فلسفی حکمران

300

افلاطون نے کہا تھا: حکمران فلسفی ہونے چاہییں یا حکومت فلسفیوں کے سپرد کردینی چاہیے، اسے بعض لوگوں نے اشرافیہ کی حکومت سے بھی تعبیر کیا ہے۔ ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ انسانی تاریخ کے کسی دور میں افلاطون کے خواب کو تعبیر ملی یا نہیں، لیکن ماشاء اللہ ہم جس دورِ ہمایوں میں جی رہے ہیں، اُس میں مسندِ اقتدار پر فائز اور رونق افروز فلسفیوں کا ایک جمّ غفیر ہے، اُن عالی مرتبت حضرات کے نام لکھیں تو ناراض ہوجائیں گے، پس: ’’عاقل را اشارہ کافی است‘‘۔ اُن کا احسان ہے کہ اپنی تقاریر، خطابات اور بیانات کی صورت میں قوم کے لیے روحانی غذا کا اہتمام فرماتے رہتے ہیں۔ بزعمِ خویش اپنے پیش رو حکمرانوں کی خامیوں، نالائقیوں اور خرابیوں پر جینا ان کا سرمایۂ افتخار ہے، کیا خبر رات کو سوتے میں بھی یہی بڑبڑاتے رہتے ہوں، کیونکہ اب یہ ان کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے، وہ اِس سے فرصت پائیں تو عوام کو راحت پہنچانے اور فیض رسانی کے بارے میں کچھ سوچیں، اگر اِسی آموختہ کو شب وروز دہرانا ہے، تو کام کی نوبت کہاں، تسلیم فاضلی نے تو اپنے محبوب کے بارے میں تمنا کی تھی:
خدا کرے کہ محبت میں یہ مقام آئے
کسی کا نام لوں، لب پہ تمہارا نام آئے
لیکن جناب وزیرِ اعظم کے معتوبین ومغضوبین خوش نصیب ہیں کہ اُن کا نام ازخود ہی جناب کے مبارک لبوں پر آجاتا ہے اور کسی روز بھی اس وِرد کا ناغہ نہیں ہوتا کہ مَبادا اُن کے عُشّاق وجاں نثاریہ آموختہ سبق بھول جائیں۔
دونظام: نواز شریف اور آصف علی زرداری کے قیدی ہونے کے باوجود اسپتال میں زیرِ علاج ہونے اور اب نواز شریف کو علاج کی غرض سے بیرونِ ملک سفر کی اجازت ملنے پر وزیرِ اعظم، اُن کے مُصاحبین اور وزرائے کرام شب وروز دہائی دے رہے ہیں کہ ملک میں دو نظام ہیں، ایک امیروں کے لیے اور دوسرا غریبوں کے لیے۔ پاکستان کی جیلوں میں اور بھی سیکڑوں قیدی ہیں، جو مُہلک بیماریوں میں مبتلا ہیں، لیکن ان کو مناسب علاج کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ کوئی پوچھے: حضور والا! دُہرے نظام کا یہ طَعن آپ کس پر کررہے ہیں، آیا یہ خود کلامی اور حدیثِ نفس ہے، کیا آپ کی مخاطَب کوئی بیرونی طاقت ہے یا محض شوقِ بیان کی تسکین ہے، کیونکہ روز بیان جاری کرنا بجائے خود ایک ایسا نشہ ہے، جس کے بارے میں داناؤں نے کہا ہے: ’’ یہ وہ نشہ نہیں جسے تُرشی اتار دے‘‘۔
حاکمِ وقت اور مسند نشینِ اقتدار تو آپ خود ہیں، دیر کیوں لگاتے ہیں، جلدی کریں، آگے بڑھیں، مسائل پر گریہ وزاری نہ کریں، بلکہ اُن کو حل کرکے دکھائیں، درد کا مداوا اور دُکھ کا دَرماںکریں، مرض کی نشاندہی نہ کریں، اُس کا علاج کریں، زخم کی نمائش نہ کریں، اُس پر مرہم رکھیں، حکومت تو غریب عوام کے لیے ’’مائی باپ‘‘ ہوتی ہے، آپ فریادی تو تب بنتے کہ کسی قانون یا کسی عدالت نے آپ کا راستہ روک رکھا ہوتا، ایسا ہرگز نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو علاج کی غرض سے آٹھ ہفتے کے لیے ضمانت پر رہا کرتے وقت عدالتی حکم نامے میں لکھاہے: ’’انتہائی بیمار قیدیوں کو علاج کی سہولت فراہم کرنا یا ضمانت پر رہا کرنا انتظامیہ کا اختیار ہے، چنانچہ عدالت نے ’’اصلاحِ جیل خانہ جات‘‘ کے قوانین مجریہ 1978ء کی مُتعلقہ دفعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے: اس میں عدالتوں سے رجوع کرنے کی کیا ضرورت ہے، یہ اختیار تو قانون کی رُو سے خود حکومت کو حاصل ہے۔ نواز شریف کے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے: اگر آٹھ ہفتے گزر جائیں اور علاج مکمل نہ ہو تو حکومت ضمانت پر رہائی کی مدت میں خود توسیع کرسکتی ہے، نیز اگر حکومت نفیاً یا اثباتاً کوئی فیصلہ نہ کرے تو اسے توسیع کے مُترادف سمجھا جائے گا، اگر مریض کی حالت بدستور تشویش ناک ہے اور حکومت زیادتی کرتے ہوئے اُسے جیل میں ڈال دیتی ہے، تو وہ حکومت کی بدنیتی کے ازالے اور دادرسی کے لیے پھر عدالتِ عالیہ سے رجوع کرسکتا ہے، پس ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پھر شور وغوغا کیسا۔ حکومت کا دوسرا تضاد یہ ہے کہ وہ یہ تاثر دیتی ہے کہ ہم نے نواز شریف کو خالص انسانی بنیادوں پر بیرونِ ملک جانے کی اجازت دی ہے، تو پھر بزرگ شاعر جنابِ ظفر اقبال کے اِس مشورے پر عمل کرنا ہی آپ کے لیے مفید ہوگا: ؎
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو، اُس پر ظفر
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے
سو اگر خواستہ و ناخواستہ یا طوعاً و کَرہاً آپ نے انسانی اَقدار کی پاسداری کا بیڑا اُٹھا ہی لیا ہے، تو صبر کیجیے اور اگر کسی غیبی طاقت نے یہ تاج آپ کے سرپر سجا دیا ہے، تو اس کا علم آپ کو ہوگا، ہم عالمِ شُہود کے ادنیٰ طالبِ علم ہیں، عالمِ غیب تک ہماری رسائی نہیں ہے، کیونکہ یہ رِجالِ غیب کی ممنوع حدود ہیں۔ لیکن پھر احساسِ جرم اور ندامت وپچھتاوا کیسا، دھڑلے سے اس کا کریڈٹ لیجیے کہ ہم انسانی اَقدار کے پاسبان ہیں، انسانیت اعلیٰ قدریں ہم سے خیرات میں لیتی ہے، یہی مشورہ چودھری شجاعت حسین نے بَربنائے اخلاص دیا تھا کہ دودھ دیا ہے، تو اُس میں مینگنیاں نہ ڈالیں، یہ گناہِ بے لذّت ہے، مگر عقل نہ اُدھار ملتی ہے اور نہ خیرات میں، سو آپ نے رعایت بھی دی اور پھر اُس میں مینگنیاں ڈالنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ چنانچہ متاثرہ فریق نے ایک بار پھر مینگنیاں نکالنے کے لیے عدالتِ عالیہ لاہور سے رجوع کیا، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے پہلے پٹیشن سے اختلاف کیا، پھر حکومت کے بعض ذمے داران نے عدالت کے فیصلے کو قبول کرنے اور اُس کا احترام کرنے کا دعویٰ کیا، بلکہ اٹارنی جنرل انور منصور اور معاون احتساب مرزا شہزاد اکبر نے عدالتی فیصلے کو اپنی فتح سے تعبیر کیا اور کہا: یہ تو ’’انڈیمنٹی بانڈ‘‘ سے بھی آگے کی چیز ہے جو بن مانگے ہمیں مل گئی، لیکن آخر میں پھر وہی اندازِ بیان، احتجاج اور فریاد، آغا شورش کاشمیری ایسی ہی دلفریب اداؤں کو ’’کہہ مُکرنیاں‘‘، کوسنے اور نجانے کن کن ناموں سے تعبیر کیاکرتے تھے۔
پس حوصلہ کرکے آگے بڑھیں! اور انسانی اَقدار کا پرچم بلند کرتے ہوئے انتہائی خطرناک بیماریوں میں مبتلا تمام قیدیوں کے لیے ایک میڈیکل بورڈ قائم کریں، جیلوں کا سروے کرائیں، مُہلک بیماریوں میں مبتلا تمام ضرورت مند مریضوں کو سرکاری اسپتالوں میں داخل کراکے تمام ٹیسٹ مفت کرائیں اور پھر اُن کے خاطر خواہ علاج کا بندوبست کرکے اُن کی دعائیں لیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بُزدار اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیان دے چکے ہیں کہ صوبۂ پنجاب کی جیلوں میں انتہائی خطرناک بیماریوں میں مبتلا مریض قیدیوں کی تعداد چار سو ہے۔ حکومت نے ویسے بھی ’’صحت انصاف کارڈ‘‘ کی اسکیم شروع کررکھی ہے، مُہلک بیماریوں میں مبتلا نادار قیدیوں سے بڑھ کر اور کون اس کا مستحق ہوگا، اُنہیں یہ کارڈ جاری کیجیے، اللہ تعالیٰ نے مسکین، یتیم اور قیدیوں کو کھلانے کا مدح کے طور پر ذکر فرمایا ہے: ’’اور اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اورکہتے ہیں: ہم تو بس اللہ کی رضا کے لیے تمہیں کھلاتے ہیں، ہمیں تم سے کوئی صلہ وستائش نہیں چاہیے، (الدھر: 8-9)‘‘۔ اسی طرح جو لوگ جرمانے یا تاوان اداکرنے کی سکت نہ رکھنے کے سبب طویل قید کی سزا بھگت رہے ہیں، اُن کے جرمانے ادا کرکے رہا کیجیے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’پھر وہ دشوار گزار گھاٹی میں کیوں نہ کود پڑا اور تو کیا جانے کہ وہ گھاٹی کیا ہے، (مالی بوجھ میں پھنسی ہوئی) گردن کو چھڑانا، (البلد: 11-12)‘‘۔
