شام کا تازہ بحران

224

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا ترکی پر شمالی شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرنے پر عائد کی گئی اقتصادی پابندیاں ختم کر رہا ہے۔ امریکا کا یہ فیصلہ روس کے شام کی سرحد پر جنگ بندی میں توسیع کے لیے فوج کی تعیناتی پر ترکی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت روسی اور شامی افواج اس بات کی نگرانی کریں گی کہ کرد فورسز ترکی اور شام کی سرحد پر واقع تیس کلومیٹر راہداری سے نکل کر ان علاقوں کا قبضہ روسی اور شامی افواج کے حوالے کریں گی۔ واضح رہے کہ ترکی نے کرد جنگجوئوں کے خلاف کارروائی کا آغاز رواں ماہ کے شروع میں صدر ٹرمپ کے شمالی شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے غیر متوقع اقدام کے فوراً بعد کیا تھا۔ دوسری جانب ترکی کے ساتھ ساتھ ڈیموکریٹس اور ریپبلکن جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی صدر ٹرمپ کے شام سے اچانک فوجی انخلا کے فیصلے پر شدید تنقید کی تھی کیونکہ ترکی کی جانب سے نشانہ بنائے جانے والے کرد اس خطے میں داعش کے خلاف جنگ میں امریکا کے کلیدی حلیف تھے۔ صدر ٹرمپ کا ترکی پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ترک حکومت نے امریکی انتظامیہ کو شام میں فوجی کارروائی روکنے سے متعلق یقین دلایا ہے کہ وہ شام میں مستقل طور پر جنگ بندی برقرار رکھے گا۔ ان پابندیوں کے خاتمے کی کڑیاں اصل میں امریکی نائب صدر مائیک پینس اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے حالیہ مشترکہ دورہ انقرہ سے ملتی ہیں جس میں وہ ترک حکام کو یہ باورکرانے میں کامیاب رہے ہیں کہ امریکا نہ صرف ترکی کی سا لمیت کا احترام کرتا ہے بلکہ وہ ترکی کے خلاف برسرپیکار کرد جنگجوئوں کی سرکوبی میں بھی ترکی کی حمایت جاری رکھے گا۔ یہاں اس امر کی نشاندہی ضروری ہے کہ ترکی شام کی سرحد سے متصل 30 کلو میٹر تک کے شامی علاقے کو ’سیف زون‘ بنا کر ترکی میں موجود کم و بیش 20 لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کو وہاں ٹھیرانا چاہتا ہے اس لیے ترکی کا مطالبہ ہے کہ کرد جنگجو شمالی شام کی متذکرہ 30 کلومیٹر کی حدود سے نکل جائیں تاکہ ترکی ان 20لاکھ شامی مہاجرین کو یہاں بسا سکے جو خانہ جنگی کے باعث پچھلے کئی سال سے ترکی میں قیام پزیر ہیں۔ دوسری جانب شام کے صدر بشار الاسد نے شام میں بیرونی مداخلت پر تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن ماسکو کا کہنا ہے کہ انہوں نے صدر پیوٹن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے شام اور ترک سرحد پر روسی فوج کے ساتھ شامی سرحدی گارڈز کی تعیناتی پر نہ صرف رضامندی ظاہر کی ہے بلکہ مشترکہ افواج کی تعیناتی کا یہ عمل شروع بھی کردیا گیا ہے۔ اس ساری صورتحال کو اگر تنقیدی نظر سے دیکھا جائے تو اس میں سب سے زیادہ خسارے کا سامنا امریکا کو کرنا پڑا ہے جسے اگر ایک طرف ترکی پر ڈالے جانے والے اپنے غیر اخلاقی دبائو اور اقتصادی پابندیوں کو واپس لینا پڑا ہے تو دوسری جانب ترکی نے کمال ہوشیاری سے امریکا کی تمام تر مخالفت کے باوجود اس نازک مرحلے پر روس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے جہاں امریکا کو نپاتلا جواب دیا ہے وہاں وہ روس اور کسی حد تک شامی حکومت کی معاونت سے اپنے دیرینہ مطالبے یعنی اپنی سرحدوں سے امریکا کے زیر اثر کرد جنگجوئوں کو ہٹانے میں بھی کامیاب رہا ہے۔
ترکی نے 1998 میں شام کو دھمکی دی تھی کہ اگر شام نے اپنی سرزمین سے کرد باغی رہنما عبداللہ اوجلان کو بے دخل اور ترک کرد رہنمائوں کی مدد کرنا بند نہیں کی تو ترکی ان کے خلاف فوجی کارروائی کرے گا۔ اتحادیوں اور امریکی کمانڈروں کی طرف سے جب کردوں کے بارے میں خدشات ظاہر کیے گئے تو صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر ترکی نے حملہ کیا یا شامی سرحد پر 20 میل طویل محفوظ علاقے قائم کرنے کی بات کی تو ترکی کو اقتصادی طور پر برباد کر دیا جائے گا۔ دوسری جانب ترک حکومت کا اصرار ہے کہ وائی پی جی، پی کے کے کا ایک جز ہے جو ترکی کے اندر کردستان کی خود مختاری کے لیے 1984 سے برسرپیکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وائی پی جی اور پی کے کے کا نظریہ ایک ہی ہے لیکن وہ دو علیحدہ علیحدہ تنظیموں کے طور پر کام رہی ہیں۔
اس حقیقت سے ہرکوئی واقف ہے کہ عرب اور کرد ملیشیاؤں پر مشتمل شامی ڈیموکریٹک فورسزکے جنگی اتحاد میں وائی پی جی کو بالادستی حاصل ہے۔ یاد رہے کہ ایس ڈی ایف نے امریکی فضائی مدد اور فراہم کیے گئے ہتھیاروں سے شمال مشرقی شام میں دسیوں ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ داعش سے خالی کرا یا تھا جس میں بعد ازاں ایک خود مختار انتظامیہ قائم کر دی گئی تھی جہاں پانچ سے دس لاکھ کرد اور کم از کم 15 لاکھ عرب آباد ہیں۔ صدر اردوان نے اس سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں بھی کہا تھاکہ وہ پی کے کے اور وائی پی جی کے دہشت گردی کے ڈھانچے کو ختم کرنے کے بارے میں پر عزم ہیں جب کہ انہوں نے اس موقع پر وائی پی جی کے زیرکنٹرول شمالی شام کے سرحدی علاقے میں پرامن راہداری بنانے کا اعلان بھی کیا تھا جہاں ان کے بقول دس اضلاع اور 140 دیہات ہوں گے جن میں دس سے بیس لاکھ شامی پناہ گزینوں کو آباد کیا جائے گا لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اس اعلان کو عملی جامہ کب اور کیسے پہناتے ہیں۔