یہ بات تو سبھی کہتے ہیں کہ اقبال بڑے آدمی تھے۔ لیکن اکثر لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ بڑے آدمی کی تعریف کیا ہے؟ بڑے آدمی کو Define کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقے کے مطابق بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو اپنے زمانے کو پھلانگ کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ بڑا آدمی وہ بات سوچتا ہے جو ایک گروہ کیا ایک قوم، ایک ملت بلکہ ایک امت بھی نہیں سوچ پاتی۔ لیکن اقبال نے ایسا کیا دیکھا جو پوری امت نہیں دیکھ پارہی تھی۔ اقبال کی نظم دعا کے چند شعر ملاحظہ کیجیے۔
یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے
پھر وادیٔ فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے
پھر شوق تماشا دے پھر ذوق تقاضا دے
محروم تماشا کو پھر دیدئہ بینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے
لیکن یہ تو صرف دعا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اقبال نے دیکھا کیا؟ اقبال کی نظم طلوع اسلام اس طرح شروع ہوتی ہے۔
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
اُفق سے آفتاب اُبھرا گیا دورِ گراں خوابی
عروق مردہ مشرق میں خونِ زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و غارابی
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
عطا مومن کو پھر دربارِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی، ذہن ہندی، نطقِ اعرابی
اقبال کے اس خواب کی تعبیر سامنے آنے میں ابھی وقت ہے مگر خود اقبال کی ’’شاعرانہ سلطنت‘‘ میں ’’شکوہِ ترکمانی‘‘ بھی موجود ہے۔ ’’ذہن ہندی‘‘ بھی فراہم ہے اور ’’نطقِ اعرابی‘‘ بھی اپنی بہاریں دکھا رہا ہے۔ اس طرح اقبال کی شاعری کی حد تک اقبال کے خواب کو تعبیر میسر آگئی ہے۔
بیسویں صدی کے سب سے بڑے مورخ ٹوائن بی نے کہیں لکھا ہے کہ چیلنج کے ساتھ انسان کے تعلق کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ انسان چیلنج کو ایک بوجھ میں ڈھال لیتا ہے اور اس کے نیچے دب کر رہ جاتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ انسان چیلنج کو قوتِ محرکہ یا Motivational Force میں تبدیل کرلیتا ہے اور اس سے اقبال کے الفاظ میں نیا زمانہ صبح و شام پیدا کرکے دکھاتا ہے۔ اس اعتبار سے بڑے آدمی کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ چیلنج سے ڈرتا نہیں ہے اسے قبول کرتا ہے اور اپنے وجود کی پوری قوت سے اس کا جواب دیتا ہے۔ ذرا اقبال کی ایک نظم کے یہ شعر تو ملاحظہ کیجیے۔
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
کبھی جو آمادئہ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آبسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹا دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر بھی ہوشیار ہوگا
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی وکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
اقبال کے زمانے میں استعمار نے جہاد کو قصہ پارینہ ثابت کرنا شروع کیا ہوا تھا۔ اقبال کے زمانے میں سر سید بھی موجود تھے اور مرزا غلام احمد قادیانی بھی موجود تھا اور انگریزوں کے زیر اثر دونوں یہ کہہ رہے تھے کہ جہاد بالسیف کا زمانہ گزر چکا اب جہاد بالقلم کا دور ہے۔ مگر اقبال کہہ رہے تھے کہ
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
اس تناظر میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ 20 ویں صدی کے آخری حصے اور 21 ویں صدی کے آغاز میں افغانستان کے اندر جہاد بالسیف پھر سے زندہ ہوگا اور اس کی برکت سے وقت کی دو سپر پاورز یعنی سوویت یونین اور امریکا کو شکست فاش ہوجائے گی۔ یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ اقبال کا زمانہ مغربی تہذیب کے عروج کا زمانہ تھا اور اس کی موت کا اعلان ناممکن تھا مگر اقبال نے یہ اعلان کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ مغربی تہذیب کی موت کا سبب یہ ہوگا کہ اس نے شاخ نازک پہ آشیانہ بنایا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ شاخ نازک کا مفہوم کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مغرب کی الٰہیات جس میں اس نے مادے اور انسان کو خدا کا درجہ دے دیا ہے۔ اس کا تصورِ علم جو وحی کے انکار پر فخر کرتا ہے اور سائنس، مشاہدے اور تجربے کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ اس کا وہ تصورِ انسان جس میں انسان کبھی حیوان کے مرتبے سے بلند نہیں ہو پاتا اور اس کا معروضی اخلاق یا Subjective morality۔ یعنی یہ خیال کہ اخلاقی اصول دائمی نہیں ہوتے بلکہ وقت اور حالات کے تحت بدلتے رہتے ہیں۔
