کراچی پر کتوں کا راج

269

مرزا غالب کو کتوں نے نہیں انسانوں نے کاٹا تھا۔ اس لیے غالب نے کہا ہے۔
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
ڈرتا ہوں آدمی سے کہ مردم گزیدہ ہوں
بعض انسان واقعتاً کتوں کی طرح کاٹتے ہیں۔ غالب کو ان کے معاصروں نے کاٹا۔ ان کی اپنی خواہشوں نے کاٹا، یہاں تک کہ سلطنت برطانیہ نے ان کا وظیفہ بند کرکے انہیں کاٹا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اہل کراچی کا ہے، اہل کراچی کو قلت آب کاٹتی ہے، ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کی عدم موجودگی کاٹتی ہے، کچرے کے ڈھیر کاٹتے ہیں، ابلتے ہوئے گٹر کاٹتے ہیں، ٹوٹی ہوئی سڑکیں کاٹتی ہیں، ایم کیو ایم کی بلدیہ کی نااہلی کاٹتی ہے، سندھ حکومت کی نالائقی کاٹتی ہے، وفاقی حکومت کی بے حسی کاٹتی ہے، اسٹیبلشمنٹ کی بے نیازی کاٹتی ہے۔ یہاں تک کہ اب کتوں نے بھی اہل کراچی کو بڑے پیمانے پر کاٹنا شروع کردیا ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق کراچی میں روزانہ سو سے ڈیڑھ سو افراد کو کتے کاٹ رہے ہیں۔ دی نیوز کراچی کہ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران سندھ میں کتے کے کاٹنے کے دو لاکھ واقعات ہوئے ان میں سے 90 ہزار واقعات صرف کراچی میں ہوئے۔ (دی نیوز کراچی۔ 3 نومبر 2019ء)
ہمیں ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ وہ رات گئے اپنی کار میں ایک شاہراہ سے گزر رہے تھے کہ کتوں کا ایک غول ان کی کار کے ساتھ بھاگنے لگا۔ ہمارے دوست کے بقول انہوں نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے اپنے عزیز سے کہا کہ وہ کار کی کھڑکی کا شیشہ اوپر کرلیں۔ ہمارے دوست کے بقول ان کے عزیز نے جیسے ہی کار کا شیشہ اوپر کیا ایک کتے کا منہ کار کی کھڑکی کے شیشے سے ٹکرایا۔ اگر کار کا شیشہ اوپر کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر بھی ہوجاتی تو کتا چلتی ہوئی کار میں موجود ایک شخص کو کاٹ لیتا۔
ہمارے ایک شناسا نے بتایا کہ انہیں کراچی کے ایک علاقے میں آوارہ کتوں نے گھیر لیا۔ وہ موٹر سائیکل پر سوار تھے۔ کتوں کے گھیرائو نے ان پر ایسا خوف طاری کیا کہ وہ موٹر سائیکل سمیت گر گئے۔ قریب ہی پان کی دکان پر موجود لوگوں نے یہ دیکھا تو وہ ان کی مدد کو آگئے اور ان کی جان بچ گئی۔ مگر سب لوگ خوش قسمت نہیں ہوتے۔
دی نیوز کراچی کی ایک خبر کے مطابق سرجانی ٹائون میں رہائش پزیر محمد سلیم کو کتوں نے کاٹ کھایا۔ واقعے کے مطابق محمد سلیم اپنی بیٹی کو فرنچ فرائز دلانے کے لیے گھر سے نکلے کہ ان کی بیٹی پر کتے نے حملہ کردیا۔ محمد سلیم نے اپنی بیٹی کو تو بچالیا مگر خود کتے کا نشانہ بن گئے۔ کئی لوگوں نے ان کو بچانے کی کوشش کی مگر کتا ان کو کاٹنے میں کامیاب ہوگیا۔ محمد سلیم کتے کے حملے میں زخمی ہونے کے بعد نیو کراچی میں موجود سندھ گورنمنٹ کے اسپتال پہنچے مگر وہاں کتے کے کاٹے کا علاج موجود نہیں تھا۔ وہ کراچی کے ایک اور بڑے اسپتال عباسی شہید پہنچے مگر وہاں بھی کتے کے کاٹے کی ویکسین دستیاب نہ تھی۔ محمد سلیم نے کہیں سے ویکسین کی ایک خوراک خریدی مگر انہیں اس سے زیادہ خوراک کی ضرورت تھی۔ طبی ماہرین کے مطابق جس شخص کو کتا کاٹ لے اسے Imunoglobulin کی چار سے پانچ خوراکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر محمد سلیم کو صرف ایک خوراک دستیاب ہوسکی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند دنوں کے بعد محمد سلیم Rabie encephalitis کا شکار ہو کر بستر مرگ پر لیٹ گیا۔ وہ چالیس دنوں تک بستر مرگ پر یقینی موت کا انتظار کرتا رہا اور بالآخر 5 نومبر کو جناح اسپتال میں دم توڑ گیا۔ اس کی عمر صرف 45 سال تھی اور وہ 6 بچوں کا باپ تھا۔
ملک کی آمدنی اگر 5000 ارب روپے ہے تو کراچی ملک کو ٹیکسوں کی مد میں 3000 ارب روپے فراہم کرتا ہے۔ صوبہ سندھ کی سالانہ آمدنی اگر ایک ہزار ارب ہے تو اس آمدنی میں کراچی کا حصہ 850 ارب روپے ہے۔ مگر کراچی کی ڈھائی کروڑ آبادی میں سے سوا کروڑ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، 2 کروڑ لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولتیں فراہم نہیں، کراچی کے ڈھائی کروڑ لوگوں میں سے ڈیڑھ کروڑ لوگ کچرے کے ڈھیروں کے درمیان زندگی بسر کرتے ہیں۔ کراچی کی ہر دوسری گلی میں گٹر ابلتے نظر آتے ہیں۔ کراچی کی 90 فی صد سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، کراچی میں مکھیاں اور مچھروں کی بہتات ہوجاتی ہے تو اسپرے نہیں ہوتا اور کراچی میں ہزاروں افراد ڈینگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کراچی میں کسی کو کتا کاٹ لے تو شہر کے بڑے بڑے اسپتالوں میں کتے کے کاٹے کی ویکسین دستیاب نہیں ہوتی۔ سیدنا عمرؓ نے کہا تھا کہ دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوک سے مر گیا تو مجھ سے باز پرس ہوگی۔ مگر کراچی میں انسان کتوں اور مچھروں کے کاٹنے سے مر رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کیا پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کے نزدیک اہل کراچی کا مرتبہ کتوں اور مچھروں سے بھی کم ہے؟۔
مذکورہ بالا بات نہ مذاق ہے نہ طنز ہے۔ سندھ رینجرز کے سابق سربراہ محمد سعید نے اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ کراچی میں گزشتہ 35 سال کے دوران 92 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو گزشتہ 35 برسوں کے دوران جتنے فوجی اور سول حکمران ہوئے ہیں ان سب پر 92 ہزار افراد کے قتل کا مقدمہ چلنا چاہیے۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ ریاست جس شہر میں 92 ہزار انسان مرواسکتی ہے اس شہر میں اہل کراچی کو آوارہ کتوں سے بچانے کے لیے شہر میں پندرہ بیس ہزار کتے نہیں مار سکتی۔ حکومت ایسا کرے گی تو Animals Right کا بڑا مسئلہ کھڑا ہوجائے گا اور ہمارے حکمرانوں کو حیوانوں کے حقوق کا بڑا خیال ہے۔ اس لیے کہ ان حقوق کا مغرب میں بڑا ذکر ہوتا ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ جو حکمران کراچی میں کتے اور کراچی سمیت پورے ملک میں مچھر نہیں مار سکتے وہ سرحد پر بھارتی فوجیوں کو کیسے ماریں گے؟۔
