اجارہ داری

188

 

 

۔1980کی دہائی سے حکومت دینی مدارس وجامعات کے بارے میں ’’اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان‘‘ کی رکن پانچ تنظیموں سے مکالمہ کرتی رہی ہے، حکمران تبدیل ہوتے رہے، لیکن ریاستی ڈھانچہ تو وہی ہے، حتیٰ کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے، جبکہ ساری ریاستی قوت اور اقتدار ان کی ذات میں مرکوز تھا، ایک بار تقریباً چار گھنٹے مسلسل انہی تنظیمات کے ساتھ مکالمہ کیا۔ حکومت کی طرف سے جنابِ صدر کے ساتھ اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احسان الحق، وفاقی وزیر مذہبی امور اعجاز الحق اور سیکرٹری مذہبی امور وکیل احمد خان موجود تھے۔ بعد ازاں ہر حکومت ان تنظیمات کو دینی مدارس وجامعات کا نمائندہ سمجھ کر مکالمہ کرتی رہی، معاہدات بھی ہوئے، مفاہمتی دستاویزات پر دستخط بھی ہوئے، اس کا سارا ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے اور اب اداروں کے پاس بھی ہے۔
مولانا طاہر اشرفی نے ایک بار چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ علماء کی نشست میں اور دوبارہ 18اکتوبر کو وزیرِ اعظم ہائوس میں وزیر اعظم کی موجودگی میں کہا: ’’حکومت نے ان تنظیمات کو اجارہ داری دے رکھی ہے، دوسرے اداروں کو بھی موقع دیا جائے‘‘۔ اس میں انہوں نے اپنی تنظیم پاکستان علماء کونسل، وفاق المساجد، جامعۃ الرشید اور پیر امین الحسنات شاہ کے اداروں کا نام لیا۔ پیر امین الحسنات شاہ کا اپنے مدارس کا ایک نیٹ ورک موجود ہے، اگرچہ اس کا سائز تنظیمات کے مقابلے میں بہت کم ہے، تنظیماتِ مدارس کی طرح ان کی جاری کردہ اَسناد وشہادات کی قانونی حیثیت بھی مسلّم ہے، نہ ہمیں ان پر کوئی اعتراض ہے اور نہ انہیں ہم سے کوئی شکایت ہے، تنظیماتِ مدارس کے معاہدات کا اُن پر اطلاق نہیں ہوتا، کیونکہ وہ میٹرک پاس طلبہ وطالبات کو داخلہ دیتے ہیں۔
پس اگر حکومت مولانا طاہر اشرفی کے تجویز کردہ کسی اور ادارے کو کوئی حیثیت دینا چاہتی ہے، تو ریاست وحکومت کو یہ حق حاصل ہے، وہ جب چاہے انہیں یہ حیثیت دے سکتی ہے، ہم روکنے والے کون ہوتے ہیں اور اگر مولانا طاہر اشرفی کے توسط سے کچھ مدارس وجامعات حکومت کے تابع ہوسکتے ہیں، تو حکومت بصد شوق اس کا تجربہ کرلے، یہ حکومت کے لیے سستا سودا ہوگا۔ ہماری تنظیمات کے ساتھ جن مدارس وجامعات کا الحاق ہے، ان کی فہرست حکومت اور اداروں کے پاس موجود ہے، حکومت جب چاہے چیک کرسکتی ہے، نیز حکومت کی طرف سے آئی بی سی سی (Inter Board Committee of Chairmen) کے افسرانِ بالا کا ایک وفد ہماری تنظیمات کے مرکزی دفاتر میں آکر ہمارے نظام کو دیکھ چکا ہے اور اس کی تحسین کرچکا ہے۔
ہم نہ اجارہ دار ہیں اور نہ ہمیں اجارہ داری کا شوق ہے، ہمارے ساتھ جو دینی مدارس وجامعات ملحق ہیں، وہ رضاکارانہ طور پر ہیں، کسی جبر کے تحت نہیں ہیں اور وہ فیس دے کر ہمارے ساتھ الحاق کرتے ہیں، ان میں سے کوئی ہم سے الگ ہونا چاہے تو ہمارے پاس کوئی حکومتی طاقت نہیں ہے کہ ہم انہیں جبراً اپنے ساتھ جوڑے رکھیں، ہمارے اور اُن کے درمیان وحدتِ مسلک کے ساتھ ساتھ اعتمادکا رشتہ بھی ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ہم دینی مدارس وجامعات کی حریتِ فکر وعمل کے لیے کئی دہائیوں سے مسلسل جدوجہد میں مصروف ہیں۔
