ہمارا ہی اٹوٹ انگ تھا اور ہے تو پھر اس سے بڑی بے حمیتی کیا ہو سکتی ہے کہ ہمارے سامنے سر بازار ان کی گردنیں کاٹی جارہی ہوں اور سرعام خواتین کی عزتیں لوٹی جارہی ہوں اور ہم بے غیرتوں کی طرح صرف یہی کہتے رہیں کہ گھبراؤ نہیں ’’ہم کھڑے‘‘ ہیں۔ ہم بے حمییتوں کی طرح کھڑے ہیں، بے غیرتوں کی طرح تماشا دیکھ رہے ہیں اور قیامت تک اسی طرح تمہارے اوپر ہر ظلم و ستم کو ہوتا دیکھتے رہیں گے اور اگر قوم کے غیور عوام نے ظلم و ستم کے خلاف کوئی آواز بلند کی تو ہم ان کا گلا اس خوف سے گھونٹ دیں گے کہ بھارت ہمارے زیر تسلط کشمیر پر بھی حملہ آور نہ ہوجائے لیکن ہم سرحد (ایل او سی) کے اس پار ہونے والے ظلم پر بولنا تو بولنا، خونخوار نظروں سے بھی نہیں دیکھیں گے۔
جس ملک کے حکمرانوں کے فہم و فراست کا یہ عالم ہو اور جو لفظ جہاد سے ہی چڑ رکھتے ہوں ان کے متعلق یہ گمان رکھنا کہ وہ پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنا دیں گے، سخت بھول اور نادانی کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایاک نعبد وایاک نستعین کہنے والے اپنے ایک ایک عمل سے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ مدینے کے ان منافقوں میں سے ہیں جو مسلمانوں میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں اور جب کافروں میں بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو ان (مسلمانوں) کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ مذاق تو اللہ ان کے ساتھ کر رہا ہے اور میرے اللہ کی یہ بات غلط کیسے ہو سکتی ہے۔ میں موجودہ حکومت کی ہر منافقانہ پالیسیوں کے جواب میں اتنا ہی عرض کر سکتا ہوں کہ یہ پاکستان کو مدینے کی نہیں ’’یثرب‘‘ کی ریاست بنانے پر تلے ہوئے ہیں جہاں ابوجہل، ابولہب اور شیبہ جیسے لوگ ہوا کرتے تھے، ابوبکر و عمر اور عثمان و علی جیسے فرزندان توحید و رسالت نہیں ہوتے تھے۔ ان حکمرانوں کی سوچ اور ان کی منافقانہ باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ اللہ پاکستان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