کراچی نے طرح طرح کے’’راج‘‘ دیکھے ہیں۔ کراچی اب ’’کتا راج‘‘ دیکھ رہا ہے۔ کراچی کے اکثر علاقوں کی گلیوں پر آوارہ کتے پوری طرح چھائے ہوئے ہیں۔ شہر میں روزانہ سو سے ڈیڑھ سو لوگوں کو کتے کاٹ رہے ہیں۔ چناں شہر کی ہر گلی شام ڈھلتے ہی ’’غیر محفوظ‘‘ ہوجاتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ کراچی پر دہشت گردوں کا راج تھا اور کراچی کی ہر گلی غیر محفوظ بنی ہوئی تھی۔ اب کراچی کی ہر گلی کو کتوں نے غیر محفوظ بنادیا ہے۔ یعنی کراچی میں دہشت گردی ایک نئی صورت میں واپس لوٹ آئی ہے۔ جس طرح حکمرانوں کو کراچی میں سیاسی دہشت گردوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا اسی طرح انہیں کتوں کی دہشت گردی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
تاریخ کا مطالعہ اور تجربہ بتاتا ہے کہ غریب انسانوں اور غریب علاقوں کا کوئی نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس امیر انسانوں اور امیر علاقوں پر سب توجہ دیتے ہیں۔ لیکن کراچی کا قصہ عجیب ہے۔ کراچی پاکستان کا امیر ترین شہر ہے۔ کراچی پورے پاکستان کو پالنے والا ہے۔ مگر کراچی کی طرف نہ کوئی جنرل ضیا اور جنرل پرویز مشرف دیکھتا ہے نہ کوئی بے نظیر، نواز شریف اور عمران خان دیکھتا ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کراچی میں یہ خیال عام ہے کہ کراچی کو منصوبہ بندی کے تحت تباہ کیا گیا ہے اور منصوبہ بندی کے تحت اسے نظر انداز کیا جارہا ہے اور اس کی وجہ تعصب ہے۔ بلاشبہ ایم کیو ایم کے ظہور اور ایم کیو ایم کی سیاست نے کراچی کے بارے میں یہ تاثر پیدا کیا کہ کراچی صرف مہاجروں کا شہر ہے مگر اس تاثر میں ایک حد تک ہی صداقت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اگر کوئی شہر حقیقی معنوں میں ’’قومی شہر‘‘ ہے تو وہ صرف کراچی ہے۔ اس کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ کراچی میں لاکھوں پنجابی، لاکھوں پشتون، لاکھوں سندھی اور بلوچی آباد ہیں۔ کیا پاکستان کا کوئی شہر ایسا ہے جہاں پاکستان کی تمام قومتیں اور تمام لسانی وحدتیں موجود ہوں؟ چناں چہ کراچی سے تعصب برتنے کا مطلب پاکستان کے اوریجنل آئیڈیے سے تعصب برتنا ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کسی ایک لسانی یا صوبائی وحدت کا ملک نہیں تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک بار سٹی ناظم نعمت اللہ خان صاحب نے ہم سے کہا کہ کراچی کو ’’منی پاکستان‘‘ کہنا بھی ٹھیک نہیں اس لیے کہ کراچی ’’منی عالم اسلام‘‘ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں افغانی، بنگالی اور برمیز بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کراچی سے نفرت صرف ’’منی پاکستان‘‘ سے نفرت نہیں منی ’’عالم اسلام‘‘ سے نفرت ہے۔ کہنے کو ہر حکمران کہتا ہے کہ کراچی پاکستان کا معاشی مرکز ہے، صنعتی مرکز ہے اور کراچی کی ترقی پورے پاکستان کی ترقی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ کراچی برسوں سے پانی کو ترس رہا ہے، ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولتوں کو ترس رہا ہے، نکاسی آب کے مناسب بندوبست کو ترس رہا ہے، صفائی کو ترس رہا ہے، یہاں تک کہ اب کراچی پر کتوں کا راج اہل کراچی کی فکر کو ’’کتا مرکز‘‘ بنانے پر تُلا ہے۔ یہ ظلم ہے، ناانصافی کی انتہا ہے اور اس سلسلے میں کوئی بری الذمہ نہیں، نہ ایم کیو ایم، نہ پیپلز پارٹی، نہ عمران خان، نہ تحریک انصاف، نہ اسٹیبلشمنٹ۔ اس لیے کہ کراچی کی دولت سے سبھی فیضیاب ہوئے ہیں۔