حکومت مولانا طاہر اشرفی یا کسی اور کو کوئی اسٹیٹس دینا چاہتی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اسی طرح انہوں نے ایک سوال یہ اٹھایا کہ حکومت کے قائم کردہ پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پر کوئی اہل چیئرمین نہیں رکھا گیا، سو اگر حکومت مولانا طاہر اشرفی کو اس کا چیئرمین بنادے یا کوئی اور منصب دینا چاہے تو بصد شوق یہ تجربہ کرے، نہ ہمیں کوئی اعتراض ہے اور نہ پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے کچھ لینا دینا ہے۔ ہم نے روزِ اول سے اسے قبول نہیں کیا، پیشکش کے باوجود اس کی گورننگ باڈی کی رکنیت قبول نہیں کی اور 2002 سے آج تک ہم سے ملحق کسی ادارے نے ان سے الحاق نہیں کیا۔ اگر کوئی تاسیس سے لے کر آج تک اس ادارے پر ہونے والے اخراجات اور اس کے نتائج کا تجزیہ کر کے پیش کرے، تو سب کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ سابق سیکرٹری مذہبی امور وکیل احمد خاں ہماری موجودگی میں اس کو ختم کرنے کی سفارش کرچکے تھے اور موجودہ وزیرِ مذہبی امور ڈاکٹر پیر نورالحق قادری بھی اس سے دستبردار ہونے کے لیے ہر وقت آمادہ ہیں، کیونکہ وہ سمجھ چکے ہیں کہ یہ حکومت کے لیے بوجھ ہے، اثاثہ نہیں ہے۔ آغا شورش کاشمیری ایسی نادر روزگار پروڈکٹ کے لیے یہ محاورہ استعمال کرتے تھے: ’’چوبِ مسجد ہے، نہ سوختنی نہ فروختنی‘‘۔ طنزومزاح کے حوالے سے معروف شاعر دلاور فگار نے احمد فراز کی بحر میں لکھا تھا:
سنا ہے عشق میں مشکل ہے میٹرک کرنا
رزلٹ کچھ بھی سہی، فارم بھر کے دیکھتے ہیں
سو حکومت اس کے حوالے سے کوئی نئے تجربات کرنا چاہتی ہے تو ضرور کرے، یہ ہمارا دردِ سر نہیں ہے۔ مولانا طاہر اشرفی کو ہم سے شکایت رہتی ہے، ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ جہاں رہیں خوش رہیں، حکومت ان کو کوئی منصب دینا چاہے تو اس کے لیے ہماری منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت نے پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے تحت پانچ ماڈل مدارس قائم کیے تھے۔ مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے چیف آف آرمی اسٹاف کے ساتھ ایک میٹنگ میں بتایا: ’’ہمارے پاس سرکاری مدرسے والے آئے کہ ایک بیرونی وفد ماڈل مدرسہ دیکھنا چاہتا ہے، ہمارے پاس تو دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے، آپ ہمیں اجازت دے دیں کہ ہم انہیں لاکر آپ کا دارالعلوم دکھادیں‘‘۔ مولانا اسعد تھانوی نے بتایا: ’’میں حکومت کے زیرِ انتظام سکھر کا ماڈل مدرسہ دیکھنے گیا، وہاں اساتذہ کی تعداد طلبہ سے زیادہ تھی‘‘۔
حکومت کے ساتھ تعامل کے سبب جب بعض حقائق سامنے آتے ہیں تو ہم حیرت میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ کیا حکومت کی پالیسیاں روزانہ کی بنیاد پر بنائی جاتی ہیں، کیا حکومت کے اداروں کومعلوم نہیں کہ برسرِ زمین کسی شعبے سے وابستہ کسی شخص کی اپنے طبقے میں مقبولیت کا گراف کیا ہے، سو اداروں کو وقت گزاری کے لیے ایک فوٹو سیشن مطلوب ہوتا ہے اور بس۔ تنظیماتِ مدارس موجود ہیں، ان کے اسٹیک ہولڈر بھی موجود ہیں، مگر ان کی پالیسی کوئی غیر متعلقہ شخص بیان کر رہا ہوتا ہے۔ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سربراہ مولانا قاضی نیاز حسین نقوی نے مجھ سے کہا: آپ حکومت کے ذمے داران سے کہہ دیں کہ مختلف الخیال لوگوں کے اجتماعات میں ہمیں نہ بلایا کریں، ہاں! اگر دینی مدارس وجامعات کے مسئلے پر ہم سے بات کرنی ہو تو ہم حاضر ہیں، لیکن اُسے جلسۂ عام نہ بنایا کریں، حکومت کے پاس اس مقصد کے لیے اور بھی کئی عنوانات ہوسکتے ہیں۔ حکومت آئی بی سی سی کے توسّط سے سرکاری تعلیمی بورڈز میں ’’درسِ نظامی گروپ‘‘ بھی متعارف کراچکی ہے، لیکن اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوا، آیا اُسے کوئی پزیرائی ملی۔