نواز شریف کو اپنے خرچ پر بیرونِ ملک علاج کرانے کی سہولت دی گئی ہے، اگرکوئی اور سزا یافتہ یا زیرِ تفتیش قیدی اسی طرح شدید بیمار ہے اور بیرونِ ملک اپنے خرچ پر اپنا علاج کراسکتا ہے، تو اسے بھی یہ سہولت دیجیے تاکہ نظام امیر وغریب، باوسیلہ و بے وسیلہ سب کے لیے یکساں ہوجائے اور تمام مجبور وبیکس لوگ آپ کی درازی ِ عمر بالخیر اور درازی ِ اقتدار کی دعائیں کریں۔ بیانات دینا تواُن کا حق بنتا ہے، جو حکومت میں نہیں ہیں اور بے اختیار ہیں، بااختیار اور برسرِ اقتدار لوگوں کا کام مرثیہ خوانی نہیں ہوتا، چارہ گری ہوتا ہے، مرض کی نشاندہی نہیں، اُس کا مداوا ہوتا ہے، زخم کی نمائش نہیں، اس پر مرہم رکھنا ہوتا ہے۔
مگر یہاں تو ساری تگ ودو اور کَدو کاوش کا مقصد میڈیا کی رونقیں بڑھانا ہوتا ہے، معروف تجزیہ کار اورکالم نگار ایاز امیر نے لکھا: یہ دنیا کی منفرد ممتاز حکومت ہے کہ جس میں کابینہ اور پارٹی اجلاس کی طرح پارٹی اور حکومتی ترجمانوں کے باقاعدہ اجلاس ہوتے ہیں، ان اجلاسوں میں یقینا انہیں مخالفین کے لتّے لینے، اُن کے بخیے اُدھیڑنے اور انہیں زِچ کرنے کے گُرسکھائے جاتے ہوں گے اور اسی بنیاد پر ان کی ریٹنگ، رینکنگ اور ترقیِ درجات کی منزلیں طے ہوتی ہوں گی، سو جب مخالفین کی توہین وتضحیک وفا کا پیمانہ قرار پائے تو کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی، بلکہ طلاقتِ لسانی، حاضر جوابی اور بڑھ چڑھ کر حریف پر الفاظ کی چاند ماری کا ملکہ ہونا چاہیے، زبان سے شعلہ باری کرتے جاؤ اور ترقی کی منزلیں طے کرتے جاؤ، کتنا آسان نسخہ ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’بیشک ہم نے انسان کو مَشقّت میں رہنے والا پیدا کیا، (البلد: 5)‘‘۔
عمران خان آئیڈیل ازم کی باتیں کرتے ہیں، لیکن ہمارے زمینی حقائق کسی انقلاب یا آئیڈیل ازم کے لیے سازگار نہیں ہیں اور حکومت کی ہیئتِ ترکیبی بھی مُتضاد عناصر کا مجموعہ ہے، سب کا ماضی، سَمتِ قبلہ اور ترجیحات جداجدا ہیں، ایسے سیٹ اَپ سے صرف وقت گزاری کا کام لیا جاسکتا ہے، کوئی جوہری تبدیلی لانا ممکن نہیں ہے۔ حکومت اپنے لیے مسائل پیدا کرنے میں خود کفیل ہے، میڈیا میں اُن کے ہمدرد اور غالی مُحِبّین بھی حیران و سرگرداں ہیں۔ ہمارا قومی مزاج ایسا ہے کہ جو ابتلا سے گزر رہا ہو، لوگوں کو اس سے ہمدردی ہوجاتی ہے، پھر وزیرِ اعظم کے خطابات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عدالتیں اور احتساب کا نظام ان کے انگوٹھے کے نیچے ہے، کسی کو اندر باہر کرنا، پکڑ دھکڑ اور نشانِ عبرت بنانا سب براہِ راست اُن کے قبضہ واختیار میں ہے، ادارے محض تعمیلِ ارشاد کررہے ہیں۔ آئینی اور قانونی نظام اور مضبوط روایات کے حامل ممالک میں ایسا نہیں ہوتا، اسی سبب بااختیار ادارے جتنا اب ہدفِ ملامت بن رہے ہیں، ماضی میں کبھی نہ تھے، ماضی میں صرف بااختیار افراد ہدفِ طعن بنتے تھے، پورے کے پورے ادارے نہیں، اب تو حکومت کی ناکامیاں بھی اہل بندوبست کی طرف منسوب ہوتی ہیں، یہ اچھی اور خوشگوار علامت نہیں ہے۔ (یہ کالم 20نومبر کو لکھا گیا ہے)۔