عالمی ادب کی تاریخ میں صرف دو شاعر ایسے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری میں وہ جنگ جیت کر دکھادی ہے جو ان کی قوم میدانِ جنگ میں ہار گئی تھی۔ ان میں سے ایک شاعر اکبر الٰہ آبادی ہیں اور دوسرے اقبال۔ آپ اکبر کی شاعری پڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح مغربی تہذیب پر اسلامی تہذیب کی برتری ثابت کرتے ہیں۔ یہی کمال اقبال کی شاعری کا ہے۔ اقبال کی شاعری پڑھتے ہوئے آپ کو ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال نہیں آتا کہ یہ ایک ایسے شاعر کی شاعری ہے جس کی قوم عسکری معرکے میں دشمن سے بری طرح پٹ گئی ہے۔ بلکہ آپ کو اقبال کی شاعری پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک فاتح قوم کے شاعر کی شاعری ہے۔ بلاشبہ اقبال کا یہ کمال سو فی صد عطائے ربانی ہے۔ ایک شکست خوردہ تہذیب اور پٹی ہوئی قوم کا شاعر کبھی یہ نہیں کہہ سکتا۔
اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیسرے دور کا آغاز ہے
فرانس کے ممتاز فلسفی ژاں پال سارتر نے ایک جگہ لکھا ہے کہ جب ان کے ملک پر جرمنوں کا قبضہ ہوگیا تو سارتر نے محسوس کیا کہ اب زندگی کے سلسلے میں اس کی کوئی ذمے داری نہیں، اس لیے کہ اب وہ ایک غلام قوم کا فرد ہے۔ بلاشبہ غلامی انسان کو غیر ذمے دار بناتی ہے اور اس کے تناظر تک کو غلامانہ بنادیتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال سرسید ہیں۔ غلامی کے تجربے کی وجہ سے انہیں اپنی تہذیب میں عیب ہی عیب نظر آتے تھے اور مغربی تہذیب میں انہیں خوبیاں ہی خوبیاں ہی دکھائی دینے لگیں۔ یہاں تک کہ غلامی کے تجربے کی وجہ سے سرسید منکر قرآن اور منکر حدیث ہوگئے۔ انہوں نے تفسیر کی پوری روایت کو مسترد کردیا۔ انہوں نے اجماع کے اصول کو غلط قرار دے دیا۔ انہوں نے صاف کہا کہ عربی، فارسی اور اردو پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ مسلمانوں کو پڑھنی ہے تو انگریزی اور فرانسیسی پڑھیں۔ لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ غلامی کے جس تجربے نے سرسید کو ’’غیر ذمے دار‘‘ بنایا غلامی کے تجربے نے اقبال کو ’’ذمے دار‘‘ بنادیا۔ اقبال نے خود اپنی ایک نظم میں بتایا ہے کہ آزاد انسان کے الہام اور غلام آدمی کے الہام میں فرق ہوتا ہے۔ اقبال کے بقول:
ہو بندئہ آزاد اگر صاحب الہام
ہے اس کی نگہ فکر و عمل کے لیے مہمیز
اس کے برعکس غلام کے الہام کے بارے میں اقبال فرماتے ہیں۔
محکوم کے الہام سے اللہ بچائے
غارت گرِ اقوام ہے وہ صورت چنگیز
تو یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ غلامی میں بھی اقبال کا ذہن آزاد تھا۔ ان کی روح آزاد تھی۔ ایسا نہ ہوتا تو اقبال کی شاعری عہد ساز نہ ہوتی۔ جرمن ادیب ٹامس مان نے کہا تھا کہ بیسویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی۔ ٹامس مان کی یہ بات سو فی صد درست ثابت ہوئی۔ بیسویں صدی انقلابات کی صدی ہے۔ اس صدی میں روس، چین اور ایران میں انقلابات آئے اور انقلاب ایک سطح پر ایک سیاسی تصور ہے۔ بیسویں صدی میں دو عالمی جنگیں ہوئیں اور جنگ ایک سطح پر سیاسی مسئلہ ہے۔ بیسویں صدی نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کی صدی ہے اور نو آبادیاتی نظام کا خاتمہ ایک سیاسی جہت رکھتا ہے۔ اس تناظر میں اقبال کی شاعری کی اہمیت یہ ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو امت کی سیاسی تقدیر کے سوال سے منسلک کیا۔ اس اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو اقبال کی شخصیت، فکر اور شاعری 20 وی صدی کو Define کرنے والی چیزیں ہیں۔ یہ اعزاز دنیا میں شاید ہی کسی شاعر کے پاس ہو کہ وہ ایک قوم، ایک ملت اور ایک امت کے ماضی، حال اور مستقبل کے سوال سے نبرد آزما ہے۔
بڑے شاعر اور بڑے ادیب کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنی تہذیب کے ’’محسوس‘‘ کو ’’معلوم‘‘ اپنی تہذیب کے ’’مجرّد‘‘ کو ’’ٹھوس‘‘ اور اپنی تہذیب کے ’’غیب‘‘ کو ’’حضور‘‘ بنا دیتا ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے بیک وقت یہ تینوں کام کیے ہیں۔ اقبال کی ایک خاص بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا عروج و زوال ان کے لیے کوئی ’’علمی مسئلہ‘‘ نہیں تھا بلکہ یہ ایک ’’وجودی تجربہ‘‘ یا Existential Problem تھا۔ یعنی مسلمانوں کے عروج و زوال کا مسئلہ اقبال کے پورے وجود کو گرفت میں لیے ہوئے تھا اس کے بغیر اقبال کبھی عظیم شاعر نہیں بن سکتے تھے۔ اقبال کی شاعری کے اس پہلو کے باعث اقبال نے اردو شاعری کی پوری کیمسٹری بدل ڈالی۔ اقبال کی لغت الگ ہے۔ تشبیہات، استعارے، علامتیں اور تلمیحات جدا ہیں۔ ان کے تصورات اور شاعری میں پہلے کبھی بروئے کار نہیں آئے تھے۔ اقبال کا ایک کمال یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے ماضی کو ان کا حال بنادیتے ہیں اور اس حال سے ایک نئے مستقبل کی تخلیق کی طرف مسلمانوں کو مائل کرتے ہیں۔ چناں چہ اقبال کی شاعری میں ماضی، حال اور مستقبل ایک اکائی بن جاتے ہیں۔
(جامعہ کراچی کے شعبہ انگریزی میں یوم اقبال کے موقع پر کی گئی ایک تقریر)