ایک نہیں دو استعفے

342

اسلام آباد میں دھرنا ہوا۔ کسی کو یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی کہ کراچی سے چلنے والا یہ نہایت سیلابی قسم کا ریلا اسلام آباد پہنچ کر ٹھٹھرا دینے والے سردی اور طوفانِ باد و باراں کے تھپیڑے کامیابی کے ساتھ جھیلنے اور اپنی ہیبت حکمرانوں کے دلوں میں بٹھانے کے بعد اچانک نہایت پْراسرار طریقے سے کیسے اٹھ گیا اور پھر اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نواز شریف کے لندن روانہ ہوتے ہی تجارتی شاہراہیں بند کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا، وہ سلسلہ بھی ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ اخباروں میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف ائر ایمبولینس کے ذریعے لندن پہنچ گئے۔ دوران سفر انہوں نے قطر کے دارالحکومت دوحا میں ڈیڑھ گھنٹے قیام کیا جہاں طیارے کی ری فیولنگ کی جبکہ سابق وزیراعظم کا رائل ٹرمینل لاؤنج میں طبی معائنہ بھی کیا گیا۔ اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی نے ملک بھر میں شاہراہوں اور سڑکوں پر جاری دھرنے ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ رہبر کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کمیٹی کے سربراہ اکرم خان درانی نے کہا کہ رہبر کمیٹی نے شاہراہیں اور سڑکیں بند نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے لہٰذا مظاہرین شاہراہیں اور سڑکیں فوری طور پر کھول دیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے بیرون ملک جانے سے حکومت بوکھلا گئی ہے۔ دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ حکمران دن گننا شروع کردیں ہم اسلام آباد سے خالی ہاتھ واپس نہیں آئے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ حکمرانوں کا کوئی نظریہ نہیں، ان کے پاس مخالفین کوگالیاں دینے کے سوا کچھ نہیں، ووٹ چوری کر کے حکومت کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، ہم پاکستان کی جمہوریت اور آئین کے تحفظ کے لیے نکلے ہیں، ان کی جڑیں کٹ چکیں اب اپنے دن گنتے جائیں، ہم اسلام آباد بلاوجہ نہیں گئے تھے اور ایسے ہی واپس نہیں آئے۔
قوم کے لیے یہ بات یقینا حیران کن تھی کہ ایک ایسا پْرجوش دھرنا جو بہت کچھ کردینے کی صلاحیت رکھتا تھا اور جس نے پوری عالمی برادری کو حیرت میں ڈالا ہوا تھا کہ وہ لوگ جن کے متعلق پوری دنیا نے اپنے ذہنوں میں یہ تصور بٹھایا ہوا تھا کہ وہ تمام افراد جو اسلامی تنظیموں یا مذہبی پارٹیوں سے وابستہ ہیں وہ معتدل افراد نہیں ہیں بلکہ انتہا پسند ہیں اور ان سے نجات نہ صرف پاکستان کو امن و سکون دے سکتی ہے بلکہ دنیا بھی متشددانہ کارروائیوں سے محفوظ رہ سکتی ہے۔ خاص طور سے وہ افراد جو مدرسوں سے وابستہ ہیں ان کے متعلق تو دنیا کی یہ متفقہ رائے تھی کہ یہ سارے افراد دہشت گرد اور متشدد ہیں اور ان کا جڑ سے خاتمہ بے حد ضروری ہے لیکن کراچی سے لیکر اسلام آباد تک سڑکوں پر آجانے اور چھا جانے والے لوگوں نے درختوں کا ایک پتا بھی نہ توڑ کر دنیا پر یہ ثابت کردیا کہ ان کے متعلق جو رائے دنیا نے قائم کی ہوئی ہے وہ مبنی برحقیقت نہیں اور ان سے زیادہ معتدل مزاج، اسلامی اقدارو روایات کا پاسدار، پْرامن، منظم، شستہ و شائستہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی ثابت کیا کہ مسلمان بد عہد نہیں ہوتا خواہ بظاہر اس میں اس کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو رہا ہو وہ ہر قیمت پر اپنے معاہدوں کی پاسداری کرتا ہے چنانچہ انہوں نے اسلام آباد پہنچنے سے قبل جو جو بھی عہد و پیمان حکومت سے باندھے تھے، ان پر قائم رہے اور جو جگہ ان کو دے کر کہہ دیا گیا تھا کہ وہ اس سے آگے نہیں جائیں گے، عہد کی پاسداری کرتے ہوئے وہ اس سے ایک انچ بھی آگے نہیں گئے۔ اسلام آباد کے مکینوں کے لیے کسی عذاب کا سبب نہیں بنے اور کسی مارکیٹ یا دکاندار کو کسی قسم کی آزمائش کا شکار نہیں کیا۔ 27 اکتوبر سے چلنے والی ایک تحریک کو 14 نومبر تک جس نظم و ضبط سے چلتے اور پھر وہاں سے واپس ہوتے دنیا نے جس انداز سے دیکھا وہ دنیا کے لیے ایک بہت حیران کن نظارہ تھا اور یقینا فضل الرحمن کے اس دھرنے سے دنیا اپنی رائے اہل مدرسہ کے خلاف بدلنے پر مجبور ہوئی ہوگی۔
جے یو آئی کی کامیابی کا ایک یہ پہلو تو ہے ہی بے مثل لیکن کیا وہ مقاصد جو جے یو آئی لے کر آئی تھی، ان مقاصد میں بھی کوئی کامیابی ان کے ہاتھ لگی یا وہ خالی ہاتھ واپس لوٹ گئے؟، یہ ہے وہ سوال جو آج کل پورے پاکستان کے زیر بحث
ہے۔ اس سلسلے میں دھرنا ختم کیے جانے سے کچھ پہلے کے واقعات کو احاطہ گفتگو میں لانا ضروری ہے تاکہ وہ سرگرمیاں جو دھرنے کے دوران جاری رہیں اور جس کی وجہ سے یہ دھرنا اپنے پلان ’’اے‘‘ سے پلان ’’بی‘‘ کی جانب رخ موڑ گیا، کا جائزہ لیا جاسکے۔ ہر پاکستانی کے علم میں یہ بات ہے کہ دھرنا شروع ہونے کے بعد جب حکومتی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑی تو حکومت نے ایک مذاکراتی ٹیم بنائی جس میں روح رواں بے شک پرویز خٹک ہی تھے لیکن اس میں ق لیگ کے چودھری پرویز الٰہی بھی شامل تھے۔ مذاکرات ہی کے دوران حکومت کی بنائی کمیٹی کو فضل الرحمن نے ناک آؤٹ کردیا لیکن کیا یہ بات تعجب خیز نہیں کہ اسی کمیٹی کے ایک رکن، پرویز الٰہی سے فضل الرحمن کے نہ صرف مذاکرات جاری رہے بلکہ ان ہی کی کسی یقین دہانی پر دھرنا ختم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ اس کے فوراً بعد پرویز الٰہی کا یہ کہنا کہ فضل الرحمن جھولی بھر کر لیکر گئے ہیں اور خود فضل الرحمن کا یہ کہنا کہ ہم ’’ایسے‘‘ ہی اسلام آباد تک نہیں گئے تھے اور ’’ویسے‘‘ ہی نہیں آگئے ہیں، اس بات کی نشاندہی ہے کہ ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘۔ دھرنا اٹھنے کے فوراً بعد ہی آرمی چیف کی عمران خان سے ملاقات اور اب حال ہی میں ڈی جی آئی ایس آئی کی عمران خان سے ملاقاتیں بھی کچھ نہ کچھ چغلی کھاتی نظر آتی ہیں جس کو غیر سنجیدہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ ایک اہم پیش رفت یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ دھرنے کے دوران فضل الرحمن نے ایک بات کہی تھی جس کو تمام ٹی وی چینلز نے بڑی اہمیت دی تھی اور وہ بات یہ تھی کہ فضل الرحمن نے استعفے کا ذکر کرتے ہوئے ’’ایک نہیں دو‘‘ کی بات کی تھی لیکن جب فضل الرحمن سے ایک نہیں دو استعفوں کا مطلب پوچھا گیا تھا تو وہ بات کو گول مول کر گئے تھے۔ ان کا بات کو گول مول کردینا اپنی جگہ لیکن اس بیان کے فوراً بعد حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ آرمی چیف کا ایکس ٹینشن آرڈر جاری ہو چکا ہے اس لیے اب اس میں کوئی رد و بدل ممکن نہیں، ایک نہیں دو کا مطلب سمجھاتا ہوا نظر آیا۔ پورا پاکستان جانتا ہے کہ آرمی چیف کو ایکس ٹینشن دینے کا اعلان حکومت کافی عرصے پہلے کر چکی تھی تو پھر فضل الرحمن کا یہ کہنا کہ ایک نہیں دو استعفے چاہئیں کے بعد حکومت کی اس وضاحت کی کیا ضرورت تھی کہ آرمی چیف کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا ہے؟۔ یہ بات تو آئی گئی ہو گئی تھی لیکن عمران خان سے آرمی چیف کی ملاقات کے بعد یہ خبر گرم ہے کہ آرمی چیف نے اپنی ایکس ٹیشن لینے سے انکار کردیا ہے اور ان کی جگہ جنرل سرفراز یہ عہدہ سنبھالیں گے۔ ان خبروں میں کتنی صداقت ہے اور کتنا غلو، لیکن فضل الرحمن کی یہ بات کہ ایک نہیں دو استعفے، کی سچائی ضرور سامنے آتی جا رہی ہے اور اگر یہ بات درست ہے اور ایکس ٹینشن لینے کے بعد آرمی چیف اپنی مدت ملازمت سے دستبردار ہورہے ہیں تو پھر لگتا ہے کہ عمران خان کا استعفا بھی عن قریب سامنے ضرور آجائے گا۔
ان سارے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے، اداروں کے بدلتے لب و لہجے، نیب کا یہ کہنا کہ ہواؤں کے رخ بدل رہے ہیں اور خود عمران خان کا اکھڑا اکھڑا لہجہ اس بات کی غمازی کرتا دکھائی دے رہا ہے کہ فضل الرحمن اسلام آباد سے واقعی خالی ہاتھ نہیں گئے ہیں اور ان کا یہ کہنا کہ ’’حکومت کی جڑیں کٹ گئیں اور چولیں ہل گئیں، عمران خان اپنے دن گننا شروع کردیں، ہم اسلام آباد ایسے ہی نہیں گئے اور ایسے ہی نہیں آئے‘‘ درست ہی لگنے لگا ہے۔
بات یہ نہیں کہ حکومت رہتی ہے یا نہیں رہتی، مائنس ون پر بات ختم ہوجاتی ہے یا حکومت کسی نئے اتحاد کے حوالے کرنے کے لیے ان ہاؤس تبدیلی عمل میں آتی ہے یا عمران خان اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کرتے ہیں، اصل بات یہ ہے کہ پاکستان اور پاکستان کے عوام جس عذاب میں گرفتار ہوچکے ہیں وہ بھی اس سارے عذاب سے باہر نکل پائیں گے یا مسائل کی دلدل میں مزید دھنستے چلے جائیں گے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو حکومت تو واقعی جاتی ہوئی نظر آرہی ہے لیکن جو امید کی کرن عوام کی فلاح و بہبودکی شکل میں طلوع ہونی چاہیے، وہ دور دور تک کہیں نظر نہیں آ رہی۔ ایسے موقع پر کیا کسی کی کامیابی کو شمار کیا جائے اور کیا کسی کو ناکامی کا طعنہ دیا جائے۔ دعا ہے کی جاسکتی ہے کہ جس بات میں پاکستان کے لیے اچھائی پوشیدہ ہو اللہ اس کو پورا کرے اس لیے کہ پاکستان ہے تو ہم اور ہمارے غم ہیں اور اگر پاکستان نہیں تو پھر ہم میں اور مقبوضہ کشمیر میں کوئی بھی فرق نہیں۔