یہ بات خوش آئند ہے کہ ملکی معیشت کے چند میکرواکنامک اشاریوں (indicators) میں بہتری کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ تجارتی خسارہ سہ ماہی بنیادوں پر پندرہ سولہ ارب ڈالر کے بجائے پانچ چھ ارب ڈالر پر آگیا ہے۔ دو تین فی صد برآمدات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ رواں مالی خسارہ جس نے پوری معیشت کو ہلا دیا تھا اس میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔ زرمبادلہ کی قدر میں استحکام آگیا ہے اور امریکی ڈالر 155 روپے کی قیمت پر مستحکم ہے۔ حکومتی سخت اقدامات کے باعث مارکیٹ میں ڈالر کی طلب میں کمی اور رسد میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ لوگ جو قیمت بڑھنے کے انتظار میں ڈالر لیے بیٹھے تھے وہ اب اسے مارکیٹ میں لارہے ہیں۔ ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے ایکسپورٹرز کو آسانیاں فراہم کی جارہی ہیں۔ نئی منڈیاں تلاش کرنے کا کام بھی جاری ہے اور یہ بھی ایک حقیقت سے گزشتہ پچیس تیس سال میں جن ممالک نے نمایاں معاشی ترقی کی ہے ان میں ایکسپورٹ کا اہم کردار ہے۔ اسی طرح کاروبار میں آسانی (Ease of doing business) میں پاکستان کی درجہ بندی میں بہتری آئی ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں کاروبار بہتر ہوگیا ہے اور 100 انڈیکس کی سطح 37000 تک آگئی ہے۔
دوسری طرف ملک میں غربت اور متوسط طبقے کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ ٹماٹر کی قیمت خبروں کی زینت بنی ہوئی ہے کہیں سے 300 اور کہیں 400 روپے کلو فروخت ہورہا ہے اور یہ معاملہ ٹماٹر تک محدود نہیں تمام ہی سبزیاں ڈیڑھ سو سے دو سو روپے کلو تک پہنچ گئی ہیں۔ یہی معاملہ دودھ، دہی، آٹے اور روٹی کا ہے۔ کوئٹہ میں نانبائی 30 روپے فی نان بیچنے کا مطالبہ کررہے ہیں ساتھ ہی ہڑتال کی دھمکی بھی دے رہے ہیں۔ گوشت چاہے مرغی کا ہو یا گائے کا، عام آدمی کے لیے خریدنا مشکل ہوگیا ہے، پہلے مہنگائی کی وجہ سے لوگ گوشت کے بجائے سبزی کو ترجیح دیتے تھے۔ اب سبزی بھی ان کی پہنچ میں نہیں ہے۔ یہی حال دالوں کا ہے، اسی طرح چاول، کوکنگ آئل اور چینی کی قیمتیں ہوا سے باتیں کررہی ہیں۔ ایسے میں مشیر خزانہ کا یہ بیان کہ کراچی کی سبزی مارکیٹ میں ٹماٹر 17 روپے کلو فروخت ہورہا ہے، زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ مہنگائی کی اس صورتِ حال میں معاشی استحکام اور اسٹاک مارکیٹ کی بہتری کی باتیں عوام کے لیے بے معنی ہیں۔
مہنگائی کنٹرول کرنے پر حکومت کو اس وقت بھرپور توجہ دینی چاہیے، اس میں سب سے پہلے مہنگائی کے اسباب پر غور کرنا ہوگا۔ مثلاً ایک وجہ تو یہ ہے کہ گیس، بجلی اور تیل کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے باعث پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگیا ہے جسے (Cost Pash inflation) کیا جاتا ہے۔ ایک فلور مل کو گندم سے آٹا بنانے میں لاگت زیادہ لگانی پڑے گی تو وہ آٹا مہنگا کردے گا اور پھر روٹی کے تندوروں کو گیس مہنگی ملے گی، بجلی مہنگی ملے گی اور آٹا مہنگا ملے گا تو روٹی کی قیمت میں اضافہ تو ہوگا۔ دوسری وجہ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری ہے۔ مہنگائی کی اس فضا میں مڈل مین، ہول سیلرز اور خوردہ فروش بھی نرخوں میں اضافہ کردیتے ہیں۔ اس سلسلے میں پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی تشکیل کا اعلان تو ہوا ہے لیکن ماضی کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں کمیٹیاں بے اثر رہی ہیں بلکہ مزید کرپشن کا دروازہ کھل گیا۔
حال ہی میں آئی ایم ایف کا جائزہ مشن پاکستان کا دورہ کرکے واپس گیا ہے اور اس نے پاکستان کی معاشی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور اگلی قسط کی ادائیگی کا اعلان بھی کیا ہے۔ ایسے میں پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط میں نرمی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ پاکستان کو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے کہ جن سے پیداواری لاگت میں کمی ہو۔ اس کے بغیر مہنگائی میں کمی نہیں آسکتی۔ خبر ہے سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس کمپنیز گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کے درپے ہیں، حکومت کو ہرگز ان کمپنیوں کے مطالبے پر نرخوں میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ کمی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ اسی طرح پالیسی ریٹ جو انتہائی بلند سطح پر 1325 فی صد چل رہا ہے اس میں بھی کمی کرنا چاہیے۔ اسی طرح تیل کی قیمتوں میں کمی لانا چاہیے۔ مزید یہ کہ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوری کی پکڑ ہونا چاہیے۔حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز پر 10 سے 15 فی صد نرخوں میں کمی کا اعلان کیا ہے۔ لیکن ان اسٹوروں کا دائرہ بڑا محدود ہے۔ اسی طرح نوجوانوں کے لیے کچھ خوشنما اعلانات کیے گئے ہیں، یہ اعلانات بے معنی ہیں جب تک مہنگائی کا سدباب نہیں ہوتا۔