کیا مولانا خالی ہاتھ جائیں گے؟

288

لوگ کہہ رہے ہیں کہ حضرت مولانا نے سر تو نہیں مُنڈایا لیکن اولے بے تحاشا پڑ گئے ہیں اور اسلام آباد کا پشاور موڑ اولوں سے اَٹ گیا ہے۔ یہ ذِکر ہے 6 نومبر کی شب کا جب اسلام آباد اور راولپنڈی میں پہلے اولے پڑے پھر موسلادھار بارش شروع ہوگئی اور ساری رات وقفے وقفے سے بارش ہوتی رہی اور تیز برفانی ہوا بھی چلتی رہی جس نے پشاور موڑ کے وسیع و عریض میدان میں لگے تمام خیمے اکھاڑ پھینکے، قناتیں گر گئیں، گیس کے چولہے بجھ گئے، کھانے پینے کا سارا سامان برباد ہوگیا اور آزادی مارچ کے شرکا پناہ کی تلاش میں تیتر بتر ہوگئے۔ وہ کہیں خالی کنٹینروں میں گھسے ہوئے ہیں، کہیں میٹرو بس کے خالی ڈبوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور کہیں مارکیٹوں کے برآمدوں میں سکڑے بیٹھے ہیں۔ یہ بیچارے بے گناہ اور معصوم لوگ جو اپنے امیر کے حکم پر اپنا گھر بار، کاروبار اور ملازمت چھوڑ کر یہاں آئے تھے اب پریشان ہیں کہ جائیں تو جائیں کہاں! اِن میں سے بیشتر کو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کس مقصد کے لیے یہاں آئے ہیں اور امیر محترم ان سے کیا کام لینا چاہتے ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز ان سادہ لوح اور معصوم لوگوں کے انٹرویو کررہے ہیں اور یہ لوگ میڈیا کو بتارہے ہیں کہ عمران خان نے ہمارے نبی پاکؐ کی توہین کی ہے ہم اس سے بدلہ لے کر رہیں گے۔ ایک نوجوان پُرجوش انداز میں کہہ رہا ہے کہ امیر صاحب نے حکم دیا تو ہم گستاخ رسول کا سر کاٹ کر امیر کے قدموں میں ڈھیر کردیں گے، ہم تحفظ ناموسِ رسالت پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ کچھ باریش نوجوان کہہ رہے ہیں کہ عمران خان یہودی ایجنٹ ہے اور یہودیوں سے لڑنے کا حکم تو قرآن میں بھی دیا گیا ہے۔ ہم پُرامن لوگ ہیں لیکن اپنے امیر کے حکم پر اپنی جان قربان کردیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب یہ سادہ دل لوگ بارش کے سبب بے خانماں ہوئے تو اسی ’’گستاخ رسول‘‘ اور ’’یہودی ایجنٹ‘‘ نے اسلام آباد انتظامیہ کو ہدایت کی کہ انہیں واٹر پروف خیمے اور خالی کنٹینرز فراہم کیے جائیں تا کہ یہ لوگ بارش اور ژالہ باری سے محفوظ رہ سکیں، جب کہ امیر محترم نے نہ ان کے ساتھ پشاور موڑ پر ایک رات گزاری نہ آکر ان کی خیریت دریافت کی۔
اور سنیے۔ ایں گلِ دیگر شگفت۔ امیر محترم کی نماز جمعہ کی جو ویڈیو وائرل ہوئی ہے اس میں مقتدیوں کی صفیں آگے ہیں اور امیر محترم پیچھے کنٹینر پر کھڑے امامت فرما رہے ہیں۔ یہ شاید دنیائے اسلام کی انوکھی نماز ہے جس میں امام پیچھے کھڑا ہے اور مقتدی اس کے آگے صف بستہ ہیں۔ یہ حرکت اگر کسی غیر مولانا سے سرزد ہوتی تو قیامت آجاتی‘ اُس پر کفر اور توہین صلوٰۃ کے فتوے لگ جاتے لیکن حضرت مولانا خود مفتی نہ سہی مفتی کے بیٹے ہیں اس لیے اجتماع میں موجود بہت سے مولویوں کے کان پر جوں نہیں رینگی اور انہوں نے ٹھنڈے پیٹوں اسے برداشت کرلیا۔ البتہ سوشل میڈیا پر اور عام لوگوں کے اس حرکت پر بڑے دلچسپ تبصرے دیکھنے اور سننے کو آئے اور کہا گیا کہ اِن مولویوں نے دین پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور اسے چٹائی کی طرح برت رہے ہیں۔ حالاں کہ یہ حرکت سب کی نہیں صرف ایک مولوی بلکہ حضرت مولانا کی تھی لیکن بدنامی سب کے حصے میں آگئی۔ حضرت مولانا چاہتے تو کنٹینر سے اُتر کر آگے آتے اور قاعدے کے مطابق نماز پڑھا سکتے تھے لیکن انہوں نے یہ زحمت گوارا نہ کی اور دین کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا۔ خیر چھوڑیے اس قصے کو یہ خالص مذہبی بحث ہے اور اکبر الٰہ آبادی کہہ گئے ہیں۔
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
آزادی مارچ اور دھرنے کے شرکا اگرچہ موسم کے تھپیڑے کھانے کے بعد شکستہ دل ہوگئے ہیں لیکن حضرت مولانا بدستور پُرعزم ہیں۔ حکومت کی مذاکراتی ٹیم اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں لیکن تادمِ تحریر بات ابھی تک بن نہیں پائی۔ حکومتی ٹیم کے سربراہ پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا درمیانی راستہ نکل آئے کہ نہ اپوزیشن کو خفت ہو نہ حکومت کو سبکی اٹھانی پڑے۔ اپوزیشن سے مراد صرف اور صرف حضرت مولانا ہیں۔ وہی اس بارات کے دولہا ہیں، باقی سب باراتی ہیں۔ گجرات کے چودھری برادران نے بھی حضرت مولانا سے مذاکرات کا ڈول ڈال رکھا ہے۔ سنا ہے کہ مولانا نے چودھریوں سے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ اسلام آباد سے خالی ہاتھ واپس نہیں جائیں گے، عمران خان کا استعفا نہ سہی، اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کا وعدہ ہی سہی۔ اسی آپشن پر بات چیت ہورہی ہے۔ خان صاحب نے بھی مونچھیں نیچی کرلی ہیں (ان کی مونچھیں نہیں ہیں نیچی کیا کریں گے یہ بات محاورتاً لکھی گئی ہے) اور کہا ہے کہ وہ استعفا تو نہیں دیں گے، البتہ دیگر آئینی مطالبات ماننے کو تیار ہیں۔ دیگر مطالبات وہی ہیں جس کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں۔
خدا کرے معاملات طے ہوجائیں اور حضرت مولانا کو اسلام آباد سے خالی ہاتھ نہ جانا پڑے، ورنہ انہوں نے ثابت کردیا ہے کہ وہ تنہا ہنگامہ اُٹھانے اور قیامت برپا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