اب لکیر پیٹا کر

272

مصرع تو خیر کچھ اور ہے لیکن ہمارے ایک دوست نے موجودہ حالات کے تناظر میں اسے کچھ یوں کردیا ہے۔
میاں گئے ہیں نکل اب لکیر پیٹا کر
اور لکیر پیٹنے کا عمل بڑی شدت سے جاری ہے۔ خود وزیراعظم عمران خان اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ حالاں کہ انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ میاں نواز شریف واقعی بیمار ہیں اور انہیں بیرونِ ملک علاج کی ضرورت ہے۔ خان صاحب نے ان کے لیے بحالی صحت کی دُعا بھی کی تھی۔ شاید اُن کی دُعا کا فوری اثر ہوا اور میاں صاحب لندن پہنچتے ہی بھلے چنگے ہوگئے۔ خان صاحب کو اس پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے تھا لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ غیر معمولی اضطراب کا شکار ہوگئے ہیں۔ انہیں محسوس ہورہا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے اور یہ دھوکا خود حکومت کے مقرر کردہ میڈیکل بورڈ نے انہیں دیا ہے۔ انہوں نے شوکت خانم اسپتال کے دو ڈاکٹروں کو بھی میاں نواز شریف کے طبی معائنے کے لیے بھیجا تھا انہوں نے بھی خان صاحب کو یہی رپورٹ دی کہ میاں صاحب بیمار ہیں اور انہیں ایک نہیں کئی بیماریاں لاحق ہیں۔ چناں چہ خان صاحب کو یقین کرنا پڑا۔ کابینہ میں اس معاملے پر بحث ہوئی، اکثر وزیروں کی یہ رائے تھی کہ میاں صاحب کو مفت میں بیرون ملک نہ جانے دیا جائے، یہی موقع ہے ان سے جو کچھ مل سکتا ہے وصول کرلیا جائے۔ چناں چہ طے پایا کہ میاں نواز شریف سے 7 ارب روپے نقد طلب کیے جائیں، اگر وہ نہیں دیتے تو ان کی جائداد گروی رکھ لی جائے اور عدم واپسی کی صورت میں اس جائداد کو بحق سرکار ضبط کرلیا جائے۔ وزارت داخلہ نے جب ای سی ایل سے میاں صاحب کا نام نکالنے اور انہیں بغرض علاج بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے لیے شرائط نامہ شہباز شریف کے ہاتھ میں پکڑایا تو انہوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور قانونی چارہ جوئی کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ کی شرائط کو ایک طرف رکھتے ہوئے محض 50 روپے کے اسٹامپ پر حلف نامہ لے کر میاں نواز شریف کو پروانہ راہداری دے دیا۔ بس یہی وہ فیصلہ ہے جس نے عمران خان کے تن بدن میں آگ لگا رکھی ہے اور ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ کے مصداق کبھی وہ عدالتی نظام پر برس رہے ہیں، کبھی میڈیکل بورڈ پر غصہ نکال رہے ہیں اور کبھی یہ کہہ کر میاں نواز شریف کی بیماری کا مذاق اُڑا رہے ہیں کہ انہوں نے تو پلیٹ لٹس کا نام ہی پہلی بار سنا ہے۔ لیکن ’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت‘‘ خان صاحب نے شریف فیملی سے 7 ارب روپے وصول کرنے کی جو منصوبہ بندی کی تھی ایک ہی عدالتی جھٹکے نے اس منصوبہ بندی کا سارا کھیت ویران کردیا ہے اور خان صاحب کے پاس سوائے پچھتانے کے اور کچھ نہیں رہا۔ ان کے اس نعرے سے بھی ہوا نکل گئی ہے کہ کچھ بھی ہوجائے این آر او نہیں دوں گا۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ این آر او دینا عمران خان کے اختیار میں نہیں ہے، وہ کسی کو کچھ نہیں دے سکتے، اس کا اندازہ مولانا فضل الرحمن کے بیانات سے بھی لگایا جاسکتا ہے جن میں وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اسلام آباد سے خالی ہاتھ نہیں گئے بہت کچھ لے کر گئے ہیں۔ جب کہ خان صاحب کہہ رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کو کچھ نہیں ملا۔ ظاہر ہے انہوں نے کچھ نہیں دیا بلکہ دینے والوں نے مولانا کو دیا ہے۔
بہرکیف لندن پہنچتے ہی میاں نواز شریف کی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سب سے اہم بات تو یہ کہ انہیں اس ٹینشن سے نجات مل گئی ہے جو عمران حکومت نے انہیں دے رکھی تھی، وہ یہ ٹینشن اب عمران خان کو منتقل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ میاں صاحب جب تک لندن میں رہیں گے آثار یہی کہہ رہے ہیں کہ میاں صاحب کا لندن میں قیام طول کھینچے گا۔ ممکن ہے کہ وہ علاج کے لیے امریکا بھی چلے جائیں، امریکا میں سیاسی بیماریوں کا علاج بھی ممکن ہے، اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ میاں صاحب کی پاکستان واپسی جلدی ممکن نہ ہوگی، وہ اپنی سب بیماریوں کا علاج کراکے ہی واپس آئیں گے، اس دوران عمران خان بدستور ٹینشن کا شکار رہیں گے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ شاید وہ مدت پوری نہ کرپائیں لیکن ممتاز مزاح نگار انور مقصود کا کہنا ہے کہ میاں چلا جائے تو مدت نہیں عدت پوری کی جاتی ہے تو کیا عمران حکومت اِن دنوں عدت پوری کررہی ہے؟ کیا یہ عدت اُس وقت پوری ہوگی جب الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے خلاف پارٹی فنڈنگ کیس کا فیصلہ کرے گا؟ اس سوال کا جواب حالات ہی دے سکتے ہیں۔