ابہام باقی نہیں رہا

157

جگہ جگہ لنگر خانے قائم ہیں‘ رات گزارنے کے لیے مسافروں کی سہولت عارضی قیام گاہوں سے پوری کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘ یہ ہماری حکومت کے کارنامے ہیں جن پر وہ فخر کرتی ہے‘ کیا یہ مستقل حل ہے‘ ہرگز ہرگز یہ مسائل کا مستقل حل نہیں‘ مگر یہ کام خوشنما بہت ہے‘ تنقید بھی کوئی نہیں کرتا اور رکاوٹ بھی کوئی نہیں بنتا۔ ہے یہ سب کچھ ملمع کاری‘ مستقل حل یہ ہے کہ جائز روزگار پیدا کیا جائے‘ جہاں لوگ کام کریں اور اس کا بروقت معاوضہ پائیں‘ اس جائز کمائی کو اپنی سماجی اور ذاتی فلاح کے لیے کام میں لائیں‘ حکومت یہ کرے گی اور نہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ ملمع کاری سے آئی ہے اور اسی طرح کے کام کرے گی لیکن کیا یہ رویہ پوری دنیا میں اپنی جگہ بنا چکا ہے؟ اس برس پانچ اگست‘ ایسا گزرا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر ہڑپ کرلیا‘ اس کی آئینی حیثیت ختم کردی اور اب انتظامی فیصلے کیے جارہے ہیں۔ مگر دنیا اور پاکستان کی حکومت صرف یہی مطالبہ کر رہی ہے کہ کرفیو اٹھایا جائے‘ ادویات فراہم کی جائیں‘ کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت بحال کی جائے۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سب خاموش ہیں اور ہمارے ترجمان بھی خاموش ہیں‘ دفتر خارجہ خاموش ہے‘ حکومت خاموش ہے‘ سیاسی رہنماء سب خاموش ہیں کیوں کشمیر کا اصل مقدمہ دنیا فراموش کررہی ہے؟ اس کا بات علم ہونے کے باوجود خاموش ہے کہ بھارت 72سال تک دنیا سے یہ منوانے میں ناکام رہا کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اس کی 8لاکھ سے زائد فوج بدترین ظلم کے کا باوجود کشمیری عوام کی تحریک آزادی کو دبا نہیں سکی پاکستان ان کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی مدد کے لیے کل بھی تیار تھا اور آج بھی تیار ہے پھر بھی ابہام کہاں ہے ہماری اخلاقی‘ سیاسی اور سفارتی حمایت کی ڈاکٹرائن میں کہیں کوئی کمی ضرور ہے اسی لیے تو کشمیر میں لاٹھی‘ گولی کا راج ہے۔
مسئلہ کشمیر کی علاقائی اور عالمی امن کے لیے انتہائی تشویشناک صورتحال پر بنیادی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں، سابق سفیروں، ماہرین بین الاقوامی قانون، تھنک ٹینکس کے نمائندوں، سلامتی کے ماہرین و محققین و مصنفین سب بے بس کیوں نظر آتے ہیں کیا ہمارے سردار مسعود خاں‘ شمشاد احمد خاں جیسے سفارت کاروں کے دلائل میں جان ہی نہیں رہی؟ اور تھنکس ٹینکس کی عقل‘ فہم اور فراست ناکام ہوچکی ہے؟ کہ مودی حکومت نے کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے لیے جو آسانی کے ساتھ فاشسٹ قدم اٹھایا ہے… جناب کچھ بھی ہوجائے اور بھارت الٹا بھی لٹک جائے مسئلہ کشمیر کے حل میں کسی طور کشمیریوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بالآخر عالمی امن کے لیے تشویشناک بن جانے والا یہ دیرینہ تنازع اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد ہی سے حل ہوگا… اس کے لیے مگر جراء ت اور ہمت چاہیے‘ ملمع کاری نہیں‘ اس سے کام نہیں چلے گا… حکمرانوں کو علم ہے کہ پاکستانی قوم جذباتی قوم ہے‘ ایک تقریر کم از کم ایک سال کے لیے کافی سمجھی جاتی ہے‘ تجزیے ہوتے ہیں‘ تبصرے ہوتے ہیں اور یوں ایک سال گزر جاتا ہے اگلے سال لوگ پوچھتے ہیں کہ تقریر گلے میں ڈالنی تھی یا پانی میں گھول کر پینی تھی‘ ہم اسی میں خوش ہوجاتے ہیں کہ پاکستانی مندوب نے عالمی فورم پر شاندار تقریر کی‘ کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے رہنماء سال میں کئی کئی بار یورپ جاتے ہیں‘ مشرق وسطیٰ جاتے ہیں‘ پبتا سناتے ہیں‘ کہیں سے ڈالر ملتے ہیں اور کہیں سے پائونڈ اور ریال‘ بس یہی ہمارے سیاست دانوں کی تحریک آزادی کے لیے خدمات ہیں‘ پیسہ بھی مل جاتا ہے اور سیر بھی ہوجاتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 6500کشمیریوں کی گم نام قبروں کا سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ ہمیں عالمی او ایل ایکس پر کب تک بیچو گے۔ ہندوستان کی جانب سے ریاست کو باقاعدہ دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے یوں تحریک آزادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے پاکستان کے سیاسی حالات نے مسئلہ کشمیر کو پس و پشت ڈال دیا۔
دونوں اطرا ف کے کشمیری پاکستان کی موجودہ صورت حال سے فکر مند ہیں۔ 1999 سے 2007 تک پاکستان کی آمریت نے تحریک آزادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اسی دوران میں بھارتی افواج نے سیزفائر لائن پر باڑ لگا کرکشمیر کے جنگلات میں بسنے والے چرند پرند کو بھی انسان کی طرح منقسم خاندانوں میں تقسیم کر دیا اس وقت مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر فلش پوائنٹ بن چکا ہے۔ امریکا یورپ کے ایوانوں میں کشمیر کی گونج سنائی دی جارہی ہے حکومت پاکستان کو اپنی حکومت بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کرنے میں مصروف ہیں دوسری جانب بھارتی افواج نے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے۔ کشمیریوں کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں دونوں اطراف کی کشمیری قیادت سیاسی عدم استحکام پر فکر مند ہے۔ سیزفائر لائن پر سیزفائر کی خلاف ورزیوں میں مسلسل اضافہ ہونے سے چودہ لاکھ انسانوں کی زندگیاں خطرے میںہیں… اور حکومت کی ملمع کاری جاری ہے۔