ـ28 نومبر کو کیا ہوگا؟؟

223

بات اب سندھ اور مرکز کی حکومتوں کی چپقلش سے بڑھ کر مرکز میں انتشار تک جاپہنچی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی زبان کی تلخی اور غصہ بہت کچھ بتا رہا ہے۔ ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اگلے دس پندرہ روز میں کیا ہونے والا ہے لیکن بعض اشارے ایسے مل رہے ہیں جو ساری کہانی سامنے رکھ چکے… وزیراعظم کے منصب پر براجمان شخص کو اپنے الفاظ ناپ تول کر استعمال کرنے چاہئیں لیکن دو تین روز سے ان کا انداز وہی ہوگیا ہے جو 2013ء میں کنٹینر پر تھا۔ وزیراعظم نے براہ راست عدلیہ پر حملہ کردیا، یہ حملہ عدالت عظمیٰ میں داخل ہونے سے زیادہ سنگین ہے۔ وزیراعظم نے عدلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدلیہ یہ تاثر دور کرے کہ طاقتور اور کمزور کے لیے الگ قانون ہے۔ وزیراعظم کا لہجہ بھی متکبرانہ ہوگیا ہے کہتے ہیںکہ سب مافیاز کے لیے پیغام ہے، اللہ نے مجھے مقابلے کی تربیت دی ہے۔ ہارنا آتا ہے جیتنا بھی ہار کے بعد کھڑا ہونا بھی۔ ان سب کو میرے سوا کوئی بھی وزیراعظم قبول ہے، وزیراعظم ہونے کے باوجود انداز گفتگو بہت عامیانہ تھا۔ کہتے ہیں کہ ڈیزل اور کشمیر کمیٹی پر بکنے والا دین کے نام پر لوگوں کو گمراہ کررہا ہے اس کی قیمت لگا کر جو مرضی فتویٰ لے لیں۔ نواز شریف کی ملک سے روانگی سے ایک روز قبل کہہ رہے تھے کہ پیسہ لوٹنے والے کسی شخص کو نہیں چھوڑوں گا۔ نواز شریف کا سمدھی اور دونوں بیٹے فرار ہیں، شہباز شریف اور داماد بھی بھاگا ہوا ہے۔ وزیراعظم اس تقریر کے موقع پر کسی طور بھی وزیراعظم نہیں لگ رہے تھے ان کے انداز پر تو کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ برسوں سے اس کے عادی ہیں ان کے مخالفین کہہ سکتے ہیں کہ اگر شہباز شریف کا بیٹا اور داماد بھاگا ہوا ہے اور سمدھی اور بیٹے فرار ہیں تو آپ بھی امریکا میں مقدمے کا سامنا کرنے سے فرار ہی ہوئے ہیں، لیکن اس سے زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ آپ مولانا فضل الرحمن پر تنقید کرنے کے بجائے دین اور فتوے کی بات کررہے ہیں کہ دین کے نام پر لوگوں کو گمراہ کررہا ہے۔ مولانا تو دینی جماعت کے امیر ہیں وہ دین کی بات ہی کریں گے لیکن کیا ریاست مدینہ کا نام مولانا فضل الرحمن نے لیا ہے۔ دین، مذہب اور مذہبی اصطلاحات تو حکومت استعمال کررہی ہے اور ریاست مدینہ کے برعکس کام کررہی ہے ان کو کیا کہا جائے۔
بہرحال مسئلہ وزیراعظم عمران خان نیازی کی تقاریر اور انداز گفتگو کا نہیں ہے بلکہ قومی سطح پر جو کچھ ہلچل ہے اس سے بہت سی باتیں ازخود سامنے آرہی ہیں۔ پورے ملک میں یہ کیفیت ہے کہ سب ہی حکومت کے جانے کی باتیں کررہے ہیں اور حکومت کا جانا یا نہ جانا کسی ایک عمل سے ظاہر نہیں ہورہا بلکہ بہت سی باتیں اس جانب اشارہ کررہی ہیں لیکن اشاروں سے کیا ہوتا ہے۔ وہی ہوگا جو ڈائریکٹرز نے فیصلہ کیا ہے۔ اگر مولانا فضل الرحمن کے دھرنے اور احتجاج کا جائزہ لیا جائے تو ان کی کیفیت عجیب ہے، وہ کہہ رہے ہیں کہ میں خالی ہاتھ تو نہیں آیا۔ ظاہر تو یہی ہورہا ہے کہ ان کو کچھ نہیں ملا… لیکن پاکستانی سیاست میں کوئی عمل عبث نہیں ہوتا کچھ کیا ہے تو کچھ ضرور ہوگا۔ مولانا بھی کہہ رہے ہیںکہ نتائج آنے والے ہیں۔ نتائج کیا ہوں گے اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی لیکن 28 نومبر کے فیصلے کا تعلق بھی اس سے براہ راست لگتا ہے۔ یہ قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں کہ جنگ بڑوں کی ہے عوام کا کوئی بھلا نہیں ہوگا، اس جنگ کے نتیجے میں ایک نہیں دو استعفے بھی آسکتے ہیں اور کچھ بھی تبدیل نہ ہونے والا نتیجہ آسکتا ہے۔ دو تین چہروں کی تبدیلی کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہمارا نظام عوام میں امیدوں کے چراغ بلکہ الائو دہکانے کے بعد کسی اور جانب رخ کرلیتا ہے اس لیے بہت زیادہ امیدیں باندھنے کی ضرورت نہیں۔ بادی النظر والے فیصلے بھی بہت آتے ہیں اور قانون کی نظر میں چند بڑوں کے سوا سب برابر ہی ہوتے ہیں، لہٰذا آنے والے دنوں کے بارے میں لب کشائی سے گریز ہی بہتر رویہ ہے، جیسے شیخ رشید بیمار ہوگئے ہیں ملاقاتوں اور مصروفیات سے بھی احتیاط کررہے ہیں، بیان بازی بھی بند کردی ہے حالانکہ ان کی بیماری ہی بیان بازی ہے۔ لیکن احتیاط کو ان سے زیادہ کون جانتا ہے۔ بادی النظر والے فیصلوں میں سے دو کی مثال تو ملی ہے ایک وزیراعظم کو نااہل کردیا دوسرے کو سزا دے دی… لیکن عوام کو کیا ملا۔
اب 28 نومبر کی آمد میں زیادہ دن نہیں حکومت بدلے گی، جنرل پرویز مشرف کو سزا ہوگی، وہ باعزت بری ہوں گے، آرمی چیف کوئی فیصلہ کریں گے، کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن ایک فیصلے میں سب کچھ شامل ہوگا۔ آرمی چیف نے فیصلہ کیا تو سب فیصلے اس کے ماتحت آجائیں گے۔ جنرل پرویز کو سزا ہوگئی تو بہت کچھ بدل جائے گا اور حکومت چلی گئی تو یہ بڑی خبر نہیں ہوگی۔ ایسی حکومتیں تو آتی اور جاتی رہتی ہیں۔ ایسا نہ ہوکہ خر رفت گائو آمد کے مصداق کوئی تبدیلی لائی جائے۔ ویسے ہمارے تبدیلیاں لانے والوں کے پاس خر اور گائو کے سوا کچھ ہوتا بھی نہیں۔