نشہ کب اترے گا

146

عدل اور انصاف کسی بھی معاشرے کے استحکام کے لیے آکسیجن سے کم درجے کی خوبی نہیں‘ جہاں بھی عدل نہیں ہوگا وہاں فساد ہوگا‘ گویا فساد عدل کی ضد ہے‘ پاکستان میں ۷۲ سال کی تاریخ اسی کے گرد گھوم رہی ہے‘ حد تو یہ ہے کہ اب ارباب اختیار بھی گلہ اور شکوہ کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں‘ لیکن جب وہ ووٹ لے رہے ہوتے ہیں تو یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ملک میں عدل قائم کریں گے۔ پارلیمنٹ میں اکثریت مل جانے اور حکومت پالینے کے بعد نہ جانے یہ دعوے اور وعدے کہاں بھول آتے ہیں۔ چند روز قبل وزیر اعظم نے ارشاد فرمایا کہ امیر اور غریب کے لیے قانون ایک جیسا ہونا چاہیے‘ اس بحث میں صدر مملکت بھی شامل ہوئے ہیں کہ اگر قوم وزیر اعظم، عدلیہ اور انتظامیہ سے برابری اور مساوی سلوک کی توقع رکھتی ہے تو یہ غلط بات نہیں‘ سوال یہ ہے کہ آیا یہ عدل قائم کرنے کا کام حکومت کو کرنا ہے یا عام آدمی کو؟ عدل قائم کرنے کے دعوے بہت خوش نما معلوم ہوتے ہیں‘ دل کو بھاتے بھی ہیں‘ ذہن بھی یہ بات قبول کرتا ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہیے‘ ۷۲ سال گزر گئے ہیں ہمیں اس کام کے لیے بلی ملتی ہے تو گھنٹی غائب ہوجاتی ہے‘ گھنٹی مل جائے تو بلی غائب ہو جاتی ہے‘ بس یہی شطانی چکر چل رہا ہے‘ سچ یہ ہے کہ بلی اور گھنٹی دونوں حکومتوں کے ہاتھ میں ہیں اور رہی ہیں‘ لیکن یہ حکومتیں ہی ہیں جو کبھی بلی اور کبھی گھنٹی غائب کرتی چلی آرہی ہیں، اس میں عام آدمی کا کوئی قصور نہیں ہے۔
ہمارے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ یہاں کوئی قانون بھی قرآن و سنت کے منافی نہیں بنے گا اور پارلیمنٹ بھی کسی ایسے قانون کی حمایت نہیں کرسکتی‘ پھر رکاوٹ کیا ہے؟ اسلامی نظریاتی کونسل کی سالانہ رپورٹس پڑھ لی جائیں‘ کیسی کیسی شاندار سفارشات دی گئی ہیں‘ مگر پارلیمنٹ ان پر غور ہی نہیں کرتی‘ سیاسی نعرے بازی اور بے بنیاد پروپیگنڈا‘ میڈیا ٹرائل یہ سب کچھ ختم ہونا چاہیے۔ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے‘ سامنے آجانا چاہیے‘ اسی ملک میں عوام کتنی بار لوٹے گئے ہیں کسی کو احساس ہی نہیں‘ پورے تیس سال ہوچکے ہیں کوآپریٹیو بینک اسکینڈل آج تک حل طلب ہے‘ لاہور‘ اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ کراچی‘ غرض جہاں بھی چلے جائیں‘ قبضہ مافیا کا راج ہے‘ پلاٹوں‘ گھروں پر قبضے کیے جارہے ہیں اور عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے‘ برس ہا برس سے حکم امتناع چل رہے ہیں اور متاثرہ خاندانوں کی نسلیں انصاف کے لیے ترس رہی ہیں۔
وزیر اعظم ریاست مدینہ کا دعویٰ کرتے تھکتے نہیں گزشتہ حکومتوں کی طرح آج بھی فلاحی اعلانات ’’دھول مٹی‘‘ نکلے ہیں بس گرجنا، دھاڑنا باقی ہے اس ملک میں اس قدر بے روزگاری ہے کہ لوگ دھرنوں میں شوق سے چلے آتے ہیں کہ چلو وہاں پھلوں کی چاٹ‘ دہی بڑے اور قیمے والے نان تو ملیں گے۔ دنیا کے ممالک ہیں کہ ترقی کیے جارہے ہیں وہاں صحرا تک آباد ہورہے ہیں افریقا، روس اور کیلی فورنیا میں صحرائوں کو قابل استعمال بنایا گیا ہے۔ دبئی ہی دیکھ لیں اور ہم ہیں کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ادرک بھی چین سے منگواتے ہیں اب تو وزیر اعظم عمران خان نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ ’’شاید میری زندگی میں ریاستِ مدینہ نہ بن سکے‘‘۔ اس بیان سے لگتا ہے وزیر اعظم تھک گئے ہیں‘ لیکن دعویٰ کرتے ہیں کہ مقابلہ کرنا جانتا ہوں‘ آپ کی حکومت اور وسیم اکرم پلس تو فوگ اور اسموگ میں فرق نہیں جانتا‘ مقابلہ کس سے کرنا ہے واہگہ بارڈر اور لاہور ائرپورٹ سمیت سرحدی علاقوں میں ائر کوالٹی انڈیکس انتہائی زیادہ 396 ریکارڈ کیا گیا، یہ اسموگ تو اب لاہور سے باہر نکل رہی ہے شہروں میں درجہ حرارت بھی گِر رہا ہے‘ موسمیاتی تبدیلی کا چیلنج کوئی بھی قبول نہیں کر رہا حکمران یا لیڈر قوم کا رول ماڈل ہوتا ہے اور اس کی ہر حرکت، ہر پالیسی اور ہر اقدام قوم کو کسی نہ کسی طرح متاثر کرتا ہے۔ ایوب خان، بھٹو، ضیاء الحق، بینظیر اور نواز شریف سب اپنا کلچر لائے سیاست اور جمہوریت کا پہلا اصول ہی شفافیت ہے‘ یعنی اندر باہر کا واضح ہونا، عدلیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جج اپنے فیصلوں کے ذریعے بولتے ہیں مگر یہاں کچھ بھی واضح نہیں، کچھ کھل کر سامنے نہیں آرہا ہے کبھی چال بازی ہے تو کبھی جانی پہچانی عیاری اگر کوئی پس رہا ہے تو وہ عوام ہیں۔
کشمیر کے چین کی زندگی گزارنے والے باشندوں پر وہ قیامت ٹوٹی ہے جس کا قیاس کرنا بھی مشکل ہے لوگوں کو ان کے گھروں میں بند کر دیا گیا ہے۔ نہ انہیں خوراک میسر ہے نہ دوائیں، یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کو دودھ بھی خدا جانے نصیب ہوتا ہے یا نہیں۔ ظالموں نے علاقے کا گلا اس بری طرح گھونٹا ہے کہ لوگوں کی آواز دنیا تک نہیں پہنچ رہی ہے پاکستان جہاں ہونا تو یہ تھا کہ کشمیر کا نعرہ لگاتے ہوئے لوگ گھروں سے نکل آتے اور ایک طوفان اٹھاتے، معاملہ اتنا بے ڈھنگا ہوگیا کہ کشمیریوں کے حوصلے ہماری سیاست میں کہیں کھو گئے ہیں مودی سرکار نے کشمیر کا بٹوارہ کرکے لدّاخ کے علاقے میں اپنا حاکم بھی بھیج دیا اور ہم ہیں کہ قہقہے لگا رہے ہیں‘ بیماری کو سیاست اور سیاست کو بیماری بنائے بیٹھے ہیں۔