دیکھنے ہم بھی گئے تھے‘ پر تماشا نہ ہوا

268

مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ آزادی مارچ میں جلسہ بھی ہے، دھرنا بھی ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ چناں چہ جلسہ تو ہوچکا ہے، دھرنا جاری ہے اور دھرنے کے علاوہ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ حکومت کی مذاکراتی ٹیم اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ آزادی مارچ کے شرکا اسلام آباد کے باہر پشاور موڑ پر پڑائو ڈالیں گے، وہیں جلسہ ہوگا، مولانا فضل الرحمن سمیت تمام اپوزیشن رہنما جلسے سے خطاب کریں گے، حکومت پر خوب گرجیں برسیں گے، پھر سب لوگ اپنی اپنی راہ لیں گے۔ حکومت کو یہ امکانی صوتِ حال دل و جان سے قبول تھی، چناں چہ اس نے راستے کھلے رکھے اور آزادی مارچ کے شرکا کا چاروں صوبوں سے یلغار کرتے ہوئے اسلام آباد کے نواح میں لنگر انداز ہوگئے۔ خیمے لگ گئے، قناتیں تن گئیں، چولہے روشن ہوگئے اور لوگ کھانے پینے میں مصروف ہوگئے۔ یہ لوگ سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور پنجاب سے 27 اکتوبر کو نکلے تھے راستے میں مختلف مقامات پر عارضی پڑائو بھی کیا اور 30 اکتوبر کی شام تک بیشتر قافلے منزل پر پہنچ گئے۔ خیال تھا کہ حسبِ پروگرام 31 اکتوبر کو جلسہ ہوگا اور ’’کھیل ختم پیسہ ہضم‘‘ کا آخری منظر دیکھ کر پوری قوم سُکھ کا سانس لے گی۔ الیکٹرونک میڈیا مولانا فضل الرحمن کو کئی ماہ تک نظر انداز کرنے کے بعد اب ان کے آزادی مارچ کو براہِ راست دکھا رہا تھا اس کے لیے انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کو بلیک آئوٹ کرنا اب ممکن نہ تھا، پھر اچانک مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے 31 اکتوبر کا جلسہ ایک دن کے لیے ملتوی کرنے کا اعلان کرکے سنسنی پھیلادی۔ مولانا کے اتحادیوں کا کہنا تھا کہ انہیں اس التوا کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اے این پی کے قائد اسفند یار ولی اپنے لائو لشکر کے ساتھ 31 اکتوبر کو جلسہ گاہ میں پہنچ چکے تھے، وہ بہت برہم تھے اور مُصر تھے کہ وہ پروگرام کے مطابق آئے ہیں اور جلسہ سے خطاب کرکے واپس چلے جائیں گے۔ پیپلز پارٹی کے لیڈروں کا مؤقف بھی یہی تھا کہ ان کے چیئرمین بلاول زرداری نے مولانا کی دعوت پر 31 اکتوبر کا دن جلسے میں شرکت کے لیے فارغ رکھا ہے وہ بھی اسی روز جلسے سے خطاب کریں گے۔ بعض لوگوں کو یہ کہتے بھی سنا گیا کہ مسلم لیگ (ن) نے 31 اکتوبر کا جلسہ ملتوی کرکے آزادی مارچ کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی ہے۔ لوگوں نے آزادی مارچ کے شرکا کے ساتھ لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی سرد مہری کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ بہرکیف مسلم لیگ (ن) نے جلسہ ملتوی کرنے کا اعلان کرکے جو منفی تاثر پھیلایا تھا اس کا ازالہ مولانا نے یوں کیا کہ جو لیڈر 31 اکتوبر کو خطاب کرنے آئے تھے انہیں سابقہ پروگرام کے مطابق جلسہ کرنے کی اجازت دے دی اور خود شہباز شریف کے ہمراہ اگلے روز نمازِ جمعہ کے بعد خطاب فرمایا۔ انہوں نے جو کچھ کہا وہ اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا میں تفصیل سے رپورٹ ہوچکا ہے بلکہ براہ راست دکھایا جاچکا ہے اور اس پر فوج کا دوٹوک ردعمل بھی سامنے آچکا ہے۔ حکومتیں احتجاجی مارچ، جلسے یا دھرنے سے نہیں جایا کرتیں، اس کا تجربہ عمران خان اپنے طویل دھرنے کے ذریعے کرچکے ہیں۔ انہوں نے یہ تاثر پھیلا رکھا تھا کہ بس امپائر کی انگلی اُٹھنے کی دیر ہے، ساری بساط لپیٹ دی جائے گی، لیکن وہ انتظار کرتے ہی رہ گئے نہ امپائر کی انگلی اُٹھی نہ کوئی اور معجزہ رونما ہو۔ اب یہی صورت حال حضرت مولانا کو بھی درپیش ہے، ان کے رفقا نے بھی یہ تاثر پھیلایا تھا کہ فوج ان کی پشت پر ہے اور وہ عمران خان کا پتّا کاٹنا چاہتی ہے۔ آزادی مارچ، حافظ حمد اللہ اور مفتی کفایت اللہ کے حق میں عدالتی فیصلوں سے بھی یہ تاثر گہرا ہوا تھا کہ ہوا کا رُخ حضرت مولانا کی جانب ہے اور جلد ہی کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے لیکن فوج نے اپنا وزن حکومت کے پلڑے میں ڈال کر یہ سارا تاثر زائل کردیا۔
اب آئندہ دوچار دن میں کیا ہوتا ہے، ہم فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن یہ حقیقت ہے کہ حضرت مولانا نے بے مثال آزادی مارچ، جلسہ اور دھرنا دے کر اپنا سیاسی وزن منوالیا ہے۔ یہ ان کا ون پارٹی شو تھا، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں نے اس شو میں اپنی رونمائی کرکے اپنے سیاسی قد کاٹھ کو بڑھانے کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔ اِن دونوں سیاسی جماعتوں کے کارکن اس شو سے دور رہے۔ عام آدمی اگرچہ عمران خان کی حکومت سے بہت نالاں ہے لیکن وہ بھی اس شو سے دور رہا، البتہ جو لوگ گئے وہ شاعر کی زبان میں یہ توقع رکھتے تھے کہ
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
حضرت مولانا فضل الرحمن نے عمران حکومت کو گرانے کے لیے جو محنت کی اس کا سارا فائدہ بھارت نے اُٹھایا۔ محترم سراج الحق کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ حکومت اور اپوزیشن نے تحریک آزادی کشمیر کو کنٹینر سیاست کی نذر کردیا ہے، پاکستان اپنے داخلی تضادات میں اُلجھا رہا اور بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے وہاں اپنے گورنر مقرر کردیے، تین ماہ سے زیادہ عرصہ ہوگیا کشمیری عوام کرفیو کے حصار میں اپنے تمام بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ ہندوئوں کو مقبوضہ ریاست میں جائداد خریدنے اور رہائش رکھنے کی اجازت دے دی گئی ہے، ریٹائرڈ فوجیوں کو مقبوضہ علاقے میں ریاستی زمینیں الاٹ کی جارہی ہیں اور مقبوضہ ریاست میں مسلم اکثریت اور مسلمان آبادی کے تناسب کو تیزی سے تبدیل کیا جارہا ہے لیکن ہم ہیں کہ اپنے جھگڑوں میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ سچ کہا ہے اقبالؔ نے
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں