اس کی طبیعت میں گہری اداسی تھی۔ کمرے میں پھیلے اجالے سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ فجر کی عبادت سے فارغ ہوکر اسے نیند آگئی تھی۔ گیلری سے آتی ہوا نے فضا کو صاف کردیا تھا۔ وہ دوسری منزل پر ایک فلیٹ میں مقیم تھا۔ اس نے وال کلاک کی طرف دیکھا۔ دیر ہوگئی تھی۔ وہ عجلت میں بستر سے اٹھا۔ وہ ایک دینی مدرسے میں ٹیچر تھا۔ اسے احساس تھا وہ اپنے آخری روز وشب گزار رہا ہے۔ وہ ساٹھ برس کا ہو چکا تھا۔ بچپن ہی سے وہ ناقابل علاج بیماریوں میں مبتلا رہا تھا۔ اس نے کامیاب ازدواجی زندگی بھی گزاری، بچے بھی ہوئے، کاروبار بھی کیا اور اب معلمی بھی۔ وہ سارے کام کرتا تھا اور بھرپور طریقے سے کرتا تھا لیکن اسے دوائوں کی ضرورت رہتی تھی۔ اس کے باوجود اپنے ہم عمروں سے وہ زیادہ صحت مند اور توانا تھا۔ وہ محسوس کرتا تھا کہ ابھی بھی اس کے پاس اتنی بصیرت ہے کہ اپنی فیملی کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ زندگی کے مہین دھاگوں کو مضبوط کرنے میں ان کی مدد کرسکتا ہے لیکن اب شاید اس کے مشوروں کی ضرورت نہیں رہی۔ دنیا بہت بدل چکی ہے۔ نئی دنیا کا انتظام سنبھالنے میں بچوں کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔
کپڑے بدلتے سمے، اس کے سر میں ہلکے ہلکے درد کی لہریں اٹھ رہی تھیں۔ ناشتہ وہ فیملی کے ساتھ کرتا تھا۔ سیڑھیاں اترتے اسے یاد آیا وہ ہیلمٹ بھول گیا ہے۔ وہ چیزیں بھولنے لگا تھا۔ جلد تھک بھی جاتا تھا۔ مٹتی ہوئی یادداشت کی تلخی اور جھنجلاہٹ سے اس نے دوبارہ سیڑھیاں چڑھیں۔ دروازے کی گھنٹی بجائی۔ بیوی نے مخصوص ناگواری سے دروازہ کھولا۔ محبت کی بجھتی ہوئی چنگاریاں اب بھی اس کے چہرے پر نظر آتی تھیں۔ علمی برتری، محبت آمیز رویوں، سادگی اور منکسرالمزاجی کے باوجود عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اہل خانہ میں اہمیت اور احترام کھوتا جارہا تھا۔ ردعمل میں اس کے مزاج میں ایک مستقل برہمی سی رہنے لگی تھی۔ گھر کے ایک کونے سے اس نے ہیلمٹ اٹھایا۔ انہیلر سے دو دم لیے اور واپس دروازے کی طرف پلٹ گیا۔
موٹر سائیکل کو ککیں مارنے میں اسے وہی دشواری درپیش تھی جو پہلے کبھی کبھی پیش آتی تھی۔ اس کی سیلی ہڈیاں اور درد کرتے گھٹنے زور سے کک مارنے میں مزاحم تھے۔ سڑکوں پر ٹریفک روز کی طرح آج بھی ویسا ہی غیر مہذب اور قاعدے قانون سے عاری تھا جس کی موجودگی میں تحفظ کا ہر احساس فنا ہو جاتا ہے۔ ایک دوسرے کے لیے حقارت ہر شہری کے رگ وریشے میں اس طرح سمائی تھی کہ سب ایک دوسرے کو ٹکر مارتے، کچلتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچنا چاہتے تھے۔ گاڑیوںکا دھواں اس کے چاروں طرف یوں چکر لگاتا جیسے زندگی کی ان گنت چتائوں سے اٹھ رہا ہو۔ مسلسل اعصابی تنائو میں وہ احتیاط سے موٹر سائیکل چلاتا تھا جس کے باعث بہت زیادہ تھک جاتا تھا۔ وہ ایکسیڈنٹ میں مرنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اپنے لیے قابل احترام موت چاہتا تھا۔
صبح آٹھ بجے مدرسے میں پڑھائی آغاز ہوتی تھی۔ جوانی اور ادھیڑ عمری کی کاروباری ناکامیوں کے بعد اس نے معلمی کا پیشہ اختیار کیا تھا جو اس کے مزاج سے مناسبت رکھتا تھا۔ صبح بیدار ہونے کے
بعد اس کی اولین کوشش مدرسے پہنچنا ہوتا تھا۔ مدرسے میں داخل ہوتے ہی اس کے مزاج میں مستعدی آجاتی۔ موٹر سائیکل روک کر وہ کھڑا کرنے کی کوشش ہی کرتا کہ کوئی طالب علم اس کی طرف لپکتا اسے احترام سے سلام کرتا۔ موٹر سائیکل اسٹینڈ پر کھڑی کردیتا وائر لوک لگاتا اور چابی حوالے کردیتا۔ وہ باوقار قدموں سے گیٹ کی طرف قدم بڑھاتا۔ اس سے پہلے طالب علم شانوں سے لٹکا بیگ اس سے لے لیتے، چوکیدار ہاتھ پیشانی تک لے جاکر سلام کرتا اور آگے بڑھ کر مصافحہ کرتا۔ وہ رجسٹر پرآمد کے وقت کا اندراج کرتا۔ اس دوران دیگر معزز استاد اس سے سلام دعا، خیر خیریت اور ہلکی پھلکی باتیں کرتے۔ سیڑھیاں چڑھنے کے لیے جوتیاں اتارتا تو کوئی طالب علم بڑی سعادت مندی سے اس سے جوتیاں لے لیتا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے طالب علم اسے دیکھ کر احترام سے ایک طرف ہو جاتے، بصد ادب سلام کرتے۔ وہ عالمانہ وقار سے سلام کا جواب دیتا، راہداری سے گزرتے ہوئے اسٹاف روم میں داخل ہوجاتا۔ طالب علم جوتے جگہ پر اور بیگ میز پر رکھ کر خاموشی سے اپنی جماعتوں میں چلے جاتے۔ یہاں تک آتے اس کا چہرہ کئی گنا منور ہوجاتا تھا۔
اسٹاف روم میں بیٹھ کر وہ تھوڑی دیر سستاتا۔ موٹر سائیکل چلانا اسے توڑ دیتا تھا۔ بیگ اپنی طرف کھسکا کر بلڈ پریشر اور جسمانی درد رفع کرنے والی گولیاں نکالتا۔ راہداری سے گزرتا کوئی طالب علم ایک لحظہ اسے دیکھتا اور اگلے ہی لمحے پانی کا گلاس اس کی خد مت میں پیش کردیتا۔ جب تک وہ دوانہ کھا لیتا طالب علم مودب کھڑا رہتا۔ آج اس کے پیٹ میں وہی درد پھر جاگ رہا تھا زندگی کی لاحاصل جدوجہد میں جو کبھی کبھی اپنا احساس دلاتا رہتا تھا۔ اس درد کو وہ کبھی اپنی ذمے داریوں میں حائل نہیں ہونے دیتا تھا۔ طالب علم گلاس واپس لیتے ہوئے آہستگی سے کچھ کہتا تو وہ اندازے سے سننے کی کوشش کرتا۔ اس کے دائیں کان کی سماعت متاثر ہوتی جارہی تھی۔ ساتھی اساتذہ اس سے بے تکلفی سے باتیں کرتے لیکن ان کے رویوں سے اس بات کا اظہار ہوتا تھا کہ وہ اسے ایک ذی علم اور عالی مرتبت استاد سمجھتے ہیں۔
