جب ’’جہاد‘‘ کے ساتھ واردات ہوئی

202

 

 

وزیر اعظم عمران خان نے کشمیر کے یوم سیاہ کے موقع پر اپنے ایک وڈیو پیغام میں کشمیریوں کو سفارتی سیاسی اور اخلاقی حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے مقبوضہ کشمیر میں جہاد کی باتیں کرنے والے کشمیریوں اور پاکستان سے دشمنی کر رہے ہیں۔ بھارت یہی چاہتا ہے کہ دہشت گردی کی آڑ میں اسے کشمیریوں کا قتل عام کرنے کا موقع ملے۔ عمران خان ریاست پاکستان کے نمائندہ اور وزیر اعظم ہیں۔ انہیں پاکستان کی مجبوریوں، مشکلات اور رکاوٹوں کو مدنظر رکھنا ہے۔ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ بھارت نے امریکا کے ساتھ مل کر پاکستان کے ہاتھ پیر کشمیر میں باندھنے کے لیے برسوں محنت کی ہے۔ بھارت نے پہلے امریکی پالیسی ساز اداروں کو یہ باور کرایا کہ امریکا اور بھارت دونوں اسلامی شدت پسندی اور دہشت گردی کے شکار ہیں اور یوں بھارت نے امریکا کے ساتھ مظلومیت کا رشتہ استوار کیا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان امریکا کی طاقت کی راہداریوں سے باہر ہوتا چلا گیا اور اس خلا کو بھارت نے کاناپھوسی اور سازش سے پُر کیا۔ بھارت نے امریکا کو باور کرایا کہ پاکستان بطور ریاست جہادیوں کی فیکٹری اور پاکستانی فوج جہادیوں کی سرپرست ہے۔ اس پر مستزاد پاکستان کا ایٹم بم ہے جس سے بھارت ہی کو نہیں امریکا کو خطرات لاحق ہیں۔ امریکا اور بھارت کایہ رشتہ وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوگیا۔ بھارت کے زیر اثر امریکا نے پہلے اپنے قوانین میں پاکستان اور کشمیریوں کو دہشت گردی سے جوڑ دیا پھر اقوام متحدہ کے ذریعے بھی اسی سے ملتے جلتے فیصلے کرائے گئے۔ اسی عرصے میں امریکا نے بھارت کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر قراردیا۔ نائن الیون کے وقت امریکا اور بھارت نے پاکستان کی کلائی مروڑنے اور اس کا امیج برباد کرنے اور پابندیوں کا شکار کرنے کے لیے جو بیج بویا گیا تھا آج وہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کی بھول بھلیوں میں اُلجھانے کے تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے سر پر بلیک لسٹ کی تلوار لٹکانے کا مقصد اسے کشمیر میں کسی عملی کردار سے روکنا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بھارت نے پانچ اگست کے فیصلے کی طویل المیعاد منصوبہ بندی کے دوران ہی ایف اے ٹی ایف کے ذریعے پاکستان کو جکڑے رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی تھی۔ اب پاکستان ایف اے ٹی ایف میں اپنی کارکردگی رپورٹ اور صفائیاں پیش کرنے پر مجبور ہے۔
بھارت نے امریکا کو یہ باور کر ایا تھا کہ پاکستان کا ایٹم بم اتوار بازار میں رکھی کوئی گاجر مولی نما چیز ہے جسے کسی روز اسامہ بن لادن اُٹھا کر لے جائے اور پھر اسے امریکا بھارت یا اسرائیل پر ٍداغ دے گا۔ ایک پوری دہائی اس مضحکہ خیز تصور اور الزام کی نذر ہوگئی۔ پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک ثابت کرکے اس کا بین الاقوامی تشخص خراب کرنے کی مہم پورے زوروں پر رہی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب فلسطین میں مزاحمت غلیل کے دور سے آگے نکل کر فدائی حملوں کے دور میں داخل ہو چکی تھی اور ان حملوں سے اسرائیل کی چولیں ہل رہی تھیں۔ اسرائیل کے شہری خوف ودہشت کی تصویر بنے تھے اور عین ممکن تھا کہ اسرائیل سے آبادی کا انخلا دوبارہ یورپ کی طرف ہوجائے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے بے بسی سے اعلان کیا تھا کہ چلتے پھرتے بموں کو روکنا ہمارے بس میں نہیں۔ امریکا نے اسرائیل کو اس عذاب سے نجات دلانے کے لیے فلسطین کی قیادت کو یکے بعد دیگرے میزائل حملوں کا شکار بنایا۔ حماس کے بانی اور فکری راہنما شیخ احمد یاسین اور اس کے بعد ان کے شعلہ بیاں جانشین عبدالعزیز رنتیسی کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنانے کے علاوہ فلسطین کے دائیں بائیں عرب ملکوں کو دبائو میں لاکر فدائی حملے بند کرادیے۔ کشمیر میں بھی فدائی طرز جنگ نے بھارت کی چیخیں نکال دی تھیں کہ امریکا نے بھارت کو اس کیفیت سے باہر نکالنے کے لیے پاکستان پر چہار جانب سے دبائو ڈالوانا شروع کیا کہ وہ کشمیریوں کو اس طرز جنگ سے بازرکھنے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کرے۔ اس کے لیے امریکی اداروں میں قانون سازی کے علاوہ اقوام متحدہ کا کندھا استعمال کیا۔ کشمیرکی تحریک مزاحمت کے کئی ناموں کو گلوبل ٹیررسٹ قرار دے کر عالمی نظام میں نشان زدہ بنا کر رکھ دیا گیا۔ اعلان اسلام آباد میں دونوں ملک اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا وعدہ کربیٹھے بلکہ دہشت گردی کے مقابلے کے مشترکہ میکنزم تیار کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ یہ الگ بات کہ ان لکھے ہوئے لفظوں پر عمل کرنے کی نوبت کبھی نہ آسکی۔
پانچ اگست کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات اور تعلقات کا میک اپ اور لیپا پوتی دھل گئی ہے اور دونوں ملک بہت کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ عمران خان ریاست پاکستان کے وزیر اعظم کے طور اپنے شہریوں کو جہاد سے روک سکتے ہیں اور قانون کی علمداری یقینی بنا سکتے ہیں مگر وہ کشمیر جیسے ایک آشوب زدہ علاقے کے لوگوں کو جدوجہد کا کوئی بھی انداز روکنے پر قادر نہیں۔ جس نوجوان کو بھارتی فوج کے ہتک آمیز رویوں اور تھانوں اور جیلوں میں غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑے اسے بین الاقوامی قانون کی تشریح سے غرض نہیں ہوتی۔ اس کے جوابی غصے کو اظہار کے لیے مخصوص سانچوں کا پابند نہیں بنایا جا سکتا۔ جن لوگوں سے بھارت نے امید چھین لی ہے وہ قانون بین الاقوام کے ادب آداب کے پابند کیوں کر ہو سکتے ہیں۔ حکومت پاکستان کا اختیار ہے کہ وہ اپنے کسی شہری کو کنٹرول لائن عبور کرنے دے یا باز رکھے مگر ایک عام کشمیری کا اختیار ہے کہ وہ استخلاصِ وطن کی تحریک میں مزاحمت کا کون سا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ جہاں نوجوان لڑکیاں اور خواتین یہ کہیں کہ بھارت نے ان کے لیے بندوق اُٹھانے کے سوا کوئی راستہ نہیں چھوڑا وہاں نوجوانوں لڑکوں کو قانون بین الاقوام پر لیکچر دینے کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے جن کے لیے بھارت نے جہاد، مزاحمت اور طاقت کے مقابل طاقت کے استعمال کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں رکھ چھوڑا۔