ہم ایک سے زائد بار وضاحت کرچکے ہیں کہ ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے، اس کے لیے لبرل سیاسی جماعتیں اور مختلف مکاتبِ فکر کی مذہبی سیاسی جماعتیں میدانِ عمل میں موجود ہیں، ہم ان میں سے نہ کسی کے حریف ہیں اور نہ حلیف، ان کا میدانِ عمل سیاست ہے اور ہمارا میدانِ عمل تعلیم وتعلّم ہے، ہردور کی حکومتیں اور بعض غیرملکی قوتیں جنہیں ہمارے دینی مدارس وجامعات کی ہمیشہ فکر لاحق رہتی ہے، اس حقیقت کو بخوبی سمجھتی ہیں۔ ہمیں کہا گیا تھا: ’’تنظیماتِ مدارس اگر ہماری خواہش کے مطابق نہ چلیں تو ہمارے پاس متبادل انتظامات بھی ہیں‘‘۔ تین تنظیمات تو سائز کے اعتبار سے نسبتاً چھوٹی ہیں، رابطۃ المدارس کی پشت پر جماعتِ اسلامی ہے، سو دو بڑی تنظیمات میں سے سب سے پہلے ’’تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان‘‘ پر نظر کرم ہوئی اور تقسیم کے لیے تجرباتی طور پر ہمارا انتخاب کیا گیا، کیونکہ سہل پسند لوگ سب سے پہلے اس طبقے کا انتخاب کرتے ہیں جہاں ’’برائے خدمت دستیاب لوگ‘‘ آسانی سے مل جائیں۔
سوہم پر جو کرم فرمائی ہوئی، اس کے بارے میں اپنی تنظیم سے ملحق دینی مدارس وجامعات کے سربراہان کی آگاہی کے لیے گزشتہ دنوں چند حقائق تحریر کیے تھے، میں نے وزیر اعظم سے بھی سوال کیا: ہمیں بتایا جائے کہ ہمارے ساتھ یہ ’’حسنِ سلوک‘‘ کس کے اشارے پر ہوا۔ لاہورہائی کورٹ سے ہمارے الیکشن کو ملتوی کرانے کی پٹیشن خارج کیے جانے کا کورٹ آرڈر جاری ہونے کے بعد ڈی سی ساہیوال کی کیا مجال کہ وہ الیکشن کو روکنے کا نوٹیفکیشن جاری کرے، کیا ڈی سی کا عہدہ لاہور ہائی کورٹ سے بالا تر ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے عدالتی حکم نامے میں لکھا تھا: ’’تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان پرائیویٹ ادارہ ہے، اس کے معاملات میں کسی کو دخل اندازی کی ضرورت نہیں ہے‘‘، ہمارے لوگوں کو آفتابِ نصف النہار کی طرح یقین ہے کہ ہمارے ساتھ یہ سلوک طاقت کے کسی مرکز کے ایما پر ہوا ہے، وزیر اعظم کے پوچھنے پر اجلاس میں موجود سیکرٹری داخلہ نے کہا: ’’ہم نے کوئی ایسی ہدایت جاری نہیں کی‘‘، اس پر میں نے کہا: ’’کوئی تو ہمیں بتائے کہ پھر کس کے ایما پر پاکستان بھر سے آئے ہوئے مدارسِ اہلسنت کے مہتممین و ناظمین کی دل آزاری کی گئی، اذیت پہنچائی گئی، راستوں پر ناکے لگاکر انہیں روکا گیا، وہ سب تفسیر وحدیث پڑھانے والے علماء تھے، جن کے بارے میں کسی فساد کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
اس لیے میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا: ’’ڈی سی ساہیوال کی طرف سے ایک انتہائی حساس وقت میں یہ اقدام کیا گیا ہے، اس پر ہم سب کے دل دکھی ہیں اور اگر ہمارے نظامِ ریاست وحکومت میں ہمیں انصاف نہیں ملتا، تو پھر ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فریاد کرنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا‘‘۔ بعض اوقات قدرت کی طرف سے مہلت دراز ہوجاتی ہے، اسے طاقتور لوگ اپنی کامیاب حکمتِ عملی کا نتیجہ قراردیتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں، قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، ہم ان کو بتدریج اس طرح تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ ان کو پتا بھی نہیں چلے گا اور میں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں، بے شک میری خفیہ تدبیر بہت مضبوط ہے، (الاعراف: 182-183)‘‘۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا:
مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے