پانچ اگست کے بعد پہلے سو دن

188

مقبوضہ کشمیر میں 5اگست سے بھارت کی طرف سے جاری فوجی محاصرے، مواصلاتی پابندیوں اور شدید برف باری کے باعث مسلسل 100ویں روز بھی معمولات زندگی مفلو ج رہے مقبوضہ علاقے میں دفعہ 144 کے تحت سخت پابندیاں عائد ہیں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز5 اگست سے مسلسل معطل ہیں، جموں کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے اور اسے دو مرکزی زیر انتظام خطوں میں منقسم کرنے کے فیصلے کے خلاف وادی میں تین ماہ سے زائد عرصے سے غیر اعلانیہ ہڑتال کا سلسلہ جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے اسپتالوں میں زندگی بچانے والی ادویات کی کمی کا سامنا ہے اطلاعات ہیں کہ وادی کشمیر میں ذیابیطس، دل اور کینسر کے مریضوں کے لیے زندگی بچانے والی دواؤں کی کمی ہو گئی ہے اگر اگلے چند دنوں میں دوائیں فراہم نہ کی گئیں تو طبی ایمرجنسی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ وادی میں ریل سروس پانچ اگست سے مسلسل معطل ہے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے فیصلے کی وجہ سے جموں و کشمیر ایک بہت بڑی جیل میں تبدیل ہوگیا کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں وکشمیر شاخ کے رہنماء مقبوضہ کشمیر کی بدترین صورتحال پر شدید تشویش ظاہر کررہے ہیں جہاں 5 اگست سے جاری فوجی محاصرے کے تحت کشمیریوںکے بنیادی حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔ اسلام آباد میں جاری ایک بیان میں بھارت کے تمام دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر عالمی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سیدعلی گیلانی اور میرواعظ عمر فاروق کی گھروں میں مسلسل نظربندی اور سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے پر پابندی کی شدید مذمت کی بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد دنیا بھر کے ساتھ ساتھ برطانیہ کی انتخابی مہم کے دوران بھی تنازع کشمیر کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ تارکین وطن کشمیری حزب اختلاف کی لیبر پارٹی کی مدد سے ووٹرز پر اثرانداز ہونے کے لیے سوشل میڈیا کے پیغامات اور چیٹ گروپس استعمال کررہے ہیں۔ لیبر پارٹی نے حال ہی میں کشمیریوں کے حق میں ایک قرارداد منظورکی جس میں کشمیر میں بین الاقوامی مداخلت کی حمایت کی گئی ہے تاہم بھارت نواز لابی بھی سرگرم ہے ایودھیا کیس سے متعلق عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے موقع پر جموں خطے میں احتیاطی طور پر عائد احتیاطی پابندیوں کو ہٹا دیا گیا۔
دنیا بھر میں جمہوری اور صحافتی آزادیوں پر نظر رکھنے والے ایک غیر سرکاری ادارے فریڈم ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ فریڈم ان دا ورلڈ 2019 کے نام سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں دنیا کے جن ایک سو ملکوں میں جمہوری حقوق، شہری اور صحافتی آزادیوں کی درجہ بندی کی گئی ہے مقبوضہ کشمیر کو جمہوری آزادیوں کی درجہ بندی میں 49 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ یعنی وہاں جزوی طور پر آزادیاں حاصل تھیں کشمیر کے بارے میں مرتب
کی جانے والی رپورٹ میں بھارتی حکومت کی جانب سے اپنے زیر قبضہ کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت تبدیل کرنے اور وہاں عائد کی گئی حالیہ پابندیوں کا احاطہ نہیں کیا گیا اور اس سلسلے میں تمام جائزے اس سے قبل کی صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی آئین کی شق 370 کے تحت خاصی حد تک خود مختاری حاصل تھی آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے وزیر اعظم عمران خان سے تاشقند، شملہ اور لاہور معاہدوں کو تحلیل کرنے کی اپیل کی ہے۔ سید علی شاہ گیلانی، جو گھر پر تقریباً ایک دہائی سے نظربند ہیں، نے کہا، چونکہ بھارت نے تمام باہمی معاہدوں کو یکطرفہ طور پر ختم کردیا ہے، پاکستان کو بھی معاہدہ تاشقند، شملہ اور لاہور کی تمام شقوں سے دستبرداری کا اعلان کرنا چاہیے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی شاہ گیلانی نے ایک خط میں وزیر اعظم عمران خان سے کہا کہ ’’یہ ایک نازک صورتحال ہے ممکن ہے کہ یہ آپ سے میری آخری اپیل ہو، خراب صحت اور بڑھاپا مجھے دوبارہ آپ سے مخاطب ہونے کی اجازت نہ دیں بزرگ رہنماء سید علی گیلانی نے وزیر اعظم عمران خان پر زور دیا کہ اسلام آباد بھارت کے ساتھ متعدد امن معاہدوں کی ’تمام شقوں‘ سے دستبردار ہوجائے اور ایل او سی کو دوبارہ جنگ بندی لائن بنایا جائے۔ سید علی گیلانی نے آل پارٹیز حریت کانفرنس کی طرف سے جاری خط میں کہاکہ پاکستان کو بھی کنٹرول لائن کو دوبارہ جنگ بندی لائن قرار دیناچاہیے
کیونکہ ہندوستان نے اس صورتحال کو پھر سے 1947-48 کی صورتحال میں تبدیل کر دیا ہے۔
مرکزی حکومت کے جموں کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے اور اسے دو مرکزی زیر انتظام خطوں میں منقسم کرنے کے فیصلے کے خلاف وادی میں تین ماہ سے زائد عرصے سے غیر اعلانیہ ہڑتال کا سلسلہ جاری ہے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے ساتھ ہی تنظیم نو قانون 2019 کے اطلاق کے بعد سرکاری زبان ’اردو‘ بحیثیت سرکاری زبان اپنا تشخص کھو سکتی ہے۔ تنظیم نو قانون 2019 میں حکومت نے واضح طور کہا ہے کہ جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری میں منتخب ہونے والی قانون ساز اسمبلی کے پاس اردو کی سرکاری زبان کی حیثیت سے تبدیل کرنے کے اختیارات ہیں اس قانون کی دفعہ 27 (1) کے مطابق قانون ساز اسمبلی ایک یا ایک سے زیادہ زبانوں، جو یونین ٹیریٹری میں لاگو ہیں، یا ہندی کو بطور سرکاری زبان استعمال میں لا سکتی ہے کیونکہ ہندی قومی زبان ہے جس کا استعمال جموں کشمیر یونین ٹیریٹری میں بھی کیا جائے گا۔ تنظیم نو قانون کی شِق اور فاروق خان کے بیان سے کشمیری عوام میں خدشات پیدا ہوئے ہیں کہ مرکزی سرکار جموں و کشمیر کی سرکاری زبان اردو کو ہمیشہ کے لیے دفن کردے گی۔ ساؤتھ ایشین وائر کے ساتھ بات کرتے ہوئے کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق پروفیسر محمد زماں آزردہ نے کہا کہ اردو کشمیر کی پہچان، تہذیب اور شناخت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر سرکار اردو کی جگہ کوئی دوسری متبادل زبان جموں و کشمیر میں سرکاری زبان کے طور پر لاگو کرے گی تو یہ ایک انسان کو اس کی روح سے منقطع کرنے کے مترادف ہوگا اردو زبان کو تبدیل کرنا کشمیر کی تہذیب پر یلغار ہوگا۔