نواز شریف، زرداری اور دیگر بدعنوان کرپٹ سیاست دانوں کے ملک سے باہر جانے کی کوششوں کی اطلاعات پر شور شرابا ہے، سوال یہ ہے کہ یہ شور کیوں ہے؟ ملک کے جمہوری اور غیر جمہوری حاکموں نے اپنے سابقہ حکمرانوں کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی تو کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی تکلفاً یا قانوناً سہولت کی فراہمی کے لیے عدالتوں کا سہارا لیا گیا جنہیں ’’قانونی‘‘ قرار دیا گیا حالانکہ انگریز کے بنائے ہوئے قانون میں جیل سپریٹنڈنٹ کو ’’پے رول‘‘ کے تحت ملزموں اور مجرموں کو جیل سے باہر نکالنے کا اختیار ہے۔ ماضی میں متعدد خطرناک ملزمان جو سیاست کا لبادہ اُڑھے ہوئے تھے اسی قانون کے تحت جیلوں ہی سے کیا ملک سے بھی باہر جاتے رہے۔
اگر کسی بڑے سیاسی لیڈر کو کسی حاکم نے ملک سے باہر جانے کی سہولت فراہم نہیں کی تو وہ صرف ایک ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہیں جنرل ضیاء الحق نے ملک سے جانے نہیں دیا۔ ضیاء الحق آمر تھے انہوں نے ایسا کرکے ذوالفقار علی بھٹو کو ’’امر‘‘ کردیا۔ مگر وہ خود پاک فوج ہی نہیں بلکہ دنیا سے رخصت ہوگئے، طیارے کے ایک حادثے میں وہ 17 اگست 1988 کو فوجی یونیفارم میں خالق حقیقی سے جاملے۔ ملک میں کسی آمر کے دور میں سزائے موت کے باوجود ہمیشہ کے لیے ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کا نعرہ بن جانے والے بھٹو کسی بھی سیاسی جماعت کے پہلے مرکزی رہنما تھے جو اپنی وفات کے باوجود اپنے چاہنے والوں کے لیے آج تک زندہ ہیں۔ ان کو زندہ رکھ کر صرف سندھی اور بلوچ قوم کے مفاد پرست عناصر چاروں ہاتھ پائوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جنرل مشرف نے میاں نواز شریف سمیت ان کے پورے خاندان کو 1999 میں ’’ریلف‘‘ دیا تھا جس سے فائدہ اٹھاکر وہ ایک معاہدے کے تحت دس سال کے لیے سعودی عرب منتقل ہوگئے تھے۔ انہوں 21 سال تک واپس سیاست میں نہ آنے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ مشرف نے نواز شریف اور ان کے خاندان کو رعایت دینے کے ساتھ بطور بونس سیاسی شخصیات اور سیاست کی آڑ میں لوٹ مار اور قتل و غارت کرنے والے کم و بیش سات سو افراد کو نیشنل ری کنسٹرکشن آرڈیننس (این آر او) کے تحت رعایت دی تھی اور انہیں جیلوں سے رہائی کے ساتھ ان کے مقدمات ختم کردیے تھے۔ یہ وہی این آر او تھا جس کی وجہ سے بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری اور شریف فیملی وطن واپس آکر سیاست میں فعال ہوگئی تھی۔ سابق صدر مشرف خود این آر او کو ایک بڑی غلطی تسلیم کرچکے ہیں۔ اگر این آر او کے تحت یہ چھوٹ نہیں ملتی تو نواز شریف کو دوبارہ مجرم کی حیثیت سے علاج کے بہانے ملک سے باہر جانا نہیں پڑتا۔ سیاست دانوں کو این آر او کے تحت رعایت دینے کے عمل سے ملک کے اہم ادارے پر آج بھی انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں، اس لیے شبہ ہوتا ہے کہ این آر او نہیں مگر این آر او کی طرز پر چھوٹ دے کر نوازشریف، آصف زرداری اور دیگر کو قید سے چھوڑنے کی اطلاعات سے گمان ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے سر لگے این آر او کے الزام کو دھونا چاہتی ہے اور یہ موقف ہمیشہ کے لیے اپنا چاہتی ہے کہ جمہوری دور میں بھی تو سیاستدانوں کو اس طرح کی چھوٹ دی گئی ہے۔
وزیراعظم عمران خان سے اپنی پہلی حکومت میں غلطی نہیں بلکہ جو غلطیاں ہوئی ہیں ان میں یہ بڑی غلطی تھی کہ انہوں نے پوری قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ’’ملک کو نقصان پہنچانے اور یہاں کی دولت کرپشن کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرنے والوں سے ایک ایک پائی واپس کی جائے گی‘‘۔ مگر امکان ہے کہ کرپٹ عناصر اپنے علاج کے بہانے بغیر لوٹی ہوئی رقم دیے ملک سے باہر چلے جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو قوم عمران خان سے یہ سوال زندگی بھر کرتی رہے گی۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ قوم آئندہ کسی سیاسی لیڈر پر بھروسا کرنے کے بجائے کسی اور طرف دیکھنے لگے گی کیونکہ جمہوریت کے تسلسل کے لیے قوم کے پاس ان کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون سے ریٹائرڈ جنرل سابق آرمی چیف اور سابق چیف جسٹس اپنی جماعت قائم کرکے سیاست میں فعال ہوتے ہیں۔