بے ترتیب زندگی گزارنے کے باوجود وہ خدائی فیصلوں پر یقین رکھتا تھا۔ اس نے افسوس کے ساتھ ماضی کے زیاں کو سوچا اور مدرسے کے پُر عظمت ماحول میں کھو گیا۔ بے رحمانہ انداز میں مات دیتی زندگی یک دم فتح میں بدل جائے مدرسے میں اسے ایسا ہی محسوس ہوتا تھا۔ کھوئے ہوئے انداز میں اس نے کتابیں کھولیں۔ پڑھانے سے پہلے وہ ایک گھنٹہ سارے دن کے لیکچرز کی تیاری کرتا تھا۔ کتابوں میں چھپے الفاظ ہر روز اسے نئے مفاہیم اور رازوں سے آشنا کرتے تھے۔ کلاس رومز میں طلبہ کے سامنے جاتے ہوئے وہ کتابوں سے اخذ علوم، تصورات اور نظریات سے آراستہ ایک ممتاز، قابل، مستعد اور پُر یقین استاد کے روپ میں ڈھل جاتا جو طلبہ کو ہر بات قطعیت کے ساتھ سمجھا سکتا تھا۔ طالب علموں سے اسے اس قدر احترام اور عزت ملتی تھی کہ وہ اپنے آپ کو ان سے بہت قریب محسوس کرتا تھا۔
پہلی شفٹ کی کلاسز کے بعد آرام کرنے سے پہلے وہ کھانا کھاتا۔ اپنی پرجوش جوانی میں وہ ٹوٹ کرکھاتا تھا مگر اب احتیاط سے ماورا لقمہ بھی نہیں توڑتا تھا۔ وہ طعام گاہ میں نہیں کھاتا تھا۔ ہو نہار شاگرد اس کے معمولات سے واقف تھے۔ سادہ لوحی اور معصومیت سے وہ اسٹاف روم ہی میں اس کے لیے کھانا لگاتے۔ طلبہ کے لیے وہ عقیدت کا
مرکز تھا۔ یہ بچے انتہائی جذبے اور شوق سے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ دینی تعلیم ان کے عقیدے کا حصہ اور ایمان کی تقویت کا باعث تھی اور اسی جذبے کے ساتھ وہ اساتذہ کی خدمت کرتے اور ان سے تکریم سے پیش آتے تھے۔ کوئی بچہ ذمے داری سے اس کے لیے گرم روٹی کی جستجو کرتا تو کوئی ٹھنڈے پانی کے گلاس کی۔ شاگردوں کے درمیان وہ خود کو شہنشاہ محسوس کرتا تھا۔ پانچ بجے چھٹی کے بعد وہ گھر واپس آتا تو بھی طلبہ کا یہی معمول رہتا۔ کوئی طالب علم اس کا بیگ اٹھاتا، کوئی جوتا اور کوئی ہلمٹ۔ کوئی طالب علم پہلے ہی چابی لے کر موٹر سائیکل اسٹارٹ کیے اس کے انتظار میں کھڑا ہوتا۔ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر وہ روانہ ہوتا توخوش دلی سے اس کے چہرے پر چاند رات کا سماں ہوتا۔
اگلی صبح اس نے وال کلاک کی طرف دیکھا۔ آج پھر دیر ہوگئی تھی۔ بیوی ناشتہ بنارہی تھی۔ بیٹا اسپتال جانے کے لیے تیار ہورہا تھا۔ وہ ڈاکٹر تھا۔ چھوٹا بیٹا پختہ کار مرد کی طرح آہستہ آہستہ آفس کی تیاری کررہا تھا۔ وہ رات گئے تک فائلوں میں الجھا رہا تھا۔ بیٹی سوئی پڑی تھی۔ اس نے عجلت سے الماری سے کپڑے نکالے۔ کپڑے استری کرنے کے بعد اسے جوتے بھی پالش کرنے تھے۔